کریم میزبان میں پہلی شعری نشست

435

سیمان کی ڈائری
یاروں کے یار،سماجی شخصیت، قلندر مزاج شاعر، میں ان کے بارے میں کیا کہوں؟؟؟ سمجھیے نام سنتے ہی دھمال شروع ہو جائے گی، پھر دھمال بھی ایسی کہ ہاتھوں میں ساراجہاں آگیا۔۔
جی کون؟؟؟ (نیند میں ہڑبڑاتے ہوئے)
میں نجیب ایوبی ہوں۔۔۔
ارے نجیب بھائی،کیسے ہیں؟
چل بے جھوٹے۔۔ہفتے کی رات دوستوں کا کٹھ کرو، شعری نشست بھی ہو جائے گی اور ایک ساتھ کھانا بھی کھائیں گے۔
جی بہتر۔۔۔۔مگر کہاں؟
“کریم میزبان”
یہ کون آدمی ہے؟
ابے۔۔۔یہ ایک ریسٹورنٹ کا نام ہے، وہاں مدعو کرو سب کو۔
تو صاحبو! حکم ملتے ہی ہم نے دوستوں کو فون گھمانا شروع کردیا، نشست سے پہلے گورنر ہاؤس میں ادب فیسٹیول کا پڑاؤ باقی تھا. ویسے تو یہ ایک بیورو کریٹک ٹائپ کا فیسٹیول تھا. اس بارے میں بہت سے دوستوں نے لکھا باتیں ہوئیں. پچھلی کانفرنسز کی نقل تھی کوئی نیا آئیڈیا نہیں تھا. وہی لوگ وہی باتیں وہی شعرا وہی نثر نگار جو ہر بار کی طرح مختلف کانفرنسز میں مدعو ہوتے ہیں وہی اس میں بھی شامل تھے. ایسے ہی جیسے آپ کوئی رسالہ نکالنا چاہتے ہوں تو دو چار مختلف رسالوں سے افسانے اٹھا لیےدو چار مضمون تو کوئی چھ آٹھ نظمیں غزلیں اور رسالہ تیار.. بہر حال اس پر کہنے کو بہت سی باتیں ہیں لیکن فی الحال یہ ہمارا موضوع نہیں.
کامران نفیس سے پہلے ہی طے تھا کہ ساتھ چلیں گے تو وہ میرے غریب خانے پر آئے مجھے لیا اور ہم اجمل بھائی کو لے کر گورنر ہاؤس پہنچ گئے. وہاں چونکہ اجمل بھائی مشاعرے میں مدعو تھے. جتنی دیر انھوں نے مشاعرہ پڑھا اس دوران میں اور کامران فیسٹیول کے دیگر حصوں کو دیکھنے میں مصروف رہے. وہاں ہماری ملاقات معروف مصور شاہد رسام اور وسعت اللہ خان سے ہوئی. کچھ رسمی باتیں ہوئیں پھر ہم وہاں سے شاہ فیصل کریم میزبان پہنچ گئے۔عمران شمشاد راجپوت اسٹائل میں مفلر لیپٹے ہماری راہ تک رہا تھا. عبدالرحمان مومن بھی اپنے مہمان دوستوں کے ساتھ وہاں موجود تھا جو کچھ دیر کے لیے ہماری خاطر وہاں آیا. اسی دوران نجیب بھائی اور زاہد عباس بھی پہنچ گئے. ان کے پیچھے پیچھے خالد معین بھائی اور آخر میں ہمارے مہمان سلمان ثروت بھی سحر تاب بھائی کی ہمراہی میں کریم میزبان پر پہنچ گئے۔ کراچی کی اصلی سردی کے مزے لیتے ہوئے سبھی یاران سخن کھلےآسمان میں اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔خالد بھائی کو گھر کی ایک تقریب میں جانا تھا تو ان کی خواہش پر مومن، سلمان،کامران اور سحر تاب رومانی سے ان کا کلام سناگیا اور بعد میں خالد بھائی سے بھی ان کی شاعری سنی گئی۔
مومن اور خالد بھائی کے رخصت ہوتے ہی، سردی نے زور مارا تو دوستوں کی مسکراہٹوں کے ساتھ دانت بجنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں اور سبھی ریستوران کے برآمدے میں جا گھسے۔ وہاں سے پھرہم نے ناظم کی حیثیت سے شعری نشست کو جوڑا۔ زاہد عباس، نجیب ایوبی، سلمان ثروت، عمران شمشاد، کامران نفیس، سحرتاب رومانی اور آخر میں اجمل سراج بھائی سے ان کی غزلیں سنیں.
شعری نشست کے بعد کوئلوں پر بھنی ہوئی تازہ مچھلیاں اور گلیسی تکوں سے یاران سخن کے کھانےکا اہتمام کیا گیا اور یہی نہیں تندورمیں دھیکائی گئیں مٹی کی پیالیوں(کلکیا) میں چائے بھی پیش کی گئی. نشست میں علاؤالدین ہمدم خانزادہ راشد نور اور توقیر تقی بھی مدعو تھے جو اپنی مصروفیات کے باعث شریک نہیں ہو سکے. نشست کے دوران سحرتاب بھائی نے اپنی نیا مجموعہ کلام ” دھوپ کے پار” بھی تمام دوستون کو پیش کیا. رخصتی کے لمحات تھے اور الوداعی گفتگو کے دوران کامران نفیس نے نجیب بھائی سے کہا،
’’پچھلے دنوں پریس کلب میں آپ سے ملاقات کا ذکر ہو رہا تھا‘‘
چل بے جھوٹے۔۔۔۔۔نجیب ایوبی نے کہا تھا کہ سب نے زوردار قہقہہ لگایا اور اپنے اپنے گھر کی راہ لی۔
شعرائے کرام کے کلام سے انتخاب

طبیعت رنگ میں آئے تو ہم چشمِ تصور سے
کسی بے جان منظر میں نظارہ ڈھونڈلیتے ہیں
مرے وجود کا عقدہ کبھی بھی کھل نہ سکا
مرے خیال کی وسعت قدم قدم پہ کھلی

سلمان ثروت

اب کیا بتائیں دل کی جو حالت تھی ان دنوں
وحشت کے دن تھے اور محبت تھی ان دنوں
تصویر تھی کوئی نہ کوئی اور رنگ تھا
آئینہ خیال میں حیرت تھی ان دنوں

راقم الحروف.. سیمان

ایسی فرصت ہے کہ مرنے کا گماں ہوتا ہے
آدمی مر کے بھی فرصت میں کہاں ہوتا ہے
شور مئے خانے میں ہوتا ہے ہمہ وقت نجیب
دیکھیے دل میں جو مستی کا سماں ہوتا ہے

نجیب ایوبی

چراغ دل کے سامنے بجھا گیا تو کیا ہوا
اس آئینے پہ کچھ غبار چھا گیا تو کیا ہوا
بچھڑ تے وقت ان لبوں نے کچھ گلا ہی تو کیا
ہتھیلیوں پہ ایک زخم آگیا تو کیا ہوا

کامران نفیس

غم کو دل میں نہ پال باہر کر
اس کو دل سے نکال باہر کر
میرے حجرے کا اک تقدس ہے
شوق سے کر دھمال باہر کر

زاہد عباس

ڈھونڈھیے دن رات ہفتوں اور مہینوں کے بٹن
لامکان میں کھو گئے ہیں ان مکینوں کے بٹن
گر خدا نہ ہو تو دنیا کس قدر برباد ہو
پاگلوں کے ہاتھ میں ہیں سب مشینوں کے بٹن

عمران شمشاد

کھیل کا انجام باقی رہ گیا ہے
آخری اقدام باقی رہ گیا ہے
مٹ چکا ہر لفظ لیکن ڈائری میں
صرف تیرا نام باقی رہ گیا ہے

سحرتاب رومانی

دے کے آئینِ بقا مملکتِ فانی میں
ہم کو رکھا گیا مشکل میں بھی آسانی میں
ورنہ ایک آن بھی ہونا تھا ہمارا مشکل
اس شب و روز کی یک رنگی و یکسانی میں

اجمل سراج

حصہ