کشمیر اور عالمی بے حسی

256

کرن وسیم
۔3 جون 1947ء کے تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت برصغیر کی ریاستوں کی آزادی اور الحاق کے بارے میں جو اصول طے ہوئے تھے اُن میں یہ بات واضح تھی کہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا ہے۔ مگر بھارت کی ہٹ دھرمی اور ریاستی جبری قبضے کی طویل ترین حکمت عملی نے مسئلہ کشمیر کے حل میں ستّر سال سے روڑے اٹکائے ہوئے ہیں۔ بات صرف بھارتی قبضے اور ظلم و ستم تک محدود نہیں، بلکہ عالمی قوتوں اور اقوام متحدہ جیسے اداروں کی اس اہم مسئلے سے چشم پوشی اور اس کے منصفانہ حل سے روگردانی کی وجہ سے کشمیریوں پر ریاستی مظالم اور قتل و غارت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔
اہلِ کشمیر کے جدوجہدِ آزادی سے بھرپور جذبات کو ظلم و جبر کی پالیسی کے ذریعے دبانا بھارت کی انتہائی احمقانہ حکمت عملی سمجھی جارہی ہے۔ لیکن اس تنازعے کا ایک فریق ہونے کے باوجود حکومت پاکستان کا مسئلہ کشمیر پر مؤقف انتہائی کمزور اور غیر ضروری مصلحتوں کا شکار رہا ہے۔ کشمیری عوام کی جدوجہد اور قربانیوں کی طویل ترین تاریخ میں بہت کم ہی ایسے مواقع آئے ہیں جب حکومتِ پاکستان نے کھل کر جرأت مندی سے کشمیریوں کے مطالبۂ آزادی کی تائید و حمایت کی ہو۔ حالانکہ پاکستانی عوام اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کی قربانیوں اور ان پر جاری ظلم و ستم پر انتہائی غم و غصہ کا شکار اور ان کی آزادی کے دل سے خواہاں ہیں، مگر حکومتی سطح پر مؤثر اقدامات کا فقدان ہے۔
نوجوانانِ کشمیر ستّر سال سے اپنے حقِ خودارادیت کی طویل جنگ لڑرہے ہیں جسے کسی جبر سے دبایا نہ جاسکا۔ 2016ء میں مجاہدینِ کشمیر کے کمسن ہیرو برہان مظفر وانی کی شہادت نے اس جدوجہد میں ایک نئی روح پھونکی ہے، جسے ختم کرنے کے لیے پوری بھارتی فوجی مشنری حرکت میں آگئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں2018ء کا سال سب سے خونریز سال رہا جس میں بھارتی فوج کے ہاتھوں ساڑھے چار سو کے قریب افراد شہید ہوئے۔
2019ء میں مقبوضہ کشمیر میں عام انتخابات بھی ہونے ہیں، مگر اس طرح کے نام نہاد انتخابات اور لگ بھگ سات لاکھ بھارتی فوجیوں کی موجودگی سے شدت پسندی اور خونریزی میں اضافہ ہی دیکھا گیا ہے، کمی نہیں۔
2016ء سے شروع کیے گئے پیلٹ گن کے استعمال سے اب تک سترہ افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں، جو یا تو مکمل یا جزوی طور پر بینائی سے محروم ہوگئے ہیں، جن میں زیادہ تر نوجوان اور بچے شامل ہیں۔ ان انسانیت سوز مظالم کے باوجود عالمی تنظیموں کی جانب سے بھارت پر کوئی دباؤ نہیں ہے کہ وہ ان ظالمانہ ہتھکنڈوں سے باز آجائے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے علَم برداروں کو کشمیر و فلسطین میں جاری مردم کُش مظالم نظر نہیں آتے، نہ اس بارے میں اُن کا کوئی مضبوط اصولی مؤقف سامنے آیا۔ اقوام متحدہ میں بھی قراردادوں سے آگے بات نہیں بڑھتی۔ خونِ مسلم کی ارزانی پر مسلم ممالک کی بے حسی اور چشم پوشی سب سے زیادہ شرمناک اور افسوسناک ہے۔
عالمی بے حسی اور غیر منصفانہ رویّے کی وجہ سے بھارت خود کو کشمیری عوام پر ظلم وستم کرنے میں کسی بھی قسم کی جواب دہی سے آزاد سمجھتا ہے۔کشمیر پاکستان کے لیے انتہائی اہم ہے۔ ہماری قومی خودمختاری اور سلامتی کے لیے کشمیری باشندوں کی خواہش کے مطابق کشمیر کا پاکستان سے الحاق انتہائی اہمیت کا حامل ہے، پاکستان سے الگ ایک علیحدہ ریاست کے طور پر کشمیر کا بھارت کی دخل اندازی اور اندرونی سازشوں سے محفوظ رہنا ممکن نہیں، کیوں کہ بھارت اپنی سرحدوں سے ملحق کمزور ریاستوں میں مسلسل دخل اندازی اور سرحدی دراندازیوں کا مرتکب ہوتا رہتا ہے۔ نیپال، سری لنکا اور برما میں بھارتی سرحدی جارحیت اور سازشی دخل اندازی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، جو کہ ایک کمزور کشمیری ریاست میں بھی جاری رہ سکتی ہے۔ قائداعظم کی فکری دوراندیشی اس بات کو بہت اچھی طرح سمجھ چکی تھی کہ کشمیر اور پاکستان ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے اور کوئی خوددار ریاست اور خودمختار قوم یہ بات برداشت نہیں کرسکتی کہ اپنی شہہ رگ کو دشمن کے حوالے کردے۔

حصہ