گڑیا کو بخار ہوگیا

2188

ایک گھر میں دو بھائی بہن رہتے تھے۔ پیارے پیارے اور اچھے اچھے۔ بھائی بہن سے دو ڈھائی سال بڑا تھا۔ بہن کی عمر ساڑھے تین سال کی تھی اور بھائی کی عمر قریب قریب 6 سال کی تھی۔ ویسے تو بھائی اپنی بہن کا بہت ہی خیال رکھا کرتا تھا۔ وہ باہر نہ جائے۔ کوئی مضر صحت چیز نہ کھائے۔ کیچڑ پانی سے نہ کھیلے۔ مٹی میں دھولم دھول نہ ہوجائے۔ اپنے کپڑے خراب نہ کرلے۔ گھر کی چیزوں کی توڑ پھوڑ نہ کرے۔ الماری کی درازوں سے چیزیں نکال کر گھر میں نہ بکھرے۔ ان سب نگرانیوں کے باوجود بھی بہن کو جہاں موقعہ ملتا کوئی نہ کوئی کارنامہ ضرور انجام دیدیا کرتی تھی۔ اِدھر اْس نے کوئی نازک شے کی بربادی کی اْدھر گھر میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ جب ایسی کوئی صورت حال پیدا ہوتی اور ڈانٹ پیٹ سے بات بڑھتے بڑھتے پٹائی کی صورت اختیار کرتی محسوس ہوتی بھائی درمیان میں آجاتا اور کسی نہ کسی طرح اپنی بہن کو بچا لیجاتا۔ ایک تو بھائی کی محبت اور دوسرے سنگن صورت حال میں بھائی کی زبردست حمایت نے بہن کو بھی بھائی کا دیوانہ بنا کر رکھ دیا تھا۔ والدین کو بھی دونوں کی پیارمحبت والی کیفیت دیکھ کر رشک آتا اور کسی حد تک اس بات کی بھی خوشی ہوتی کہ دونوں کے پیار کی وجہ سے گھر میں کام کاج کی آسانی ہوتی۔ ان کے ہر وقت آپس میں ساتھ کھیلنے کی وجہ سے ان کی والدہ کو گھر کے کام کاج میں آسانی ہوتی اور گھر بھی بے جا ابتری سے بچا رہتا۔
بھائی کے اچھے اور معصومانہ سلوک کی وجہ سے بہن اور کسی کا کہا مانے یا نہ مانے، بھائی کے سمجھانے یا کسی کام کے منع کردینے والی بات مان لیا کرتی تھی جبکہ اتنی چھوٹی عمر کے بچے کب کسی کی بات مانا کرتے ہیں۔
بھائی بڑا ہی سہی لیکن تھاتو وہ بھی بچہ۔ دوسرے بہت سارے بچوں کی طرح اسے بھی یہ بات بہت بری لگتی تھی کہ جوبھی آتا وہ بہن ہی کی تعریف کرتا کہ ہائے دیکھو کتنی پیاری اور سلیقے کی بچی ہے۔ حانلاکہ کہ اس کے ایسا ہونے میں بھائی کا بہت بڑا حصہ تھا۔ جب کوئی آنے والا کوئی کھلونا، کپڑے یا پیسے بہن کو ہی لاکر دیتا تو یہ بات اسے اور بھی گراں گزرتی۔ ایسا کرنا اسے گراں تو گزرتا لیکن وہ دل ہی دل میں صرف لانے والوں سے ہی خفا ہوتا تھا۔ بہن کی جانب سے اس کے دل میں کوئی حسد نہیں ہوتا تھا۔
ایک مرتبہ ہوا یہ کہ گھر میں بہت دورسے کچھ مہمان آئے اور بہن کو تحفے میں ایک بہت بڑی ساری گڑیا دی۔ وہ سوچ رہا تھاکہ شاید اس کیلئے بھی کوئی تحفہ ہو لیکن ایسا نہیں ہوا۔ رنج تو اسے بہت ہوا لیکن بہن کی جانب سے اس کے دل میں کوئی میل نہیں آیا۔ گڑیا سے کھیلتی گڑیا سی بہن اس کو اور بھی اچھی لگنے لگی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کاش اس کے پاس پیسے ہوتے تو وہ گڑیا کیلئے کوئی اچھی سی مسہری لادیتا اور کچھ اچھے اچھے برتن بھی۔ والدین اتنے حیثیت والے تو نہیں تھے کہ اسے یا اس کی بہن کو جیب خرچ کی مد میں کچھ پیسے دیدیا کرتے۔
ابھی شام بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس کی والدہ کی کوئی سہیلی گھر آئیں اور اس کی چھوٹی بہن کو اچھی بڑی رقم دے گئیں۔ ان کی امی کی ایک خصوصیت یہ ضرور تھی کہ وہ ان پیسوں کو کبھی اپنے استعمال میں نہیں لایا کر تی تھیں البتہ فضول چیزیں کھانے منع کیا کرتی تھیں۔ رقم پس انداز ہوجاتی تو کوئی نہ کوئی اچھا کھلونا یا پہنے اوڑھنے کی کوئی چیز خرید لیا کرتیں۔ پیسے دیکھ کر بھائی کو خوشی ہوئی کہ وہ اب ان بیسوں سے گڑیا کیلئے کچھ نہ کچھ ضرور خرید سکے گا۔ رات کو سونے سے پہلے اس بات پر بہت غور کیا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ بہن مان بھی جائے اور وہ بہن سے پیسے لینے میں اس طرح کامیاب ہوجائے کہ بہن کو ذرا بھی برا نہ لگے۔ سونے سے پہلے ہی اس کے ذہن میں ایک ترکیب آگئی۔ وہ پہلے تو مسکرایا اور پھر مطمئن ہو کرگہری نیند سوگیا۔
گرمیوں کا زمانہ تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بچوں کو اسکول میں سات سال کی عمر تک پہنچنے پر ہی داخلہ ملا کرتا تھا۔ اس لئے وہ اور اس کی عمر کے بچے گھروں میں ہی کچھ لکھ پڑھ لیا کرتے تھے۔ وہ لکھنے پڑھنے سے فارغ ہوا تو اسے رات کی ساری منصوبہ بندی یاد آگئی۔ دوپہر کا وقت تھا اور اب دھوپ گھر کے صحن میں اپنے قدم پوری آب و تاب کے ساتھ جما چکی تھی۔ گرمیوں کی دوپہر میں گھر میں موجود سارے افراد ہی آرام کیا کرتے تھے۔ وہ چپکے سے کمرے میں گیا۔ بہن اور امی آرام کی غرض سے نیم غنودگی کے عالم میں نظر آئیں۔ وہ آنکھ بچا کر بہن کی گڑیا اٹھا لایا اور اس کو دھوپ میں رکھ دیا۔ ذراسی دیر میں گڑیا بہت گرم ہو گئی۔ وہ اسے اٹھاکر لایا اور کمرے میں رکھ کر بہن کو آہستگی سے جگایا اور کان میں کہا کہ تمہاری گڑیا کو تیز بخار چڑھ گیا ہے۔ بہن جلدی سے ورانڈے میں آئی اور جب گڑیا کو چھوا تو گھبرا گئی اس لئے کہ گڑیا کا بدن آگ بنا ہوا تھا۔ بھائی نے کہا گھبراؤ نہیں میں ابھی اس کو ڈاکٹر کے پاس لیجاتا ہوں۔ بس تم ایسا کرو کہ مجھے کچھ پیسے دیدو۔ گزشتہ شام کو جو پیسے اسے ملے تھے وہ اس نے بھائی کو لاکر دیدیئے۔ بھائی نے پیسے پکڑے اور بہن کو تسلی دیتا ہوا گھر سے چلا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حالات ایسے نہیں تھے کہ بچوں کو باہر نکلنے میں کوئی خطرہ ہو۔ وہ پہلے تو بازار گیا اور گڑیا کیلئے ایک مسہری خریدی اور ساتھ ہی ساتھ کھانے پینے کی دوچار چیزیں بھی خریدیں جو صاف ستھری تھیں اور صحت کو نقصان پہنچانے والی نہیں تھیں۔ واپسی پر گلی کے موڑ پر ایک چھوٹی سی سبیل تھی۔ اس کے پانی سے گڑیا کو نہلایا تو گھڑیا کا بخار بالکل ہی اتر گیا یعنی گڑیا کی گرمی ساری کی ساری نکل گئی۔ گھرآیا تو بہن بہت شدت سے اس کا انتظار کر رہی تھی۔ بھائی آیا تو اس نے گڑیا کی خیریت بڑی بے چینی سے معلوم کی۔ بھائی نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب نے ایسی دوا دی کہ گڑیا کا بخار بالکل ہی اتر گیا۔ لودیکھو تم خود ہاتھ لگا کر دیکھ لو۔ جب بہن نے گڑیا کو ہاتھ لگایا تو گڑیا کا بخار واقعی اتر چکا تھا۔ بہن نے کہا اور تھیلے میں کیا ہے؟۔ بھائی نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ دو چار دن گڑیا کو مکمل آرام کی ضرورت ہے اس لئے میں اس کیلئے ایک مسہری خرید کر لیتا آیا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے گڑیا کی مسہری تھیلے سے نکال کر بہن کو دیدی۔ پھر بھائی نے کہا کہ گڑیا کے صحتیاب ہونے کی خوشی میں میں کھانے کی کچھ چیزی بھی لایا ہوں۔
ابھی وہ اچھی اچھی چیزیں کھانے میں مصروف ہی تھے کہ ان کی والدہ اتنے ہی پیسے لیکر کمرے میں داخل ہوئیں۔ بھائی سمجھ رہا تھا کہ والدہ کو اس کی شرارت کا کوئی علم نہیں لیکن ان کو سب کچھ پتہ تھا۔ بیٹے سے کہا کہ مجھے سب معلوم ہے لیکن پھر بھی تم ایک نیک اور اچھے بچے ہو۔ لہٰذا علاج کے پیسے میری جانب سے قبول کرو۔ یہ کہہ کہ انھوں نے بہت زور سے بیٹے کا ماتھا چوما اور بیٹی کو سینے سے لگا لیا۔

حصہ