شریکِ مطالعہ

721

نعیم الرحمن
اے حمید اردوکے منفرد، صاحبِ طرز اور صاحبِ اسلوب ادیب تھے۔ انہوں نے ناول، افسانے، خاکے، سفرنامے، یادیں اور بچوں کے لیے لاکھوں صفحات لکھے۔ لیکن عوام میں ان کی پہچان بے شمار کتابوں سے نہیں بلکہ ٹی وی سیریل ’’عینک والاجن‘‘ سے ہوئی۔ ملک کے کئی پبلشرز اے حمید کی کتابیں شائع کرکے لکھ پتی بن گئے، لیکن قلم کے مزدور اے حمیدکا چند برس پہلے کسمپرسی کے عالم میں انتقال ہوا۔ وہ زندگی کے آخری دنوں تک اخباری کالم لکھتے رہے۔ ان کی بیشتر ادبی کتب اب دستیاب نہیں، تاہم بچوں کی سیریز ’’موت کا تعاقب‘‘، ’’عنبر ناگ ماریا‘‘ اور دیگر کتابیں اب بھی کئی پبلشرز شائع کرتے ہیں اور ان کی خاصی مانگ بھی ہے، لیکن گوگل سرچ بھی اے حمید کی تخلیقات سے لاعلم ہے۔ اے حمید کی تخلیقات ڈھونڈنے پر جواب ملتا ہے: تلاش پرکچھ نہیں ملا۔ مشہور کالم نگار جاوید چودھری نے کیا سچ لکھا ہے کہ ’’اے حمید سچے اور کھرے لکھاری تھے، اور اس ملک میں لکھاری بھی بھوکے مرتے ہیں اور سچے اور کھرے لوگ بھی، اور اے حمید سچے بھی تھے، کھرے بھی اورلکھاری بھی۔‘‘
اے حمید ایک سچے قلمکار تھے۔ انہوں نے اپنے مخصوص رومانوی انداز میں افسانے اور ناول تحریر کیے، اور ایک زمانے میں نوجوان اُن کی تحریروں کا انتظار کرتے تھے، اُن کے فقرے کوٹ کرتے تھے۔ امریکا اور سری لنکا کے سفرنامے لکھے تو اپنے مخصوص اسلوب میں قاری کو بھی ان مقامات کی سیرکرائی جہاں وہ گئے۔ خاکے تحریرکیے تو جس کا خاکہ لکھا اُسے مصور کردیا۔ امرتسر اور لاہور کی یادیں لکھیں تو اُن شہروں کی ایک ایک گلی، کوچہ، باغات، محلے، افراد اور ادارے زندہ جاویدکردیے۔ اے حمیدکی تین یادگار کتب محترم راشد اشرف نے زندہ کتابوں کے سلسلے میں شائع کی ہیں۔ یہ اردو ادب پر راشد اشرف کا ایک بڑا احسان ہے۔ پہلی کتاب اے حمیدکے لازوال شخصی خاکوں کا مجموعہ ’’سنگ ِدوست‘‘ ہے۔ دوسری کتاب ’’یادوں کے گلاب اور ڈربے‘‘ ہے۔ یہ دونوںکتابیں ایک جلد میں شائع کی گئی ہیں۔ یادوں کے گلاب میں اے حمید کے سوانحی طرز کے مضامین اور خاکے، جب کہ ڈربے ان کا سوانحی ناول ہے۔ ڈربے کا پہلا ایڈیشن1950ء اور دوسرا 1960ء کی دہائی میں شائع ہوا تھا، جبکہ یادوں کے گلاب 1988ء میں منظرعام پر آیا تھا۔ عمدہ کاغذ پر 536 صفحات کی اس مجلّد کتاب کی قیمت صرف 500 روپے موجودہ دور میں حیران کن ہے۔ زندہ کتابیں کے سلسلے میں اے حمیدکی ایک اور کتاب ’’امرتسرکی یادیں‘‘ بھی جلد شائع ہونے کی نوید ہے۔
’’چند باتیں‘‘ میں راشداشرف صاحب نے لکھا کہ ’’اپنی تحریروں میں تواترکے ساتھ جنگل، خوشبو، بارش، ناریل، درختوں اور چائے کا ذکر کرنے والا پاکستان کا درویش صفت، ایمان دار اور ہر دل عزیز مصنف 2011ء میں ہم سے بچھڑ گیا تھا۔ آئیے آپ کو اپنی چند یادوں میں شریک کرتا ہوں۔ مارچ 2007ء کی ایک شام اے حمید صاحب سے ملاقات کی غرض سے سمن آباد لاہور میں واقع اُن کی رہائش گاہ پر گیا تھا۔ وہ ایک گھنٹہ پلک جھپکتے گزر گیا تھا۔ سردیوں کا موسم تھا، وہ کتابوں سے گھرے چھوٹے سے کمرے میں اپنے بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ میں بے صبری سے اُس شدید انسیت کا ذکر کررہا تھا جو ایک زمانے سے مجھے اُن کی تحریروں سے ہے۔ وہ میری باتیں سن کر انکساری سے مسکرا رہے تھے۔ میرا زیادہ تر وقت اے حمید کے ڈربے سے متعلق گفتگو ہی میں گزرا تھا۔ دورانِ گفتگو میں انہیں ناول کے اقتباسات بھی سناتا رہا۔ بقول اے حمید، ڈربے کا ایک ایک کردار اور اس میں درج ایک ایک واقعہ حقیقت پر مبنی ہے۔ البتہ کچھ کرداروں میں معمولی سا رد و بدل کیا گیا ہے، مثال کے طور پر چچا کا بے حد دل چسپ کردار جو ڈربے کی جان ہے، وہ دراصل اے حمید کے سگے خالو تھے جو ڈربے کا پہلا ایڈیشن پڑھ کر اے حمید سے خفا ہوگئے۔‘‘
یادوں کے گلاب میں خوب صورت یادوں کے ساتھ کچھ خاکے بھی ہیں جس میں ایک باری علیگ کا خاکہ بھی ہے جن کی مشہورِ زمانہ کتاب ’’کمپنی کی حکومت‘‘ کا چرچا آج بھی ہوتا ہے۔ اے حمید نے یادوں کے گلاب میں باری علیگ کی کتاب ’’تاریخ کا مطالعہ‘‘ کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’سب سے پہلے میں نے کتاب کے پہلے صفحے پر لکھا ہوا یہ جملہ پڑھا: تاریخ ہمیں بہت کچھ بتاتی ہے، ہم اس سے سبق کیوں نہیں لیتے؟‘‘ اس کے بعد میں نے فرعونوں کے مصر، ساسانیوں کے ایران، عرب جہاز رانوں اور دجلہ و فرات کو چھوڑ کر سب سے پہلے گوتم بدھ کا باب پڑھا۔ گوتم بدھ کے باب کو پڑھتے ہوئے مجھ پر باری صاحب کا گیان ہوا۔ گوتم بدھ کے محل چھوڑنے کا منظر اُنہوں نے یوں بیان کیا ہے ’’اسی رات کوگوتم اپنی بیوی کے کمرے میں گیا۔ چراغ کی مدھم روشنی میں اس نے مہا آنندکا منظر دیکھا۔ دنیا کی مسرتوں کو چھوڑنے سے پہلے اس نے اپنے بچے کو سینے سے لگانا چاہا۔ وہ آگے بڑھا، پھر پیچھے ہٹا۔ گوتم اپنے بچے کو اس لیے پیار نہ کرسکا کہ شاید ایسا کرنے سے یشودھرا جاگ اٹھے گی، وہ مسرت کے اس منظر سے باہر نکل گیا۔‘‘
یہ بڑا رومانٹک، بڑا المناک اور انتہائی ایثار کا منظر تھا۔ بدھ بڑا رومانٹک آدمی تھا۔ رومانٹک آدمی ہی محبت کرتے ہیں اور محبت میں ایثار کرتے ہیں، اپنے آپ کو قربان کرتے ہیں۔ باری صاحب کا لکھا ہوا اس کے بعد کا فقرہ میرے سامنے آکر بیٹھ گیا ’’گوتم اس شاہی محل کو مسکراتے ہوئے چھوڑ رہا تھا جس میں داخل ہونے کی خواہش نے انسانی تاریخ کو خونیں بنا رکھا ہے۔‘‘
اس جملے کے بادبانی جہاز پر بیٹھ کر میں نے باری صاحب کے جزیرے کو دریافت کیا۔ اب مجھے معلوم ہوا کہ باری صاحب جزیرہ نہیں براعظم ہیں، اور اس براعظم کا انکشاف مجھ پر باری صاحب کے نوشیرواں اور خسرو پرویز کے بارے میں لکھے ہوئے ان الفاظ پر ہوا ’’خسرو پرویز جہاں میدانِ جنگ میں ایک بہادر سپاہی تھا وہاں شراب وشباب کی محفلوں میں رندِ بلا نوش بھی تھا۔ دجلہ میں گرنے والے قرہ سُو کے کنارے ناچ گانے کی محفل جمی ہوئی تھی۔ خسرو پرویز اپنی شاہانہ شان و شوکت کے مزے لوٹ رہا تھا کہ ایک ایرانی امیر عربی زبان میں لکھا ہوا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط خسرو پرویز کو پیش کرتا ہے۔ مغرور اور بدمست خسرو خط پڑھ کر قہقہہ لگاتا ہے اور اُسے پرزے پرزے کرکے دریائے دجلہ میں پھینک دیتا ہے‘‘۔ اس مقام پر باری علیگ اس باب کا آخری جملہ لکھتا ہے کہ ’’سلطنتِ ایران کے بھی اسی طرح پرزے اُڑنے والے ہیں۔‘‘ بخت نصرکے باب میں انہوں نے لکھا کہ ’’بخت نصر نے اپنی نئی ملکہ کے لیے معلق باغات لگوائے، کیوں کہ وہ سرسبز و شاداب علاقے سے آئی تھی اور صحرا میں اداس تھی۔ نہ بخت نصر رہا نہ اُس کی ملکہ رہی، اور نہ ہی معلق باغات رہے۔ جو رہی سو بے خبری رہی‘‘۔ ’’تاریخ کا مطالعہ‘‘ ایک زندہ کتاب ہے، باری علیگ سے بھی زیادہ زندہ… اور وہ تاریخ کے پھول کی خوشبو بن کر ہوا میں بکھر چکی ہے۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے نظرکی نہیں، مشامِِ تیز کی ضرورت ہے۔ اس طرح باریک بینی سے کسی شخصیت کو کوئی خاکہ نگار پیش کرسکا ہے!
مرحوم ابن انشاء نے اپنے خط میں لکھا کہ ’’اے حمید میری جان، تمہارے ’’یادوں کے گلاب‘‘ سب کے سب میں نے پڑھے ہیں بلکہ سونگھے ہیں، اور پرانے دنوں کی یاد پر دل کو کچھ کچھ ہوتا ہی رہا ہے۔ تم ڈنڈی مار جاتے ہو، عشق و عاشقی اور لڑکیوں کے تذکرے میں بھی تم ڈنڈی‘ بلکہ ڈنڈا مارجاتے ہو‘ لڑکیاں تمہاری بھولی بھالی صورت اور رومانٹک تحریر کے چکر میں آجاتی ہیں۔ خیر میاں ہم تو تمہارے عاشق ہیں۔ فی زمانہ اورکوئی ہمیں اپنے اوپر عاشق ہونے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔‘‘
خود اے حمید اپنی کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’یادوں کے گلاب میں آپ کو رنگ بھی نظر آئیں گے، خوشبوئیں بھی محسوس ہوں گی، شکلیں بھی نظر آئیں گی، آوازیں بھی اپنی طرف بلائیں گی۔ کبھی شکل خوشبو دے گی، کبھی خوشبو سے آواز آئے گی، کبھی آواز شکل بن کر سامنے آئے گی اور کبھی آواز گلاب کی خوشبو میں ڈھلتی محسوس ہوگی۔ جیسے جیسے یہ منظر میں دیکھتا گیا ہوں ویسے ویسے انہیں لکھتا چلا گیا ہوں۔ یہ بکھری یادوں کے رنگ ہیں، چہرے ہیں، خوشبوئیں ہیں، آوازیں ہیں۔ میں چاہتا ہوں آپ بھی انہیں اُن کے قدرتی موڈ میں دیکھیں، محسوس کریں اور ان کی سرگوشیاں سنیں۔ پھول مرجھا جاتا ہے مگر اس کی خوشبو کبھی نہیں مرجھاتی۔ وہ اپنے پھول کی یاد بن کر یادوں کے گُل دانوں میں ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔‘‘
’’یادوں کے گلاب‘‘ واقعی مختلف رنگوں کے گلاب کے پھولوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں انہوں نے اپنی بہت خوب صورت یادوں کو تحریر اور قاری کو اپنی یادوں میں شریک کیا ہے۔ ’’پاک ٹی ہاؤس‘‘ میں بڑے بڑے ادیبوں کی نشست کے بارے میں خوب صورت پیرائے میں لکھا ہے۔ یہ ادیب اور شاعر پاکستان کے ابتدائی دنوں میں لاہور میں قیام پذیر تھے جن میں ساحر لدھیانوی، احمد راہی، ابنِ انشاء، حمید اختر، ناصر کاظمی، سعادت حسن منٹو، شہرت بخاری وغیرہ شامل ہیں۔ اے حمید بتاتے ہیں کہ 1947ء کے پریشان کن حالات میں کس طرح وہ، احمد راہی اور عارف عبدالمتین جان جوکھوں میں ڈال کر تونسہ شریف گئے اور فکر تونسوی کو نکال لائے، اور اپنے ساتھ لاہور میں رکھا۔ کہتے ہیں کہ فکر تونسوی کو لاہور سے بہت محبت تھی اور وہ آخری ہندو ادیب تھا جو لاہور چھوڑ کر ہندوستان گیا۔ (جاری ہے)

غزلیں

انور شعورؔ

گو رات بھر کا جاگا ہوا تھا، سویا نہیں تھا
سیرِ سحر کا موقع بھی میں نے کھویا نہیں تھا
حیرت ہے دل میں نخل ِ تمنا کیسے اُگا ہے
یہ بیج اپنے ہاتھوں سے ہم نے بویا نہیں تھا
جا کر وطن سے، دنیا میں خوش بھی رہتا ہے کوئی
کس شب مسافر گھر یاد کر کے رویا نہیں تھا
ہم نے نہ جانے اُس کے لیے کیوں آنسو بہائے
جو بے مروت ان موتیوں کا جویا نہیں تھا
انور شعور اب اپنے میں ڈوبا رہنے لگا ہے
محفل میں وہ بھی حاضر تھا لیکن گویا نہیں تھا

شاہدہ دلاور شاہد

زمیں کی زائیدہ شے آسمانی ہو نہیں سکتی
پرندوں میں سو خوئے حکمرانی ہو نہیں سکتی
اگر اشعار ہوتے مان بھی لیتی نزولی ہیں
ارے تنقید ہے‘ یہ منہ زبانی ہو نہیں سکتی
بھنور باندھے ہوئے میں چل رہی ہوں اپنے پائوں میں
سمندر کو بتا دو بے کرانی ہو نہیں سکتی
نکل کر مرکزی کردار قصے سے مجھے بولا
محبت تو محبت ہے‘ کہانی ہو نہیں سکتی
کشش ہوتی ہے گرتے ہیں زمیں کی گود میں پھل بھی
نہ ہو ڈھوان دریا میں‘ روانی ہو نہیں سکتی
جہاں پر ہاتھ چھوڑا تھا وہیں ہر چیز ساکن ہے
میں چاہوں بھی تو اُس پل میں روانی ہو نہیں سکتی
نہیں تو پوچھ لو جا کے کسی دیمک زدہ گھر میں
کہ پیری تو کبھی اس کی جوانی ہو نہیں سکتی

زاہد عباس

کرو گے تم ہماری ترجمانی
چلے جائو تمہاری مہربانی
چلو چل کر انہیں بھی ڈھونڈتے ہیں
جو ہم پر کر رہے ہیں حکمرانی
مسلسل ہم پہ حملے ہو رہے ہیں
مسلسل ہو رہی ہے چھیڑ خانی
دیے روشن کہیں پر ہو رہے ہیں
کہیں پر ہو رہی ہے نوحہ خوانی
اداسی چھا گئی محفل میں زاہدؔ
یہ کس نے چھیڑ دی میری کہانی

حصہ