برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

421

قسط نمبر 175(حصہ سوم)
باقی ماندہ پاکستان کی کہانی۔ بھٹو صاحب کا اقتدار اور نئے آئین کا مطالبہ
ملک جو گنوانا تھا ہم سیاسی ناعاقبت اندیشی اور عجلت کے عبوری و جذباتی فیصلوں میں گنوا بیٹھے تھے۔ باقی بچ رہنے والے پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اقتدار حاصل کرچکے تھے۔ ان حالات میں جماعت اسلامی کے پاس ترجیحی اعتبار سے پاکستان کی بنیادی اسلامی اساس کو بحال کروانا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ اس لیے کہ بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالتے ہی واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ ’’اگرچہ پاکستان اسلامی مملکت ہے مگر اس کا نظام ’سوشلزم‘ کی بنیاد پر چلایا جائے گا۔‘‘
(حوالہ: قوم سے پہلا نشری خطاب زیڈ۔ اے۔بھٹو)
ان حالات میں کہ جب ہمارے نوّے ہزار فوجی و سویلینز ہندوستان کی قید میں ہوں اور دوسری جانب اسلامی ریاست کی بنیاد قرآن و سنت کو بنانے کے بجائے سوشلزم کے نظام کے تحت ملک کو چلانے کا حکومتی اعلان بھی ہوچکا ہو، ایسے میں جماعت اسلامی نے اسلامی تشخص اور نظام کی بالادستی اور اسلامی آئین کی تیاری کا پُرزور مطالبہ کیا۔ اس کے لیے امیر جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کیا جس میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد پیش آنے والے حالات اور پاکستان کو چلانے کے نظام کے لیے مشترکہ لائحہ عمل زیر بحث آئے۔
اس اجلاس میں ہندوستان کے حوالے سے قرارداد منظور کی گئی جس میں حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیاگیا تھا کہ مشرقی پاکستان میں مسلمانوں کا قتلِ عام رکوانے کے لیے ہندوستان پر اخلاقی و سفارتی دباؤ ڈالا جائے۔
اور اس میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ حمود الرحمن کمیشن پچھلے تین برسوں کا بھی جائزہ لے جس میں حالات اس خطرناک نہج پر پہنچے (جس کا منطقی نتیجہ سقوطِ پاکستان کی صورت میں برآمد ہوا)۔
مجلسِ عاملہ کی ایک اہم قرارداد یہ بھی تھی کہ فوری طور پر مارشل لا کے خاتمے کا اعلان کرکے ایک جمہوری حکومت کے قیام کا اعلان کیا جائے۔ اور مملکت کے استحکام و بقا کے لیے ایک ایسا آئین بنایا جائے جو قرآن و سنت کے مطابق ہو۔
بھٹو صاحب نے اپنے ابتدائی دور میں مارشل لا کے ڈنڈے کا سہارا لیتے ہوئے اصلاحات کا اعلان کیا، جس میں انہوں نے بڑے بڑے صنعتی اداروں کو قومی تحویل میں لینے کا اعلان کیا۔ ان کا یہ اقدام سوشلزم کا بنیادی ماڈل تھا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے مارشل لا کے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے سقوطِ مشرقی پاکستان کے بنیادی مجرم شیخ مجیب الرحمن کو رہا کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے انہیں لندن جانے کی اجازت فراہم کردی، اور بھٹو صاحب اپنے مشیرِ خاص غلام مصطفی کھر کے ساتھ انہیں ہوائی اڈے پر الوداع کہنے بطورِ خاص تشریف لے گئے تھے۔ لندن سے بنگلہ دیش واپسی پر شیخ مجیب کا جہاز جب دِلّی ہوائی اڈے پر رکا تو ہندوستان کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے ان کا قومی مہمان کی حیثیت سے استقبال کیا، اور جب شیخ مجیب کا جہاز ڈھاکا کے ہوائی اڈے پر اترا تو شیخ مجیب نے سب سے پہلا اعلان یہ کیا کہ آج کے بعد سے ان کا بنگلہ دیش پاکستان سے کسی بھی قسم کے تعلقات نہیں رکھے گا۔
میاں طفیل محمد (سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان) کا کہنا ہے کہ بطور قائم مقام امیر جماعت کے انہوں نے اخباری بیان جاری کیا تھا کہ ’’قوم نے بھٹو صاحب کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بننے کے لیے ووٹ نہیں دیا تھا۔‘‘
اس بیان کے جواب میں بھٹو صاحب اور ان کی جماعت ’پاکستان پیپلز پارٹی‘ کی جانب سے مارشل لا کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف سخت بیان بازی جاری رہی، اور اسی اثنا میں پیپلز پارٹی کی جانب سے مارشل لا جاری رکھنے کی سفارش بھی کردی گئی، جس کو بنیاد بناتے ہوئے مارشل لا جاری رکھنے کی توثیق بھی ہوگئی۔ اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سوشلزم کی بنیادی اکائی یعنی اصلاحات کا دور شروع ہوا جس میں زرعی اصلاحات کا اعلان کرتے ہوئے جاگیرداری کے خاتمے کا عندیہ دیا گیا۔ صنعتی اور تعلیمی ادارے وغیرہ سب قومی ملکیت میں لے لیے گئے۔
اس آمرانہ طرزِ حکومت کو جماعت اسلامی نے بھرپور انداز میں چیلنج کیا اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو ساتھ ملاتے ہوئے حکومت پر دباؤ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ مجلس شوریٰ بلائی گئی جس میں چار مطالبات پیش کیے گئے:
٭ دستور کی تشکیل کے لیے اسمبلی کا اجلاس فوری بلایا جائے۔
٭ اسمبلیاں دستور کے مطابق کام کریں۔
٭ مرکز اور صوبوں میں نمائندہ حکومتیں کام کریں۔
٭ اور صوبائی و بلدیاتی انتخابات کے لیے بنیادی ڈھانچہ تیار کیا جائے۔
جماعت اسلامی کے یہ مطالبات قطعی طور پر جمہوری تھے۔ بھٹو صاحب نے دباؤ کو ٹالنے کے لیے 24 مارچ 1972ء کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کا حکم نامہ جاری کیا، اور عبوری آئین کی تیاری کے لیے سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔11 اپریل کو پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے صدارتی حکومت کے قیام کا مطالبہ ہوا۔ تاہم حزبِ مخالف نے عبوری آئین کے مسودے کو مسترد کردیا۔ 14 اپریل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں عبوری آئین پیش کیا گیا جسے جماعت اسلامی نے ترمیمات کرکے واپس اسمبلی میں پیش کیا۔ پچیس ترامیم کے ساتھ اس مسودے کو مسترد کرتے ہوئے اسمبلی نے بھٹو صاحب پر اعتماد کرتے ہوئے عبوری آئین کو منظور کرلیا۔ مگر اتنا ضرور ہوا کہ بھٹو صا حب نے عبوری آئین کے احترام میں مارشل لا کو ختم کرتے ہوئے ایک سال کے اندر نئے آئین کی تیاری کا اعلان کیا، مگر یحییٰ خان کی جانب سے لگائی گئی ایمرجنسی جوں کی توں برقرار رہی۔
اسلامی آئین کی جمہوری جدوجہد اور مارشل لا کے خاتمے کے عوامی مطالبات کی وجہ سے جماعت اسلامی بھٹو صاحب کے لیے خطرہ بنتی چلی گئی۔ اسی دوران جماعت اسلامی کے رہنماؤں پر مقدمات بھی بنتے رہے اور ان کو ذہنی طور پر ہراساں کرنے کا عمل بھی جاری رہا۔ جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر ڈیرہ غازی خان سے قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہونے والے رکن ڈاکٹر نذیر احمد، بھٹو صاحب کے انتقام کا پہلا نشانہ بنے، اس لیے کہ وہ پنجاب سے منتخب ہونے والی واحد آواز تھی جو بھٹو صاحب کی فسطائیت کو ببانگِ دہل چیلنج کرتی تھی۔ ڈاکٹر نذیر احمد کھلے بندوں عوامی اجتماعات میں زرعی اصلاحات کے نام پر دھوکے بازی کو طشت ازبام کررہے تھے۔ چنانچہ 8 جون 1972ء کو انہیں دن دہاڑے غنڈوں کی مدد سے شہید کردیا گیا۔
جماعت اسلامی نے اس شہادت پر بھرپور احتجاج کیا اور پنجاب سمیت پورے ملک میں سوگ منایا گیا۔ ڈیرہ غازی خان میں تین دن تک کوئی بازار اور دکان نہیں کھلی اور تمام شہر نے اس سماجی و انقلابی رہنما ڈاکٹر نذیر احمد شہید کا سوگ منایا۔ ان کے جنازے میں ہزاروں سوگوار موجود تھے جو ڈیرہ غازی خان کی اب تک کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔
اسی کے ساتھ بھٹو صاحب کی ہندوستان کے ساتھ سفارت کاری بھی جاری رہی اور متنازع شملہ معاہدہ سامنے آیا جس پر بھٹو نے دستخط کیے۔
شملہ کی خوبصورت وادی اور سرسبز پہاڑوں پر طے پانے والے اس معاہدے کو ’’شملہ معاہدہ‘‘ کا نام دیا گیا۔ پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو ہندوستان کی وزیراعظم اندرا گاندھی کی دعوت پر 28 جون 1972ء کو ہندوستان کے صوبے ہماچل پردیش کے صدر مقام شملہ پہنچے۔ اس دورے میں پاکستان کی مرکزی کابینہ کے ارکان، وزارتِ خارجہ کے افسران، پاکستان کے صفِ اوّل کے صحافیوں کی ٹیم اور بھٹو صاحب کی 19 سالہ صاحبزادی بے نظیر بھٹو (پاکستان کی سابق وزیراعظم) پر مشتمل ایک 92 رکنی وفد بھی ان کے ہمراہ تھا۔
دونوں فریق نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ اپنے اپنے ملک کے بہتر مفاد میں باہم دست و گریباں نہیں ہوں گے۔
اس شرمناک معاہدے کے حوالے سے ممتاز کالم نگار ایف ایس اعجازالدین نے اپنے کالم میں، جو مورخہ 13 نومبر 2014ء کو روزنامہ ڈان میں شائع ہوا، لکھا کہ
’’اندرا گاندھی اور ذوالفقار علی بھٹو دونوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ’لائن آف سیزفائر‘ اب لائن آف کنٹرول میں تبدیل ہوچکی ہے، اور اس حلف نامہ کہ ’’دونوں ممالک اپنے اختلافات کو پُرامن طور پر دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے‘‘ میں کسی بھی طرح کوئی بھی تھرڈ پارٹی، خاص طور پر اقوامِ متحدہ شامل نہیں ہے۔
پی این ڈاہر، جو کہ مسز اندرا گاندھی کے سیکریٹری تھے، کہتے ہیں کہ جب مسز گاندھی نے معاہدے کے تمام نکات کو گن کر بھٹو سے پوچھا کہ کیا یہی وہ معاہدہ ہے جس پر ہم آگے بڑھیں گے، تو انہوں نے کہا ’جی بالکل، آپ مجھ پر بھروسا رکھیں‘۔‘‘
پی این ڈاہر کے بقول یہ خاموش مفاہمت دونوں رہنمائوں کے مابین شملہ میں جنم لے چکی تھی جو دونوں رہنمائوں کے درمیان آخری لمحات میں ہوئی، پس اس طرح معاہدے نے جنم لیا۔ اس کے بعد عزیز احمد اور پی این ڈاہرنے معاہدے پردستخط کرنے کے لیے موجود کاغذات کو دیکھا۔ عبدالستار نے، جو بعد میں وزیر خارجہ بھی بنے، ڈاہر کے دعوے کو قطعی طور پر مسترد کردیا۔ عبدالستار اور ڈاہر ہی شملہ میں ہونے والے معاہدے کے دو عینی گواہان کے طور پر زندہ موجود ہیں۔
اس حوالے سے پی این ڈاہر کی کتاب ’’اندرا گاندھی، ایمرجنسی اور بھارتی جمہوریت‘‘ اور عبدالستار کی کتاب میں جو پاکستانی وزارتِ خارجہ سے متعلق ہے، ان دونوں کے خیالات اور اس موضوع پر بہت کچھ ہے۔
تاہم شملہ معاہدے کے تحت نوّے ہزار فوجیوں کی رہائی ذوالفقار علی بھٹو کا ایک کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکی دینے سے بھی اجتناب کرنے، اور ایک دوسرے کے خلاف مخالفانہ پروپیگنڈا نہ کرنے کی یقین دہانیوں کے ساتھ دونوں ملکوں نے اپنی اپنی فوجیں اپنے اپنے علاقوں میں واپس بلانے پر رضامندی ظاہر کردی۔ اس طرح معاہدے کے رو بہ عمل ہونے کے بعد ہندوستانی قید میں موجود ہمارے فوجیوں کی واپسی شروع بھی ہوگئی۔ 14 جولائی 1972ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے اور 28 جولائی 1972ء کو بھارت کی لوک سبھا نے اس معاہدے کی توثیق کردی اور معاہدے پر عمل درآمد کا کام شروع ہوگیا۔
ہمارے قیدیوں کی واپسی کا اعلان بلاشبہ ایک بہت خوش آئند اعلان تھا، مگر ضمنی طور پر اس معاہدے میں کشمیر جسے بانیِ پاکستان نے پاکستان کے لیے شہہ رگ کا درجہ دیا تھا، سے مکمل طور پر لاتعلقی کا اعلان بھی موجود تھا۔ قیدی تو کسی بھی حالت میں جنیوا کنونشن کے قوانین کے تحت واپس آ ہی جانے تھے، مگر جس عجلت میں بھٹو صاحب نے کشمیر کا اہم معاملہ نمٹایا، وہ ہمیشہ برے الفاظ سے ہی تعبیر کیا جائے گا۔
حوالہ جات
جماعت اسلامی کی دستوری جدوجہد۔ میاں طفیل محمد
پی این ڈاہر کی کتاب ’’اندرا گاندھی، ایمرجنسی اور بھارتی جمہوریت‘‘
کالم نگار ایف ایس اعجاز الدین۔ مورخہ 13 نومبر 2014ء۔ اشاعت روزنامہ ڈان۔ شملہ معاہدہ
(جاری ہے)

حصہ