وہ ایک لمحہ

219

ڈاکٹر میمونہ حمزہ
آزاد کشمیر سے آنے والی ویگن راولپنڈی کے اڈے پر پہنچ چکی تھی۔ عالیہ نے ہینڈ بیگ سنبھالا اور عبدالرحیم کو ساتھ لے کر نیچے اتر گئی۔ ساتھ ہی ایک ٹیکسی اس کے قریب رکی، اس نے ڈرائیور کو منزل کا پتا بتایا، کرایہ طے کیا اور اطمینان سے بیٹھ گئی۔ عبد الرحیم نے کہا بھی ’’امی، ماموں کو کال کرلیتیں ناں‘‘، مگر وہ مطمئن تھی ’’تھوڑی دیر میں گھر پہنچ جائیں گے، ماموں کو آتے نجانے کتنا وقت لگے‘‘۔ راولپنڈی کے پُرپیچ راستے اور ٹریفک سگنل سفر کو مزید طویل بنادیتے ہیں، وہ بیٹے کو ہولے ہولے مطمئن کرنے لگی۔ تھوڑا سا ہی سفر طے ہوا تھا کہ ٹیکسی اچانک رک گئی، اس میں کچھ خرابی پیدا ہوگئی تھی، اور نصف النہار میں ڈرائیور انہیں بیچ سڑک اتار کر چلا گیا تھا۔ اب ماں بیٹا دھوپ میں پریشان حال کھڑے تھے۔ عالیہ نے بھائی کو کال کی تو پتا چلا کہ موصوف شہر کے دوسرے کونے میں ہیں، اور پہنچنے میں ایک گھنٹہ بھی لگ سکتا ہے۔
’’بیٹا اب تو ٹیکسی پر ہی جانا پڑے گا‘‘۔ عالیہ نے تھکے لہجے میں کہا۔
عبدالرحیم نے بنا دیکھے بوجھے ہر ٹیکسی اور گاڑی کو ہاتھ دینا شروع کردیا، دھوپ اور بھوک دونوں نے اسے مضطرب کررکھا تھا۔ عالیہ نے اسے ٹوکنا چاہا، مگر اگلے ہی لمحے ایک ٹیکسی کے ٹائر چرچرائے اور وہ ان سے ذرا فاصلے پر رک گئی۔ عبدالرحیم ٹیکسی کی جانب بھاگا، مگر عالیہ نے اس کا ہاتھ تھاما ’’دیکھ نہیں رہے اس میں سواریاں بیٹھی ہیں‘‘۔ اس کا پس و پیش دیکھ کر ٹیکسی ریورس میں اس کے قریب آگئی۔ کہاں جانا ہے آپ کو؟ ڈرائیور کے بجائے ایک سواری نے استفسار کیا۔
’’مجھے افشاں کالونی جانا ہے‘‘۔
’’آجائیں ہم بھی ادھر ہی جارہے ہیں‘‘۔ دونوں خواتین ہم آواز بولیں۔ ڈرائیور کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا۔ اس نے کرایہ بھی طے نہ کیا اور بیٹھنے کے لیے آگے بڑھی۔
خواتین نے آگے بڑھ کر عبدالرحیم کو سیٹ پر بٹھایا، عالیہ نے ٹیکسی میں بیٹھ کر بھائی کو آگاہ کیا اور موبائل بیگ میں رکھا، زپ بند کی، اور حسب ِ معمول سفر کی دعا میں مشغول ہوگئی۔ عبدالرحیم اپنی نشست پر بے چین تھا، شاید ساتھ والی خاتون کا بوجھ اس پر پڑ رہا تھا۔ اس نے بیٹے کو گود میں لینے کا ارادہ کیا تو ایک خاتون نے ہمدردی میں اس کا بیگ پکڑ لیا۔ ساتھ والی خاتون عجیب طریقے سے اس پر دباؤ ڈال رہی تھی، اور ساتھ ہی تنگی کا اظہار بھی کررہی تھی، ’’اوجی، ہم تو بہت تنگ ہورہے ہیں، آپ ذرا پرے ہوکر بیٹھو جی‘‘۔
عالیہ تنگ دل تو ہوئی مگر کچھ اور سمٹ گئی، دوسری عورت بولی:
’’ابھی تو میری بہن نے بھی بیٹھنا ہے اگلے چوک سے۔‘‘
’’ایک اور سواری کا تو آپ نے نہیں بتایا تھا مجھے، آپ نے خود ٹیکسی روک کر مجھے بلایا، جگہ نہیں تھی تو آواز کیوں دی؟‘‘ عالیہ ابھی تک ان کے بدلے ہوئے رویّے پر حیران تھی۔
’’میڈم آپ اتر جائیں، میں نے تو ان سواریوں کو ہی بٹھایا ہے، انہوں نے ہی آپ کو بٹھایا تھا، یہ نہیں چاہتیں تو میں کیا کرسکتا ہوں!‘‘ اس کے رویّے میں حد درجہ بیزاری تھی، اور مزید کوئی بات کہے بنا اس نے ٹیکسی سڑک کے کنارے روک دی۔
نیچے اترتے ہوئے دونوں کے چہرے لٹکے ہوئے تھے، عالیہ نے بے بسی سے بھائی سے رابطے کے لیے موبائل نکالنے کے لیے بیگ کی زپ کھولی، اور اگلے کچھ ثانیے بیگ کی تمام اشیاء اوپر نیچے کرنے اور بیگ کی تمام جیبیں جھانکنے کے بعد بھی موبائل نہ ملا۔
اس کا دماغ کھول گیا۔ ٹیکسی ملنے، اصرار سے بلانے اور ہٹ دھرمی اور بے دید انداز میں لبِ سڑک چھوڑ جانے کی کہانی کے سارے واقعات پلک جھپکتے اس کی نگاہ میں پھرنے لگے۔ ڈرائیور اور سواریاں تو ملی بھگت سے اسے دھوکا دے رہے تھے۔
عبدالرحیم بڑی خاموشی کے ساتھ دوسری ٹیکسی میں بیٹھ کر ماموں کے گھر پہنچ چکا تھا، مگر اگلے چند روز تک وہ ماں سے یہی اصرار کرتا رہا کہ اب نیا موبائل نہیں لینا، پھر کچھ دیر بعد کہتا: کوئی سیکنڈ ہینڈ سیٹ لے لیں، جو کسی بھی طرح قیمتی اور خوبصورت نہ ہو، جس کو دیکھ کر کسی فراڈیے کو دھوکا دہی کا خیال نہ آئے، بس کال ہوتی ہو اس سے۔
’’اور انٹرنیٹ کنکشن؟‘‘
’’آپ کا واٹس ایپ تو بالکل نہیں چلنا چاہیے، فیس بک بھی نہیں۔‘‘ وہ جوش سے بولا۔
’’اور آن لائن گیمز… اور…‘‘ عالیہ کے جملہ مکمل کرنے سے پہلے ہی وہ بولا:
’’اسمارٹ فون بے شک لے لیں، مگر بیگ کسی آنٹی کو نہیں پکڑانا۔‘‘
’’آنٹی یا چور؟‘‘ عالیہ سوچ کر ہی رہ گئی۔

الفاظ کا خزانہ

عبارت لکھنے کے لیے جملہ لکھنا آنا چاہیے، اور جملہ الفاظ سے بنتا ہے۔ یوں بنیادی طور پر لفظ سب سے اہم ہے۔ اگر لفظ کو لکھنا اور سمجھنا آتا ہے تو جملہ درست لکھا جا سکتا ہے۔ انگریزی لکھنے میں تاکید کی جاتی ہے کہ ہجے (اسپیلنگ) ضرور یاد ہونا چاہیے، ساتھ معنوں کی سمجھ بھی ہونا چاہیے۔ اردو کے معاملے میں اتنی توجہ نہیں دی جاتی، اس لیے اچھی اور درست اردو لکھنا اور سمجھنا کم ہوتا جارہا ہے۔ لہٰذا اردو سے محبت کرنے والوں کے لیے ہم ’’لغات‘‘ کے عنوان کے تحت کچھ الفاظ کے معنی اور استعمال مختصر کالم میں دینے کا سلسلہ شروع کررہے ہیں، امید ہے ہمارے قارئین اس سلسلے کو پسند کریں گے۔ (انچارج صفحہ خواتین)
…٭…
آب و تاب: (مونث) آرائش، رونق
آبِ تلخ: تیزاب، شراب، کھاری پانی، آنسو۔
آبِ جاری: بہتا ہوا پانی
آب جو: ندی، نہر (تشنہ دیدار ہیں کس آتشیں رخسار کے۔ آب جوئیں مثلِ آئینہ مصفا ہو گئیں)
آبِ نیساں: نیساں رومی سن کے ساتویں مہینے کا نام ہے۔ وہ بارش جو نیساں کے مہینے میں ہوتی ہے۔ موسم بہار کی بارش مشہور ہے کہ اس بارش سے سیپ میں موتی پیدا ہوتے ہیں۔
آب آب کرنا: شرمندہ کرنا (چھلک چھلک کے تیرے جامے نے اے ساقی۔ ستم کیا مری توبہ کو آب آب کیا
آب آب ہونا: پانی پانی ہونا، پسینہ پسینہ ہونا، دل نرم ہونا، پگھلنا۔
آب آب آجانا: چمک آجانا (خاکساری سے بڑھی دل کی صفا۔ خاک سے آئینے میں آب آ گئی)

حصہ