جدید اسلحہ ،افواج اور ٹیکنالوجی کی شکست

450

افغانستان میں سفیر رہنے والے ریان سی کروکر فرما رہے ہیں’’ افغانستان میں امریکہ کا طالبان کے ساتھ معاہدہ سرنڈر کرنا ہے‘‘اور مجھے شاعر مشرق ،حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ کے یہ دو مشہور مصرعہ یاد آگئے۔ ’’اللہ کو ہے پامردی مومن پہ بھروسہ ‘‘…’’مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی ‘‘۔عالمی منظر نامے پر طالبان کے ساتھ امریکی مذاکرات بھی ہر حوالے سے سماجی میڈیا پر موضوع بنے رہے ،لوگ بتاتے رہے کہ ایک بار پھر تاریخ رقم ہوئی ہے ۔ روس جیسی سپر پاور کو ٹکڑے کروانے کے بعد امریکہ اور اس کے ساتھ ناٹو ممالک کی افواج کو بھی چند افراد نے تھوک چٹوا ڈالا ۔امریکہ واپسی کا رستہ ڈھونڈ رہا ہے اور بالآخر مذاکرات کے لیے آمادہ ہو گیا ۔مذاکرات کے سلسلے کے لیے قطر پھر ماسکو کا انتخاب خود امریکہ کو ماضی کا سبق یاد دلانے کے لیے کافی تھا۔ماسکو سے اجلاس کی ویڈیومیں مذاکرات کاتلاوت کلام پاک سے آغاز نے بھی سوشل میڈیا پر خوب تبصرے وصول کیے ۔ ایمان ،جہاد، تقویٰ ، توکل باللہ کی فتح کا عملی مظاہرہ قرار دیا گیا۔اسی سلسلے میں’’ملا عبدالسلام ضعیف پاکستان میں طالبان سفیر تھے جنہیں نائن الیون کے بعد حکومت پاکستان نے امریکہ کے حوالے کر دیاتھا۔وہ عرصہ دراز تک گوانتاناموبے میں تکالیف برداشت کرتے رہے ۔انکو گھسیٹنے والا امریکہ اب انکے سامنے بیٹھ کر سلامتی کی بھیک مانگتے دیکھا گیا۔‘‘قطر میں طالبان امریکہ مذاکرات کا منظر۔ دیکھئے تو یہ مولوی امریکیوں کے سامنے کیسے بے خوف بیٹھے ہیں۔ بے خوفی نظر نہ آئے تو اپنے کسی وزیراعظم کی امریکیوں سے ملاقات کی تصویر دیکھ لیجئے فرق خود محسوس ہو جائیگا۔‘‘ایسے میں سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سیدمنور حسن کے پانچھ چھ سال قبل کے بیانات اور اس حوالے سے پیش گوئیاں بالکل درست نظرا ٓئیں۔17سال سے جاری جنگ کے بعد یہ مذاکرات جدید اسلحہ، سیٹلائٹ ، ٹیکنالوجی ، 60ممالک کی مشترکہ افواج کی نہیں بلکہ ایمان ،توکل باللہ ،استقامت ، جہاد فی سبیل اللہ اور شوقشہادت کی فتح کا پیغام تھے۔مسعود ابدالی لکھتے ہیںکہ’’افغانستان کے ‘اجڈ’ مولویوں نے عسکری محاذ پر تو اپنی تنظیم و حکمت کا لوہا منوایا ہی ہے، سفارتی میدان میں بھی انکی پیشقدمی جاری ہے۔ مہذب انداز، متانت، قابل رشک سماعت اور مدلل گفتگو سے ہارورڈ اور برکلے کے پڑھے امریکی سفارتکار بھی بے حد متاثرہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ روس سمیت اپنے تمام پڑوسیوں سے اچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں ۔انہوں نے نئے آئین کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ ‘‘
اسی ہفتہ یوم یکجہتی کشمیر الحمدللہ ، سماجی میڈیا پر بھی ایک منظم اورنمایاںانداز سے منایا گیا۔ٹوئٹر ٹرینڈ لسٹ پر کشمیر ہی چھایا رہا ۔کیا حکمران ،کیا اپوزیشن ، کیا فوجی کیا بیورو کریٹ ، تمام اہل پاکستان دنیا بھر سے بھارتی مظالم ،مظلوم کشمیری بھائیوں کی داستان شجاعت و استقامت سوشل میڈیا پر کئی ہیش ٹیگ کے ساتھ رقم کرتے رہے۔اس میں بچوں کے نعروں کی ویڈیو، سید علی گیلانی کی ویڈیوز خاصی وائرل رہیں۔آئی ایس پی آر کی جانب سے پچھلے سال تو ’شہزاد رائے ‘ کانغمہ ’’کشمیر کو حق دوبھارت ‘‘جاری کیا گیا لیکن امسال صرف بھارتی درندگی کو آشکار کرتی سخت ٹوئیٹ سے ہی کام چلایا۔ویسے گیارہ دن قبل ’نصر‘ میزائل کے کامیاب تجربات کی وائرل پوسٹس سے بھی انہوں نے پاک فوج کے عزائم کا پیغام دے دیا تھا۔زمینی میزائل کے کامیاب پر مبارک باد اپنی جگہ لیکن سوشل میڈیا خود ایک محاذ ہے یہ بات آئی ایس پی آر یقیناً سمجھتی ہے ۔یوٹیوب پر دس لاکھ سے زائد سبسکرائبر رکھنے والا آئی ایس پی آر کا چینل ہو، یا کوئی 20لاکھ کے قریب فالوورز رکھنے والا ٹوئیٹر اکاؤنٹ ، جان لیںان پرآپ کے شائقین متلاشی رہتے ہیں کوئی شاندار پروڈکشن پر مبنی ویڈیو کے جسے وہ آگے بڑھا سکیں۔ مقبوضہ کشمیرمیں تو بھارتی درندوںکی بربریت کا طوفان مستقل بڑھ ہی رہا ہے اب تواترسے سرحدی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے حصہ میں بھی کئی کارروائیاںہوئی ہیں۔9 جنوری کو شاہ کوٹ میں بھارتی درندگی کا شکار معصوم کشمیری بہن کی شہادت اس کی تازہ مثال ہے۔اہل کشمیر کی استقامت میں طالبان مذاکرات نے مزید نئی روح پھونک دی اور پیغام دیا کہ ایمان ،توکل باللہ، جہاد فی سبیل اللہ کی قوت کے آگے وقت کی دوسری سپر پاور ڈھیر ہوئی ہے تو بھارت کی کیا اوقات ہے ۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت نے بھی اپنے بلند بانگ دعووں کے برعکس منی بجٹ کے نام پر جو معاشی اصلاحات پیش کی ہیںاُن میں تمام ٹیکس چوروں اور طاقتور طبقات ہی کو فائدہ پہنچایا گیا ہے ۔بجٹ کے اس اہم ترین پہلو کو ہمارے سادہ لوح عوام سمجھ نہ سکے البتہ حکومت نے حج کی سبسڈی ختم کر کے پاکستانی عوام پر جو بوجھ ڈالا ہے اس پر خاصا شور مچ گیا۔سوشل میڈیا پر ہر جانب سے یلغار ہو گئی وہ جسے حج پر جانا تھا ، جو جا چکا تھا جسے فی الحال نہیں جانا تھا،سب ہی اپنا حصہ ڈالتے نظر آئے ۔وہ تو بھلا ہو سی ٹی ڈی کے مسلسل تضاد بیانات کا جس کی وجہ سے سانحہ ساہیوال حج سبسڈی کے شور میں دب نہیںسکا اور کہیں نہ کہیں مستقل جگہ بنا لیتارہا،ورنہ حج سبسڈی، منی بجٹ تو سارے ایشوز دبا دیتا۔ویسے تادم تحریر اس ’’حج سبسڈی ‘‘ایشوپر حکومت نے ایک بار پھر سوشل میڈیا پر ،بلکہ ہر جانب ہائی جانے والی بے چینی و اضطراب دیکھتے ہوئے اپنے کیے پر پانی ڈالنے یعنی دوبارہ غور کرنے کا اعلان کیا ہے ۔لیکن اس حج سبسڈی والے معاملے کو کس کس طرح دیکھا گیا ،آئیں ایک نظر ڈالتے ہیں:
حکومت کے اعلان کے دفاع میںقاری حنیف ڈار کی اس بیانیے پر مبنی ویڈیو کو خوب شیئر کیا گیا جس میں’’بیت المال کی سبسڈی پر حج کی کوئی نظیر خیرالقرون میں نظر نہیں آتی، نہ دورِ رسالت میں اور نہ خلفائے راشدین کے دور میں۔‘‘اپوزیشن کو اس بیانیے میں اپنے قائد کی بے گناہی نظر آئی:’’یہ کیسی حکومت تھی میاں محمد نواز شریف صاحب کی ۔گیس،میٹرو ،حج ،کھادپر سبسڈی۔جبکہ حکمران جماعت نے الزام عائد کیا کہ انہوں نے کرپشن کر کے جیب بھری۔لیکن اب عام آدمی کو پتہ چلا خزانہ سے سبسڈی ہر چیز میں عوام کو ہی دی گئی۔موجودہ حکومت تو ہر چیز کو مہنگا کرنے کے ساتھ سبسڈی بھی ختم کررہی ہے۔‘‘سماجی میڈیا پر تحریک انصاف کے معروف پرستار و حمایتی بابا کوڈا روایتی انداز سے میدان میں اترے ’’سبسڈی کا مطلب ہے حکومت کی طرف سے امداد۔ حج، تبلیغ خالص انفرادی عبادات ہیں جو آپ امداد کے سہارے نہیں کرسکتے، کیونکہ حج کا بنیادی مقصد یہ نہیں کہ آپ حرم پہنچ کر رسومات ادا کرلیں، حج کی اصل شرط یہ ہے کہ آپ اپنے وسائل کو استعمال کریں اور انہیں اللہ کی خاطر حج کرنے میں صرف کریں۔حکومتی امداد کے سہارے حج کرنا، اور وہ بھی اس وقت جب حکومت کھربوں روپوں کی مقروض ہو، اوپر سے سبسڈی عوام کے پیسوں پر مشتمل ہو، اور عوام کا ہر فرد ڈیڑھ لاکھ روپے کے قرض تلے دبا ہو۔کیا یہ حج جیسی عبادت کی روح سے مطابقت رکھتا ہے؟‘‘اس پراپوزیشن کے حمایتی یوں میدان میں اترے کہ’’حج پر سبسڈی سے تھر کے بچے یاد آگئے مگر ریلوے و ہوائی سفر، بچوں کی تعلیم وصحت،پلاٹوں وگھروں پر سبسڈی کھاتے ہوئے یہ یاد نہیں آتے؟۔اسی طرح یوں بھی لیا کہ ’’اگر حج پر سبسڈی سودی رقم کی وجہ سے جائز نہیںتوپارلیمنٹ میںاراکین کے لیے رعایت نرخوںپر کھانے کی سہولت پر اُسی مد سے سبسڈی کیسے جائز ہو سکتی ہے؟‘‘
ویسے سب سے زیادہ بیانیہ یہی پھیلا رہا ، اس کے ساتھ یہ بھی لکھا ہواآتا کہ ’اس پیغام کو خوب شیئر کریں تاکہ حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑے ‘‘کیونکہ اس میں براہ راست ذلیل کیا جا رہا تھا کہ اگر خلوص نیت سے ملک چلانے کے لیے پیسہ بچانا ہی ہے تو سب سے پہلے اپنی عیاشیوںپر زبردستی کی سبسڈی سے جان چھڑاؤ یا حرام اور سود کا معاملہ ہے تو پھر سود تو مکمل حرام ہے صرف حج کے لیے نہیں۔ثاقب ملک اپنی وال پر ’’حج سبسڈی فیصلے کا پوسٹ مارٹم “کرتے ہوئے لکھتے ہیںکہ :’’اس پورے ایشو میں دو ایسے سوالات ہیں جو ذہن میں آتے ہیں:1. کیا ایک مسلمان ملک کی حکومت کا کسی مسلمان کی عبادات میں کوئی رول ہوتا ہے یا نہیں؟نمبر2. کیا سبسڈی ختم کرنے سے قبل حکومت نے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ سبسڈی کے ساتھ یا اسکے بغیر حج عام عوام کے لئے افورڈ ایبل ہی رہے؟
پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ قرآن میں بطور خاص حج کے لئے کسی مسلمان حکمران کے واسطے کوئی لازمی امر موجود نہیں ہے. نماز، زکوۃاور نیکی کو فروغ دینے کا حکم واضح طور پر دیا گیا ہے. یعنی حج پر قسم کی مالی رعایت دینا حکومت پر فرض نہیں۔ اسی طرح آئین پاکستان مسلمانوں اور ہر قسم کے مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذاہب کی پیروی کرنے اور اس میں آسانی فراہم کرنے کی ضمانت دیتا ہے، مگر کسی خاص عبادت کے لئے مالی امداد کا تصور موجود نہیں۔پہلے سوال کے جواب سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ گو حکومت پر براہ راست حج سبسڈی فرض نہیں مگر بالواسطہ اپنے شہریوں کو آسانی فراہم کرنا اسکی ذمہ داری میںہے۔
اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں سبسڈی کے ساتھ بھی حج ہمارے عوام کی اوسطاً سالانہ آمدن سے دوگنا مہنگا تھا۔ سبسڈی ختم کرنے کے بعد اب حج ساڑھے تین گنا مہنگا ہوچکا ہے۔سادہ سا سوال ہے کہ حکومت سے ہر معاملے میں قیمتیں کم کرنے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے تو حج سے کیا عداوت ہے؟دیگر مسلمان ممالک پر نظر دوڑائیں تو ملائشیا اور انڈونیشیا میں حج تمام مسلمان ممالک میں سب سے سستا ہے۔ترکی میں تو ہر 65 سال یا اس سے زائد العمر فرد کے لئے حج مفت ہے۔بنگلہ دیش میں حج سب سے زیادہ اخراجات کا تقاضا کرتا ہے۔مختصر یہ کہ حکومت کا کام ہے کہ عوام کے لئے سہولت پیدا کرے اور کم سے کم اخراجات میں حج کا بندوبست کرے نا کہ منہ پھاڑ کر صاحب استطاعت کا بہانہ تاک تاک کر عوام کے منہ پر تھوپتی پھرے۔ ہر قسم کے اخراجات کم کرنا تو تحریک انصاف حکومت کے بنیادی منشور کا اہم ترین حصہ ہے۔حج پر کیوں کسی قسم کی کوشش نہیں کی گئی؟ غریب افراد کو سبسڈی دینا گو مذہبی فریضہ نہیں مگر، بنیادی سہولیات، عبادات اور تفریحات کو صرف صاحب ثروت اور امیر نہیں مگر غریب غرباء کی پہنچ میں رکھنا ایک انصاف پسند معاشرے کا جزو ہوتا ہے۔اللہ نے تو چھوٹ دی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ زندہ انسان لوگوں کے درمیان رہتے ہیں اگر صرف پیسے والوں کے ہی “بلاوے” آنے ہیں تو یہ عام لوگوں میں عدم مساوات کو مہمیز دینے، دین کے لئے اضطراب اور بے چینی اور معاشرے میں چھلانگیں مارتی ناانصافی کو مزید فروغ دے گی۔
ویسے تو صوبہ پنجاب کے سینئر وزیر علیم خان کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری اور مستعفی ہونا جہاںاچھا عمل قرار دیا جا رہا ہے وہاں کلین چٹ دلوا کر یا ڈرائی کلین کروا کر منصوبہ بندی سے عثمان بزدار کی جگہ لانے کا بھی عندیہ دیا جا رہا ہے ۔حامد میر نے جب یوں ٹوئیٹ کیا کہ ’’ علیم خان کی گرفتاری سے عمران خان کو فائدہ ہو گا یا نقصان؟‘‘۔پٹواری حضرات نے اپنا بیانیہ جاری رکھا :’’عمران خان 4بکریوں کے مالک ہیں اور کوئی ذاتی گاڑی بھی نہیں ہے۔علیمہ باجی نے سلائی مشین سے اربوں کی جائیدادیں بنا لی۔جہانگیر ترین کل تک کلرک تھے مگر آج اربوں کے مالک ہیں۔علیم خان کاپرائز بانڈ نکل آیا اور انہوںنے قبضہ مافیا میں اپنا نام روشن کیا۔لیکن حساب صرف نوازشریف سے ہی مانگوگے‘‘۔اس ضمن میں کچھ عرصے قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی خواجہ سعد رفیق کی تقریر بہت وائرل رہی جس میں انہوں نے بیلنس کرنے اور پی ٹی آئی کے گرد گھیرا تنگ ہونے کا واضح اشارہ دیا تھا۔اسی دن ایک اور اہم تاریخی عدالتی فیصلہ بھی سامنے آیا جسے علیم خان کی خبر نے شاید Killکر دیا لیکن سماجی میمڈیا پر اُس نے جگہ بنا لی ۔ایک دوست لکھتے ہیںکہ ’’فیض آباد دھرنا پر سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ اور جسٹس فائز عیسیٰ کے الفاظ کو منظر سے ہٹائے جانے میں علیم خان کی گرفتاری سنہری حروف میں لکھی جائے گی۔‘‘ تحریک انصاف کے تمام حمایتی پہلے کی طرح اپنے لیڈر کی بے گناہی کے گیت گاتے رہے اور فیض آباد دھرنے پر آنے والے عدالتی فیصلے کو سائڈ کرتے رہے ۔ویسے سب سے زیادہ مذاق علیم خان کے پرائز بانڈ کا اڑتا رہا اور لوگ دعائیں دیتے رہے کہ کاش میرا بھی کوئی بانڈ نکل آئے ۔پہلے علیمہ خان سلائی مشین والی اور اب علیم خان بانڈ والا….علیم خان کا 2002 میں 190لاکھ کا پرائز بانڈ نکلا۔ عجب اتفاق ہے کہ جنرل مشرف کے ہر پولنگ ایجنٹ کی قسمت جاگ اٹھی تھی۔‘‘”کبھی پرائز بانڈ نکل آتا ہے اور کبھی باہر سے نامعلوم افراد کے ذریعے پیسہ آجاتا ہے ۔چاہے سعد رفیق ہوں یا علیم خان، ایسا بہانہ نہیں چلے گا !‘‘

حصہ