مبارک ہو اے علم کے شہسوارو!۔

584

مریم فاروق/عروبہ امتیاز خان
ہفتہ 15دسمبر کی صبح ہم نے آنکھ کھلتے ہی غیر ارادی طور پر آج کا درجۂ حرارت بلکہ درجۂ ’’ٹھنڈک ‘‘ معلوم کرنے کی کوشش کی۔ کمبل میں سے ایک ہاتھ باہر نکال کر موبائل میں ٹمپریچر دیکھا تو اسکرین پر 14 جگمگا رہا تھا۔ کراچی کے شہریوں کے لیے یہ وہ ڈھیر ساری سردی ہے کہ جس کا سب کو بے صبری سے پورے سال انتظار رہتا ہے۔ لہٰذا ہم دوبارہ اپنی مُنڈیا کمبل میں چھپانے لگے کہ اچانک ہی یاد آیا کہ ’’ارے، آج تو فاران کلب میں ’ٹیلنٹ ہب‘ ہے، جس کی تیاریوں میں ہم مہینہ بھر سے لگے ہوئے تھے۔ چلو، شاباش!! بستر چھوڑو، اور جانے کی تیاری پکڑو…!! آج اتنی سردی میں آئوٹنگ کا بڑا ہی مزہ آنے والا ہے۔‘‘
9 بجے ہمارے ڈرائیور صاحب ہمارے گیٹ پر گاڑی سمیت موجود تھے۔ ہمارا سفر قدرے طویل تھا لیکن جب دوستیں ساتھ ہوں تو باتوں میں پتا ہی کب چلتا ہے! جب ہم بینکوئٹ ہال میں داخل ہوئے تو 10 بج رہے تھے۔ SHS یعنی اسٹوڈنٹس ہیلپ سوسائیٹی کی رضاکاران جو خود اس وقت کراچی کے مختلف کالجوں میں زیرِ تعلیم ہیں، ہنستے مسکراتے چہروں کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کے ٹیگ گلے میں لٹکائے ، ‘SHS Ambassador’ کا سیش پِن اَپ کیے مستعدی کے ساتھ اپنی ڈیوٹیز پر موجود تھیں۔
اسٹوڈنٹ ہیلپ سوسائٹی اسلامی جمعیت طالبات کراچی کا ایک تعلیمی شعبہ ہے جو کراچی کے سرکاری اور نجی کالجوں میں پڑھنے والی طالبات کی تعلیمی معاونت کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ یہ شعبہ کئی دہائیوں سے کراچی کے کالجوں میں اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔ داخلہ مہم، اسکالرشپ پروگرام،کوچنگ کلاسز اور نوٹس کی فراہمی کے ذریعے تعلیمی امداد کے ساتھ ساتھ یہ شعبہ طالبات کو مثبت تفریح فراہم کرنے اور ان کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کے لیے کانفرنسوں، پروگراموں، سیمینارز اور مقابلوں کا انعقاد کرتا رہتا ہے۔ ٹیلنٹ ہب کا انعقاد بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
شہر کراچی کے مختلف کالجوں جن میں پی ای سی ایچ ایس کالج، سرسید کالج،شاہراہِ لیاقت کالج، گلشن بلاک 7 کالج، گورنمنٹ کالج شیخ زید، بحریہ کالج، عسکری کالج، خاتونِ پاکستان، عثمان پبلک اسکول ہائر سیکنڈری کالج سمیت تیس سے زائد تعلیمی اداروں کی طالبات اور اساتذہ نے شرکت کی۔
اسٹیج کے عقب میں گلابی اور سفید رنگ کا حسین امتزاج موجود تھا جس پر نمایاں حروف میں Talent Hub’18 7th درج تھا۔ یہ پروگرام دراصل کراچی کے تمام کالجوں کے لیے مخصوص تھا، جس میں میٹرک اور انٹر 2018ء کے A+ گریڈ حاصل کرنے والوں کو شیلڈز پیش کی جانی تھیں۔ ایک موٹیویشنل سیشن بھی رکھا گیا تھا اور مقابلۂ مصوری بعنوان ’’جب پاکستان دولخت ہوا‘‘ کے نتائج کا بھی اعلان ہونا تھا۔
بحریہ کالج کی طالبہ فضہ علیم اور حبیب کالج کی طالبہ سیرین خان مائیک سنبھالے پروگرام کا باقاعدہ آغاز کرنے کے لیے تیار تھیں۔ ہوم اکنامکس کالج کی طالبہ فاطمہ فہیم نے تلاوتِ قرآن پاک، اور صالحہ طاہر نے نعتِ رسول ِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ’’کہاں میں کہاں مدحِ ذاتِ گرامی ‘‘ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ بغیر کسی تاخیر کے ہیڈ آف ٹریننگ ڈپارٹمنٹ JI YOUTH میڈم ثریا ملک کو موٹیویشنل سیشن کنڈکٹ کرنے کے لیے اسٹیج پرآنے کی دعوت دی گئی، جنہوں نے اپنے مخصوص دلچسپ انداز میں اپنے سامنے بیٹھی ہوئی یوتھ کے اندر ’’اُمید‘‘ جگائی۔ جی ہاں، اُن کا موضوع Hope ہی تھا!! وہ بتا رہی تھیں کہ اُمید کوئی physical quantity نہیں ہے۔ یہ ایک invisible انجن ہے جو انسانی دل و ذہن کو ایندھن فراہم کرتا ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ مثبت ذہنیت انسان کے چہرے پر خوبصورتی اور چمک لاتی ہے۔ یہ ’’بیوٹی ٹِپ‘‘ معلوم ہونے کے بعد ہم نے تہیہ کرلیا کہ آج سے اس بات پر عمل کرنا ہے۔ آخرکو چہرے کی خوبصورتی کا فری آف کاسٹ ٹوٹکا جو معلوم ہوگیا تھا!!
اب ٹیلنٹ ہب کے سب سے جامع پروگرام کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ ’’ بے تاب نہ ہو معرکہ ٔ بیم و رجا دیکھ ‘‘کے عنوان سے ’’طلبہ عدالت‘‘ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جی ہاں، دو نمایاں تہذیبوں یعنی مشرقی اور مغربی تہذیب کی ازلی کشمکش دکھائی گئی تھی۔ منظر تھا ایک عدالت کا، کہ جہاں مغربی تہذیب کو مشرقی نوجوان نسل کے خیالات کو پراگندہ کرنے، مشرقی روایات کو منتشر کرنے اور بہترین خاندانی نظام کو تباہی کے دہانے پر لانے کے الزام میں کٹہرے میں کھڑا دکھایا گیا تھا۔ معزز عدالت میں موتیوں سے سجا نازک سا سفید رنگ کا دوپٹہ پہنے ’’نیکی‘‘ اور سیاہ چادر اوڑھے’’بدی‘‘ بھی موجود تھی۔ گواہان کے دلچسپ لیکن حقیقت پر مبنی بیانات اور وکیلِ استغاثہ اور وکیلِ صفائی کے برحق دلائل سننے کے بعد اُمید کی جارہی تھی کہ شاید مشرقی تہذیب کا پلڑا بھاری ہو، لیکن جب جج صاحب کا فیصلہ سامنے آیا تو سب انگشت بدنداں رہ گئے۔ جی ہاں… اور کیوں نہ رہا جائے کہ فیصلہ مغربی تہذیب کے حق میں تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم بھی جو اس تاریخی عدالت کے عینی شاہدین تھے، فیصلہ سُن کر ششدر رہ گئے تھے۔ عدالت تو دلائل کی روشنی میں فیصلہ سناتی ہے، جبکہ اسلام کا آفاقی تصور ہمیں سمجھا رہا تھا کہ ہماری مشرقی تہذیب نے اپنی اساس سے دوری کے باعث اپنا مقام طشتری میں رکھ کر اہلِ باطل کے حوالے کردیا ہے، اور فیصلے کے بعد سوائے پچھتاوے کے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اس میں آج کے مسلم نوجوان کے لیے ایک سبق بھی پوشیدہ تھا کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے کمر کس لیں، تاکہ آگے بڑی عدالت میں ہم اپنا مقدمہ ہار نہ جائیں۔
اب وقت ہو چلا تھا اُس سیشن کا، جس کا سب کو بے قراری سے انتظار تھا۔ جی ہاں ’’ٹیلنٹ ایوارڈ‘‘۔ کامیاب ہونے والی طالبات منتظر تھیں کہ کب ان کا نام پکارا جائے اور وہ اسٹیج پر موجود معزز مہمانانِ گرامی سے اپنا ایوارڈ وصول کریں۔ پس منظرکا ترانہ ’’اُمید بنو، تعمیر کرو، سب مل کر پاکستان کی‘‘ سے تبدیل کرکے یک دم ’’اے دھرتی کی قسمت کے روشن ستارو!!‘‘ کردیا گیا تھا۔ اس موقع پر ڈپٹی ڈائریکٹر تربیہ عثمان پبلک اسکول سسٹم محترمہ رقیہ منذر صاحبہ بھی موجود تھیں۔ دیگر مہمانوں میں رائزنگ یوتھ کی ڈائریکٹر عذرا سلیم صاحبہ، جماعت اسلامی کراچی حلقہ خواتین کی ناظمہ اسماء سفیر صاحبہ، SHS پریزیڈنٹ کراچی فارعہ علیم اور SHS پریزیڈنٹ سندھ ایمن ناصر بھی موجود تھیں۔ ان مہمانان کے ہاتھوں اپنی شیلڈ وصول کرتے ہوئے طالبات بہت خوشی کا اظہار کررہی تھیں۔Student’s Help Society نے اپنے کارکنان کے لیے بھی سرٹیفکیٹس کا اہتمام کر رکھا تھا۔ کالجز زون کی نگران معازہ اسلام کے ہاتھوں تمام SHS Ambassadors نے چمکتے دمکتے چہروں کے ساتھ اپناسرٹیفکیٹ وصول کیا۔
سانحۂ سقوطِ ڈھاکا کے موضوع پر مقابلۂ مصوری کے نتائج کا اعلان کیا گیا جس میں گلشن کالج بلاک 7 نے پہلی، جبکہ مادرِ ملت اور سرسید کالج نے بالترتیب دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کی۔ کامیاب ہونے والی طالبات کو شیلڈز اور سرٹیفکیٹس سے نوازا گیا۔
دس روز سے جاری آن لائن کوئز مقابلے کے نتائج کا بھی اعلان ہوا جس میں 26 طالبات نے حصہ لیا تھا، ان میں سے 4 طالبات فاتح قرار پائیں۔ ان میں سینٹ لارنس کالج کی طالبہ اقصیٰ نسیم، پی ای سی ایچ ایس کالج کی مائدہ احمد اور بشریٰ رضوی، اور عثمان پبلک ہائر سیکنڈری اسکول سے تعلق رکھنے والی فاطمہ انس شامل تھیں۔
طالبات کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے منی بک فیئر کا اہتمام کیا گیا تھا، جہاں ادبی، تحقیقی، اسلامی اور فکشن پر مشتمل اردو اور انگریزی کی کتب اور ناول موجود تھے۔ اسلامی جمعیت طالبات میڈیکل کالجز کے شعبے اسٹوڈنٹس ایڈ سوسائٹی (SAS) اور جمعیت طالبات جامعہ کراچی کے شعبے اسٹوڈنٹس ہیلپ لائن(SHL) نےcareer counselling اسٹالز لگائے جن سے شرکاء نے استفادہ کیا۔ دلچسپ پروگرامز اور شہرِ قائد کی طالبات کے جھُرمٹ میں ہم کہیں کھو سے گئے تھے… اور اُس وقت چونکے جب سب شرکاء انچارج Talent Hub حرا خالد کے ساتھ دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا چکے تھے۔ پُرسوز دعا کے ساتھ Talent Hub کا اختتام ہوا ۔

مشرق سے ہو بیزار ، نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر

ہم نے بھی واپسی کا قصد کیا اور پارکنگ میں موجود اپنی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ واپسی کے راستے ہم سوچتے رہے کہ اب اگلے سال SHS میں شامل ہونے والی نئی طالبات دیگر طالبات کے لیے پروگرام رکھ رہی ہوں گی اور ہم جامعات کے اندر اپنے مشن کو زندہ رکھنے کے کوشش میں مصروفِ عمل ہوں گے، ان شاء اللہ… جو وقت ایک بہترین ٹیم کے ساتھ گزرا، اُس کا ایک ایک پل یاد رہے گا۔ سینئرز نے قدم قدم پرحوصلہ افزائی کی۔ یقیناً اُن کے سکھانے میں کوئی ایسی بات تھی کہ ہم بھی اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھا سکے۔ اللہ ہماری کوششوں کو قبول فرمائے۔آمین!!

حصہ