پاکستان سوشل سینٹر شارجہ کے تحت جشن ِ عطا الحق قاسمی اور مشاعرہ

270

ڈاکٹر نثار احمد نثار
پاکستان سوشل سینٹر شارجہ میں گزشتہ دنوں پاکستان کے معروف مزاح نگار‘ ڈراما رائٹر‘ کالم نویس اور شاعر عطاء الحق قاسمی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جشن عطاء الحق قاسمی منعقد کیا گیا اس تقریب میں عطاء الحق قاسمی نے خصوصی شرکت کی۔ ادبی کمیٹی پاکستان سوشل سینٹر شارجہ کی طرف سے منعقدہ یہ تقریب دو حصوں پر مشتمل تھی حصہ اوّل جشن عطاء الحق قاسمی جب کہ حصہ دوم سالِ نو مشاعرہ تھا جس میں پاکستان‘ عمان اور متحدہ عرب امارات کے شعرا نے اپنا کلام حاضرین کو سنایا۔ یوں تو پوری تقریب ہی بے مثل تھی لیکن حصہ اوّل جشن عطاء الحق قاسمی بہت ہی منفرد رہی اس تقریب کی صدارت جناب عطاء الحق قاسمی نے کی مہمان خصوصی معروف شاعر ظہور الاسلام جاوید جب کہ مہمان اعزاز سوشل کلب عمان کے ڈائریکٹر معروف سماجی شخصیت اور نامور شاعر قمر ریاض تھے جنہوں نے اس تقریب کے انعقاد میں بھی کلیدی کردار ادا کیا اس کے علاوہ پاکستان سے معروف شاعر عزیز احمد‘ معروف مزاح نگار اور شاعر علی رضا احمد‘ مزاح نگار ڈاکٹر عائشہ عظیم‘ معروف پنجابی شاعر ابرار ندیم اور ٹی وی اینکر فائزہ بخاری نے بھی اس پروگرام میں شرکت کی۔ پروگرام کا آغاز تلاوت کلامِ الٰہی سے ہوا جس کی سعادت محترم قاری شکیل قادری نے حاصل کی جب کہ ہدیہ نعت ابوبکر نقش بندی نے پیش کیا۔ تقریب کا آغاز عائشہ شیخ عاشی اور انعم عادل نے کیا اور مہمانان کی آمد کے بعد حصہ اوّل میں نقابت کے فرائض فائزہ بخاری نے سنبھالے۔ پاکستان سوشل سینٹر شارجہ کے جنرل سیکرٹری چوہدری افتخار نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا اور تمام مہمانان اور حاضرین کو خوش آمدید کہا اس کے بعد جشن عطا الحق قاسمی کی مناسبت سے مضامین پڑھے گئے۔ عزیز احمد نے منظوم خراج تحسین پیش کیا عائشہ عظیم نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عطاء الحق قاسمی کی خدمات کی دنیا معترف ہے قاسمی صاحب کی شخصیت نہایت نفیس ہے اور وہ محبتیں بانٹنے والے ہمدرد اور ملنسار انسان ہیں‘ وہ جہاں بھی جاتے ہیں خوشیاں اور مسکراہٹیں بکھر جاتی ہیں۔ قاسمی صاحب ایک مثبت سوچ رکھنے والے انسان ہیں۔ علی رضا احمد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عطاء الحق قاسمی سے میرا تعارف 2001ء میں ہوا جب میرا ایک مضمون قاسمی کو ملا اور انہوں نے اس پر ایک کالم تحریر کیا توبہت خوشی ہوئی قاسمی کا یہ انداز بہت اچھا لگا۔ معروف مزاح نگار اور براڈ کاسٹر ابرار ندیم نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قاسمی ایک ایسے معالج ہیں جو معاشرتی بیماریوں کا علاج میٹھی گولیوں سے کرتے ہیں۔ قاسمی ایک خوش مزاج اور زندہ دل شخصیت ہیں‘ عطاء الحق قاسمی کی شخصیت اس قدر باوقار اور مخلص ہے کہ جو ایک بار ان سے ملتا ہے پھر انہی کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ عطاء الحق قاسمی پر اللہ کے بے پناہ مہربانیاں ہیں۔ عمان سے تشریف لائے معروف شاعر قمر ریاض نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عطاء الحق قاسمی اس عہد کی ایک بڑی ادبی شخصیت ہیں وہ برگد کے اس پیڑ کی طرح ہیں جس کے نیچے جوق در جوق مسافر اپنی مسافت کاٹنے کے لیے رکتے ہیں اور اس برگد کی چھائوں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ عطاء الحق قاسمی کی انسان دوستی‘ حب الوطنی اور ادب پروری پر رشک آتا ہے اور اللہ نے انہیں بہت سی خوبیوں سے نوازا ہے۔ ظہورالاسلام جاوید نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرا عطاء الحق قاسمی سے چالیس سالہ پرانا تعلق ہے۔ عطا الحق قاسمی ایک انتہائی نفیس انسان ہیں وہ ایک اچھے کالم نگار‘ مزاح نگار اور شاعر سے کہیں زیادہ ایک اچھے اور مخلص انسان ہیں یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں ان سے محبت کرنے والے موجود ہیں صدر پاکستان سوشل سینٹر شارجہ چوہدری خالد حسین نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عطاء الحق قاسمی اس عہد کی نامور شخصیت ہیں ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے ان کے اعزاز میں پروگرام کا انعقاد کیا۔ انہوں قاسمی اور تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ بھی ہم اس طرح کی محافل کا اہتمام کرتے رہیں گے۔ اس کے بعد عطاء الحق قاسمی نے خطبہ صدارت اور اپنی تقریر میں ادبی کمیٹی پاکستان سوشل سینٹر شارجہ کی تشکیل کو ایک احسن اقدام قرار دیا اور سلیمان جاذب ان کی ٹیم کی کوششوں کو سراہا۔ عطاء الحق قاسمی نے اپنی کتاب سے چیدہ چیدہ مضامین بھی پڑھے جنہیں سن کر حاضرینِ محفل محظوظ ہوئے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں محترم قمر ریاض کی خدمات کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا کہ قمر ریاض نے ان کی تصویری تاریخ کو محفوظ کرکے ایک بہت بڑا کام کیا ہے جو اپنی نوعیت کا منفرد کام ہے۔ محترم عطاء الحق قاسمی کا مزید کہنا تھا کہ ادب کی ترقی کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے اور مجھے امید ہے کہ سلیمان جاذب اور ان کی ٹیم مزید محنت سے کام کرے گی۔ اس موقع پر انہوں نے اپنی زندگی کے کئی واقعات بھی حاضرین کے ساتھ شیئر کیے۔ بعدازاں پاکستان سوشل سینٹر شارجہ کی طرف سے عطاء الحق قاسمی کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی پیش کیا۔ لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ پاکستان سوشل سینٹر شارجہ کے صدر چوہدری خالد حسین‘ جنرل سیکرٹری چوہدری محمد افتخار‘ سربراہ ادبی کمیٹی سلیمان جاذب‘ محترم ظہور الاسلام جاوید اور جناب قمر ریاض نے پیش کیا۔ تقریب کے دوسرے حصے میں مشاعرہ سالِ نو کا آغاز نعتیہ اشعار سے کیا گیا جس کی سعادت معروف نعت گو شاعر محترم مقصود احمد تبسم نے حاصل کی جب کہ نقابت کے فرائض سربراہ ادبی کمیٹی سلیمان جاذب نے ادا کیے۔ مشاعرے کی صدارت عطاء الحق قاسمی کے سپرد تھی جب کہ مہمان خصوصی ظہورالاسلام جاوید‘ مہمان اعزاز قمر ریاض‘ مہمان شعرا ابرار ندیم‘ علی رضا احمد اور عزیز احمد تھے۔ متحدہ عرب امارات کی مختلف ریاستوں سے تعلق رکھنے والے مقامی شعرا ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی‘ ڈاکٹر ثروت زہرہ‘ سلیمان جاذب‘ آصف رشید امجد‘ فرہاد جبریل‘ تابش زیدی‘ شیریں پرلیئم‘ آفتاب بابر ہاشمی‘ عائشہ شیخ‘ خاقان قمر اور فرح شاہد نے بھی اپنا کلام سنایا۔ اس پروگرام کو شرکا کی کثیر تعداد نے ایک یادگار محفل بنایا۔ تقریب کے اختتام پر عطاء الحق قاسمی کی سالگرہ کا کیک کاٹا گیا اور تمام مہمان شعرا کو اعزازی شیلڈز پیش کی گئیں۔

اختر سعیدی کے اعزاز میں یارانِ سخن کراچی کا مشاعرہ

اختر سعیدی‘ ایک علمی و ادبی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں انہوں نے بہت محنت و مشقت سے اپنا اسٹیٹس بنایا ہے‘ یہ ہمہ جہت شخصیت ہیں‘ ادبی تقریبات کے آرگنائزر ہیں‘ صحافی و شاعر کے علاوہ سماجی رہنما بھی ہیں۔ اختر سعیدی ینگ ویلفیئر سوسائٹی کے تحت رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں‘ ادارۂ فکر نو کے زیر اہتمام شعر و ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ یادرفتگاں کے حوالے سے کئی اہم ادبی پروگرام ان کے کریڈٹ پر ہیں اس کے علاوہ کراچی میں ادبی تقریبات کے لیے بھی یہ اہم شخصیت ہیں۔ روزنامہ جنگ کراچی کے ادبی صفحے کے انچارج تھے اور اپنی مدتِ ملازمت پوری ہونے کے بعد آرام کر رہے ہیں انہوں نے زبان و ادب کے اہم قلم کاروں کے انٹرویوز کیے ہیں جو کہ ایک تاریخی دستاویز بن گئے ہیں اور بہت جلد کتابی شکل میں شائع ہونے والے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے اختر سعیدی کے اعزاز میں یارانِ سخن کراچی کی جانب سے منعقدہ مشاعرے میں اپنے صدارتی خطاب میں کیا انہوں نے مزید کہا کہ عزم بہزاد‘ اختر سعیدی اور انہوں نے لانڈھی‘ کورنگی کے بے شمار طرحی مشاعرے میں ایک ساتھ شرکت کی ہے‘ اختر سعیدی میرے کلاس فیلو بھی ہیں ایک زمانہ تھا کہ جب لانڈھی‘ کورنگی کی ادبی فضائوں میں بہت توانا آوازیں سنائی دیتی تھیں لیکن حالات کی تبدیلی کے باعث وہاں شعر و سخن کی محفلیں ویران ہو گئیں اب اس علاقے میں کچھ ادبی سرگرمیاں نظر آرہی ہیں ان میں بھی اختر سعیدی کا کردار موجود ہے۔ صاحب صدر نے کہا کہ بزم یارانِ سخن کراچی کے پروپرائٹر نثار احمد نثار ہیں جو کہ ایک اچھے شاعر اور ممتاز ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ روزنامہ جسارت میں تواتر کے ساتھ ادبی ڈائری لکھ رہے ہیں اس تنظیم کے صدر سلمان صدیقی ہیں جو کہ ٹی وی اینکر کے علاوہ شاعر و نقاد بھی ہیں نثار کے ساتھ اچھے لوگوں کی ایک ٹیم ہے جو کہ شعر و ادب کے فروغ میں مصروف ہیں میں انہیں ایک کامیاب پروگرام پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اس تقریب میں بزمِ یارانِ سخن کی جانب سے اختر سعیدی کی خدمت میں کیش ایوارڈ بھی پیش کیا گیا۔ مشاعرے کے مہمان خصوصی توقیر اے خان ایڈووکیٹ نے اپنا کلام سنانے سے پہلے کہا کہ شاعری میں اختر سعیدی ان کے استاد ہیں انہوں نے مجھے دریافت کیا ا ور مجھے پروموٹ کیا ہے یہ بہت مخلص انسان ہیں دوسروں کو آگے بڑھا کے خوش ہوتے ہیں ان کے شاگردوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ یہ اپنے شاگردوں کی قدر کرتے ہیں اور بے لوث لوگو ں کی پزیرائی کر رہے ہیں۔ بزمِ یاران کراچی نے اختر سعیدی کے لیے محفل سجا کر قابل ستائش کام کیا ہے اللہ تعالیٰ انہیں اس کا اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ پروگرام کا آغاز تلاوتِ کلام مجید سے ہوا جس کی سعادت حافظ فہد نے حاصل کی اور انہوں نے ہی نعت رسولؐ بھی پیش کی۔ راقم الحروف نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ ہم اپنے پروگرام اپنے شیڈول کے مطابق شروع کرتے ہیں لیٹ آنے والوں کو ہم سامعین میں شمار کرتے ہیں اس لیے آج ہم جن دو شخصیات کو مشاعرے میں شامل نہیں کرسکے ہیں ان سے معذرت خواہ ہوں اور درخواست ہے کہ وہ آئندہ وقت کی پابندی کریں نیز غیر مدعو شعرا کی شرکت سے بھی پروگرام طویل ہو جاتا ہے اور ہمیں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صاحبِ اعزاز اختر سعیدی نے کہا کہ وہ ڈاکٹر نثار کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ان کے لیے ایک معیاری تقریب ترتیب دی اس قسم کے پروگرام گیٹ ٹو گیدر کا سبب بنتے ہیں تاہم مشاعروں سے ادبی فضا گرم رہتی ہیں۔ آج کی محفل میں باذوق سامعین کی شرکت نے مشاعرے کا لطف دوبالا کر دیا ہے۔ سلمان صدیقی نے کلماتِ تشکر پیش کرتے ہوئے یارانِ سخن کراچی کے اغراض و مقاصد پر تفصیلی گفتگو کی انہوں نے کہا کہ وہ ڈاکٹر نثار کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور زبان و ادب کی ترقی میں اپنا حق ادا کرتے رہیں گے اس مشاعرے کی نظامت یاسر صدیقی نے کی اور ہر شاعر کے لیے کلماتِ تحسین ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے نمائندہ شعر کے ذریعے انہیں مائیک پر آنے کی دعوت دی۔ انہوں نے کسی بھی موقع پر مشاعرے کا ٹیمپو ٹوٹنے نہیں دیا اور نہ ہی تقدیم و تاخیر کے مسائل سامنے آئے انہوں نے بحیثیت ناظم مشاعرہ سب سے پہلے اپنا کلام سنایا جب کہ آج یہ روایت بنتی جارہی ہے کہ ناظم مشاعرہ اپنے مقام کا خود تعین کرتا ہے اور جہاں وہ چاہتا ہے اپنے اشعار سناتا ہے ارباب سخن کو چاہیے کہ وہ مشاعرے کے آداب کا خیال رکھیں۔ راقم الحروف نے اکثر دیکھا ہے کہ اگر کسی نوجوان شاعر یا شاعرہ کی دو چار غزلیں چل پڑی ہیں تو وہ اپنے آپ کو سینئر سمجھنے لگتا ہے اور دوسروں کے اشعار سننے کے بجائے اپنے موبائل فون کے ساتھ لگا رہتا ہے یہ طریقۂ کار غلط ہے زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے لیے ہمیں نامناسب روّیوں سے اجتناب کرنا ہوگا۔ مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ انور انصاری‘ سلمان صدیقی‘ زاہد حسین زاہد‘ ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی‘ رشیدہ خاں رشید‘ راقم الحروف نثار احمد‘ یوسف چشتی‘ حامد علی سید‘ وقار زیدی‘ خالد محمود رانا‘ گل انور‘ احمد سعید خان‘ صفدر علی انشاء‘ عارف شیخ‘ محسن سلیم‘ سید علی بابا‘ طاہرہ سلیم سوز‘ عاشق حسین شوکی‘ علی کوثر‘ افسر علی افسر‘ سید شائق شہاب اور زمن اعجاز نے اپنا کلام پیش کیا۔

اکادمی ادبیات پاکستان کا مذاکرہ اور مشاعرہ

اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیر اہتمام ’’سماج میں خواتین کا ادبی کردار‘‘ پر مذاکرہ اور مشاعرہ منعقدہ کیا گیا جس کی صدارت پروین حیدر نے کی اور مہمانان خاص کینیڈا سے آئے ہوئے شاعر سید منیف اشعر ملیح آبادی تھے۔ اس موقع پر پروین حیدر نے کہا کہ عورت اورلفظ رشتہ معلوم تاریخ میں تقریباً ساڑھے تین ہزار سال سے قائم ہے۔ قدیم مصری تہذیب میں محفوظ شاعری کے نمونوں سے لے کر آج تک عورت نے آفاق کے درمیان پھیلی ہوئی اس دنیا میں جو سوچا ہے محسوس کیا ہے اور بیان کیا ہے وہ ہماری ادبی تاریخ کا اہم حصہ ہے۔ پاکستان میں گزشتہ پچاس برسوں میں ہماری خواتین نے اپنے حق کے لیے اور من حیث القوم بنیادی انسانی حقوق کے لیے بہت کام کیا ہے مگر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اس موقع پر سید منیف اشعر ملیح آبادی نے کہا کہ عورت سماجی قانون‘ معاشی اور سیاسی حقوق کے حصول میں کامیاب ہو چکی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ خاندانی نظام زندگی اور ذہنی سکون سے محروم ہو چکی ہے۔اسلام نے قرآن میں مردوں اور عورت کے ایک دوسرے پر یکساں حقوق تو بتائے ہیں لیکن ساتھ ہی مردوں کو عورت پر ایک طرح کی فضیلت بھی دی ہے۔ عورت ادب میں ویژن کو اس طرح فنی تقاضے نبھاتے ہوئے اظہار کا روپ دیتی ہے اس سلسلے میں ان کو رعایتی نمبر دینے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ نسائی حیثیت کوئی فارمولا نہیں کہ سامنے رکھ کر وہ ادب تخلیق کرے یہ تو اس کے منفرد تجربے اور طرز احساس ہی کا نام ہے بس اتنا دیکھیے کہ عورت کا لکھا نکال دیا جائے تو دنیائے ادب کتنی مفلس‘ کس قدر قلاش رہ جاتی ہے۔ قادر بخش سومرو نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے سماج میں عورت کی زندگی ایک جوا ہے جو کامیاب ہوگیا تو ہو گیا ورنہ گھاٹا اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ بعدازاں مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ جن شعرا نے کلام پیش کیا ان میں پروین حیدر‘ سیف منیف اشعر‘ عرفان علی عابدی‘ حمیدہ کشش‘ اظہر بھانبھن‘ جمیل ادیب سید‘ شجاع الزماں خاں‘ وحید محسن‘ عشرت حبیب‘ فہمیدہ مقبول‘ الحاج نجمی‘ تاج علی رعنا‘ عاشق شوق‘ علی کوثر‘ ارحم ملک‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ اطہر عباس‘ اخلاق احمد خان‘ محمد رفیق مغل‘ تبسم فاطمہ رضوی‘ فرح دیبا‘ جاوید مدیتی شامل تھے۔

حصہ