سجدوں کی حقیقت

822

اُم محمد سلمان
زندگی میں کئی ناقابلِ فراموش واقعات پیش آئے۔ کبھی کسی اپنے کی موت نے جیتے جی ماردیا تو کبھی کسی پرائے کے غم نے خوب رلایا۔ مگر کیا، کیا جائے صاحب! کہ دکھ سکھ زندگی کے ساتھی ہیں اور ان سے فرار ممکن نہیں۔ موت و حیات، خوشی اور غم، کامیابی اور ناکامی یہ سب تو ساتھ ساتھ چلتے رہیں گے۔ مگر میں جو واقعہ آج لکھنا چاہتی ہوں، اس نے مجھ پر سوچ اور آگہی کے نئے در وا کیے۔ ایک وقت تھا میں سوچا کرتی تھی کہ ’’اللہ کا قرب سجدے میں ہی کیوں ملتا ہے‘‘؟ کیونکہ میرا خیال تھا، اللہ کو تو جب دل سے یاد کرو اللہ کا قرب نصیب ہوجاتا ہے۔ اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، عبادت کرتے۔ اللہ کو تو جب بھی سچے دل سے پکارو، وہ قریب ہی ہوتا ہے۔
یہ اب سے تقریباً آٹھ سال پہلے کا واقعہ ہے۔ زندگی معمول کے مطابق تھی، دوپہر کو تھوڑا آرام کرنے لیٹی تھی اور میرا بیٹا سلمان صحن میں کھیل رہا تھا۔ اچانک زور سے چلایا امی! امی! میں گھبرا کے باہر آئی۔ ’’کیا ہوا سلمان؟ کیا ہوا بیٹے‘‘؟ وہ بڑی مشکل سے بولا، ’’امی میں پانچ کے سکے کو اچھال رہا تھا وہ میرے منہ میں چلا گیا اور اب حلق میں پھنس گیا ہے‘‘۔ اس کے بابا بھی فوراً بھاگ کر آئے اور اپنی سی ہر ممکن کوشش کر ڈالی۔ سکہ باہر نکالنے کی مگر کوئی کوشش کامیاب نہ ہوئی۔ سلمان رونے لگا، ’’امی میرا دم گھٹ رہا ہے امی مجھے بچا لو‘‘، اس کی گھٹی گھٹی سسکیاں بہتے آنسو میرے سینے میں خنجر بن کے چبھنے لگے۔
ہم دونوں میاں بیوی اسے لے کر بھاگے اور قریبی ہسپتال پہنچے۔ وہ ایک مشہور پرائیویٹ ہسپتال تھا۔ بچے کو ایمرجنسی میں لے گئے اپنی سی بھرپور کوشش کی سکہ نکالنے کی مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ آخرکار جلدی جلدی اس کے گلے کا ایکسرے کیا گیا۔ ایکسرے کے بعد سلمان کو مجھے لاکر دے دیا۔ میں اسے گود میں لیے بیٹھی تھی۔ ڈاکٹر آئے اور کہنے لگے، ’’سکہ اس بچے کے گلے میں بہت خطرناک پوزیشن میں ہے، کسی بھی وقت سکہ پلٹنے کی وجہ سے بچے کا دم گھٹ سکتا ہے ہمیں فوری آپریشن کرنا ہوگا‘‘۔ میرے شوہر ڈاکٹرز سے بات کرنے لگے۔ اپنے بھائیوں کو فون کر کے بتایا اور میں اتنی دیر سلمان کو گود میں لیے بیٹھی رہی۔ دل تھا کہ لگتا تھا صدمے سے منجمد ہوگیا ہے۔
میرا بچہ میرا سلمان آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو بھرے بڑی حسرت سے مجھے دیکھ رہا تھا، ’’امی! کیا میں مر جاؤں گا‘‘؟، بڑی آہستگی سے بولا۔ ’’اور میں تڑپ کر رہ گئی‘‘، نہیں، نہیں میرے لال! اللہ تمہیں زندگی دے سلامت رکھے۔ میں اسے دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی۔ ابھی اس وقت تو یہ زندہ سلامت میرے ہاتھوں میں ہے، میں اس کی زندگی کی رمق کو محسوس کررہی ہوں لیکن خدانخواستہ اگر اسے کچھ ہوگیا تو۔ یہ میرا ایک اکلوتا فرزند میری آنکھوں کی ٹھنڈک۔ اسے کچھ ہو گیا تو میں کیسے جی پاؤں گی اس کے بغیر؟ میں دھاڑیں مار مار کے رونا چاہتی تھی، چیخنا چاہتی تھی، چلانا چاہتی تھی، فریاد کرنا چاہتی تھی مگر یہ سب کچھ میرے مزاج کا شیوہ نہ تھا نہ ہی میرے دین میں ایسا کچھ کرنے کی اجازت۔
میں اپنے سلمان کو گود میں لیے بے حس و حرکت بیٹھی تھی مبادا ذرا سی بھی ہلی تو وہ سکہ اس کی جان لے لے گا۔ مگر میرے اندر کی ماں بے قراری کی کس انتہا پر تھی۔ جس کا رواں رواں سراپا التجا بنا ہوا تھا۔ اس ماں کی ایک ایک سانس فریاد کررہی تھی۔ ’’میرے اللہ! میں نہیں جانتی ڈاکٹر کیا کہہ رہے ہیں، میرے اللہ! میں بس تجھے جانتی ہوں۔ میرا سوال صرف تجھ سے ہے‘‘۔ مجھے تو دعا بھی مانگنی نہیں آرہی تھی کہ اس وقت کیا مانگوں؟ مجھے لگ رہا تھا وقت میرے ہاتھوں سے پھسلتا چلا جارہا ہے اور میں نے اس وقت کی ڈور کو تھامنا ہے ہر صورت میں۔ مگر کیسے؟ ’’میرے اللہ! تیرے سوا مجھے کون اس مشکل سے نکال سکتا ہے؟ ایک بے بس ماں کی فریاد سن لے میرے اللہ! میرا سلمان، میرا سلمان، میں تجھ سے اس کی زندگی کی بھیک مانگتی ہوں۔ میرے بے حس و حرکت وجود کی نگاہیں سامنے درخت پر جمی تھیں۔ مگر میری روح گویا عرشِ معلٰی کے چکر کاٹ رہی تھی، دیوانہ وار طواف کررہی تھی۔ بے سدھ ہو کے پکار رہی تھی میرے اللہ! میرا سلمان! میرے اللہ! میرا سلمان۔ اس جسمِ ناتواں کا ایک ایک انگ تڑپ رہا تھا۔ اللہ سے اپنے لخت جگر کی زندگی مانگ لینے کے لیے مچل رہا تھا۔ میرے اللہ! اگر تو مجسمِ وجود ہوتا میں تیرے قدموں میں سر رکھ دیتی‘‘۔
اور بس وہ ایک لمحہ تھا آگہی کا، میں ساکت بیٹھی تھی مگر میری روح اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوچکی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا میرا سر میرے رب کی بارگاہ میں ہے۔ میرا وجود انتہائی بے بسی، اطاعت، محبت، بے کسی، عاجزی اور انتہائی لاچاری کے عالم میں اللہ کے حضور سجدہ ریز تھا۔ میرا روم روم کس نیازمندی کے ساتھ اللہ کے حضور میں جھکا ہوا تھا۔ بس سارے جہاں سے رشتہ توڑ کے، سب سے امیدیں توڑ کے میں صرف تیرے در پر بیٹھی ہوں میرے اللہ۔ مجھے خالی ہاتھ نہ لوٹا مجھے میرے بیٹے کی زندگی بخش دے۔ بخش دے مولیٰ اور پھر کسی نے کہا کہ بچے کو جناح ہسپتال لے جاؤ۔ ہم اسے لے کر وہاں جارہے تھے راستے میں وہ بار بار الٹیاں کرنے لگا۔ ’’امی میرا دم گھٹ رہا ہے‘‘ اور میری روح تو وہیں اٹکی تھی جو موت اور زندگی کا مالک ہے۔ وہی زندگی دے گا اسی کے ہاتھ میں سب کچھ ہے۔ اور پھر کچھ ڈاکٹر سلمان کو میرے ہاتھوں سے لے کر آپریشن تھیٹر کی طرف لے گئے اور مشکل سے دس منٹ بھی نہ گزرے ہوں گے کہ میرے ہاتھ میں ٹشو پیپر میں لپٹا ہوا سکہ لاکے رکھ دیا اور سلمان آنسوؤں بھری آنکھوں سے ہنستا ہوا میری گود میں آگیا۔ میرے اللہ نے کرم کردیا تھا۔ میرے سلمان کو زندگی بخش دی تھی۔ بغیر آپریشن کے ہی سکہ نکالا جا چکا تھا۔ ہاں مگر مجھے سجدے کی حقیقت سمجھ آگئی تھی۔ سجدہ تو نام ہے سپردگی کا۔ میری ذات، میری انا، میری عزت، میری اکڑ، میرا غرور، میرا نفع، نقصان سب کچھ رب کے قدموں میں قربان۔

حصہ