حیا کا کلچر عام کرنا۔۔۔

1801

قدسیہ ملک
حیاء کے فوائد:
روایات میں حیاء کے بتا سے فوائد ذکر ہوئے ہیں خواہ وہ دنیوی ہوں یا اخروی، فردی ہوں یا اجتماعی، نفسانی ہوں یا عملی، ان میں سے بعض درج ذیل ہیں۔
1۔خدا کی محبت:
2۔عفّت اور پاکدامنی:
3۔گناہوں سے پاک ہونا:
جو صفات حیاء سے پیدا ہوتے ہیں وہ یہ ہیں:نرمی، مہربانی، ظاہر اورمخفی دونوں صورتوں میں خدا کو نظر میں رکھنا، سلامتی، برائی سے دوری، خندہ روئی، جود وبخشش، لوگوں کے درمیان کامیابی اور نیک نامی، یہ ایسے فوائد ہیں جنیں عقلمند انسان حیا سے حاصل کرتا ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے شاگرد ”مفضل ” سے فرماتے ہیں: اے مفضل! اگرحیا ء نہ ہوتی تو انسان کبھی مہمان قبو ل نہیں کرتا، اپنے وعدہ کو وفا نہیں کرتا، لوگوں کی ضرورتوں کو پورا نہ کرتا، نیکیوں سے دور ہو تا اور برائیوں کا ارتکاب کرتا۔ بہت سے واجب اور لازم امور حیا کی وجہ سے انجام دئے جاتے ہیں، بہت سے لوگ اگرحیا نہ کرتے اور شرمسار نہ ہوتے تو والدین کے حقوق کی رعایت نہیں کرتے، کوئی صلہ رحمی نہ کرتا، کوئی امانت صحیح وسالم واپس نہیں کرتااور فحشاو منکر سے باز نہیں آتا۔
حیا سے پیداہونے والیصفات:نرمی، مہربانی، ظاہر اورمخفی دونوں صورتوں میں خدا کو نظر میں رکھنا، سلامتی، برائی سے دوری، خندہ روئی، جود وبخشش، لوگوں کے درمیان کامیابی اور نیک نامی، یہ ایسے فوائد ہیں جنہیں عقلمند انسان حیا سے حاصل کرتا ہے۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے شاگرد ”مفضل ” سے فرماتے ہیں: اگرحیا ء نہ ہوتی تو انسان کبھی مہمان قبو ل نہیں کرتا، اپنے وعدہ کو وفا نہیں کرتا، لوگوں کی ضرورتوں کو پورا نہ کرتا، نیکیوں سے دور ہو تا اور برائیوں کا ارتکاب کرتا۔ بہت سے واجب اور لازم امور حیا کی وجہ سے انجام دئے جاتے ہیں، بہت سے لوگ اگرحیا نہ کرتے اور شرمسار نہ ہوتے تو والدین کے حقوق کی رعایت نہیں کرتے، کوئی صلہ رحمی نہ کرتا، کوئی امانت صحیح وسالم واپس نہیں کرتااور فحشاو منکر سے باز نہیں آتا۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ حیاء اسلام کی شریعت ہے،جسے حیاء کی چادر ڈھانپ لے لوگوں پر اس کے عیب مخفی ہو جاتے ہیں، حیاء بُرے کاموں سے روک دیتی ہے،حیاء پاکدامنی کا سبب ہے،حیاء آنکھوں کو بند کرنا ہے،حیاء ایمان کا جزو ہے اور ایمان (کا مقام) بہشت میں ہے،بے حیائی ظلم و جفا کا حصہ اور ظلم و جفا (کامقام) جہنم ہے۔جس کے پاس حیاء نہیں اس کا کو ئی دین نہیں،جس کے پاس حیاء نہیں اس کا کو ئی ایمان نہیں،انسان میں حیاء کی کثرت،اس کے ایمان کی دلیل ہے،ہر دین کا ایک اخلاق ہے اور دین اسلام کا اخلاق حیاء ہے،حیاء نور ہے جس کی اصلیت صدر ایمان ہے جس کی تفسیر ہر موقع پر نرمی پر ہے توحید اور معرفت جسے جلا بخشتی ہے،حیاء ہر اچھی بات کا سبب ہے،حیاء صرف بہتری لاتی ہے،دنیا کے خوبصورت لباسوں سے حیاء و شرم (ایک بہترین لباس) ہے،حیاء مکمل کرم اور بہترین عادت ہے، حیاء تمام اچھائیوں کی کنجی ہے۔
حیا کے حوالے سے کچھ ابلاغ عامہ کے رہنماوؤں کی رائے بھی ہم نے معلوم کی جو آپکی خدمت میں پیش ہے۔
عربی زبان و ادب میں پی ایچ ڈی اور سعودی عرب میں رہائش پذیر مصنفہ ڈاکٹر میمونہ حمزہ سعودی عرب سے کہتی ہیں کہ حیا ایک اندرونی ا حساس ہے جو کچھ عیاں کرنے پر شرم محسوس کرتا ہے خواہ اسکے جسمانی محاسن ہو(کہ ان کے اظہار کی حدود قرآن وسنت میں واضح کر دی گئی ہیں) یا انسان سے صادر ہونے والے اعمال جو دوسروں کے سامنے آنے پر وہ حیا محسوس کرتا ہے۔ پسندیدہ صفت ہے اور کسی کو حیا سے روکنا نہیں چاہیے ایک انصاری کسیب کوحیاسے روک رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا اور کہا حیا تو خیر ہی لاتی ہے۔ جسم کے معاملے میں حیا برتی جائے تو وہ دوسروں کو فتنے سے بچاتی ہے اور معاشرے کو انتشار سے دور رکھتی ہے۔
بچوں کی کہانیوں کی مصنفہ فرحت نعیم کراچی سے کہتی ہیں حیا دل کا وہ پردہ ہے جو دراصل حجاب کے لئے سب سے پہلی ضرورت ہے۔ خواہشات نفسانی کو پورا کرنے میں رکاوٹ ہے۔ ہے جو ہر گناہ کو کرنے سے روکتی ہے۔ ہر برائی کی آڑہے۔ انسانیت کی فطرت ہے۔ حیوانیت کی نہیں جس میں جتنی حیا ہے وہ اتنا انسان ہے اور جتنی کم حیا ہے وہ اتنا حیوان ہے۔ اگر ایک طرف حیا انسانیت کا جوہر ہے تو دوسری طرف ایمان کی ایک شاخ کے اگر ہری بھری رہے تو ایمان سلامت رہے گا۔ مگر اگر یہ شاخ کٹ گئی تو ایمان بھی رخصت ہو جائے گا۔ اور اس حیا کا مستحق سب سے پہلے اللہ ہے۔ اسی سے حیا کرتے ہوئے ہر برائی سے دور رہنا چاہیے۔
ننکانہ صاحب سے تعلق رکھنے والی شاعرہ عنبرین راشد کہتی ہیں حیاکے معنی شرم کیہیں اسلام کی مخصوص اصطلاح میں ہر وہ کام جسے کرنے سے دل میں جھجک، شرمندگی یا بے قراری پیدا ہواس کا نام حیاہے۔ ایمان کی ایک شاخ ہے حیا مرد کی زینت اور عورت کا زیور ہے۔ جس چیز میں بھی ہو ا سے خوبصورت بنا دیتی ہے۔ اور جس میں حیا نہیں ہوتی اسے عیب دار کر دیتی ہے۔ قرآن میں جہاں بھی مومنین کا ذکر آیا ہے وہاں یہ ضرور آیا ہے حیا دار مرد اور حیا دار عورتیں۔ دنیا کی دوسرے مذاہب کے مقابلے میں اسلام کی یہ خاصیت ہے کہ اس میں حیا کو اسلام کا جز قرار دیا ہے۔
صدرحریم ادب پاکستان عالیہ شمیم کہتی ہیں حیا نصف ایمان ہے۔ حیا ہی لاتی ہے۔ حیا صرف آنکھ کا حجاب نہیں بلکہ دل میں بسنے والے خیال جذبات کے اظہار، زبان اور چال چلن کا نام بھی حیا ہے۔ فرمان نبوی ﷺ ہے جب تجھ میں حیا نہ ہو تو جو تیرا دل چاہے کر۔ حیا ایمان کا تقاضہ ہے اعمال میں نکھار پیدا کرتی ہے شرم و حیا عورت کا زیور ہے جس میں نسوانی وقار کا تحفظ مضمر ہے۔
مصنفہ نصرت یوسف کراچی سے کہتی ہیں ہیں انسان کے اس فطری رویے کا نام ہے آدم اور حوا کے ستر کھلنے سے نافرمانی رب کے احساس کے بعد پیدا ہوا۔ ستر پوشی سے تنسیخ گناہ کی طلب کے درمیان کا ہر رویہ حیا ہے چاہے وہ مستور ہو نہ ہو یاخطاپر شرم ساری۔ وہ خالق کیلئیہویاخالق کے فرمان پراس کی مخلوق کے لئے سراسر حیا ہے۔
ڈاکٹر اور ادبی شاعرہ و مصنفہ عزیزہ انجم کہتی ہیں حیا عورت اور مرد دونوں کو ظاہری اور باطنی حسن سے نوازتی ہے۔ اللہ نے انسانی فطرت میں کچھ معاملات اور رویوں میں حیا جھجک اجتناب رکھا ہے۔ عورت میں حیااس کی نسوانیت کو مکمل کرتی ہے۔ اس کی شخصیت میں وقار اور ملکوتی حسن پیدا کرتی ہے اللہ تعالی کے دیئے ہوئے اصول اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق حیا کی حدود کی پاسداری مومن اور عورتوں کے لئے باعث افتخار بھی ہے اور دنیا کی بھلائی اور آخرت کی نجات کا سبب بھی ہے۔
مشہور کالم نگار،شعبہ ابلاغ عامہ سے فارغ التحصیل مصنف شاہنواز فاروقی کہتے ہیں حیا کو ہمارے معاشرے میں صرف خواتین سے متعلق کرلیا گیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ حیا بہت وسیع تناظر رکھتی ہے۔ حیا ایمان کی کیفیات میں سے ایک کیفیت ہے۔ احکام شریعت کی پابندی سے متعلق ہیاللہ نے انسان کی فطرت میں جو خیر اور شر کا مادہ ودیعت کیا ہے انسان کو فطری طور پر یہ بات معلوم ہوتی ہے جائز ہے اورکیا چیز ناجائزہے یہی حیا ہے۔ حیا کے معنی اپنی فطرت کے اس تعین پر لبیک کہنا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے جس میں حیا نہیں ہے اس میں ایمان نہیں ہے۔حیا کا تصور صرف عورتوں پر منطبق نہیں ہوتا بلکہ مردوں پر بھی اتنا ہی منطبق ہوتا ہے۔ حیا کے بارے میں ہمیں حدود و قیود کا تعین ہونا چاہیے لیکن کچھ رشتے ایسے ہیں جن میں حیا کی حدود بدل جاتی ہیں مثلا میاں اور بیوی کا رشتہ، اور اسی حیا کی پابندی کرنا حیا کے تقاضے۔ ہمارے احیاء کا جو تصور ظاہری طور پر عورت کا حجاب لینا ہے مرد کا اسلامی لباس زیب تن کرنا تصور کہلاتا ہے جبکہ اپنی وسعت کے اعتبار سے ظاہری اور باطنی دونوں طور پر نافذ العمل ہوتی ہے۔ حیا اور دقیانوسیت میں فرق ہے۔ حیا ہم تصور رات خیالات پر اس طرح اثرانداز نہیں ہو رہی جس طرح ہونا چاہیے۔ ہمارے لئے ظاہری طور پر تو موجود ہے ہمارے معاشرے میں لیکن باطنی طور پر ہم اس تصور کو نہیں سمجھ پاتے۔ دین کو بسر کرناہی اہم ہے۔ مذہبیت اور قدامت پسندی دو الگ چیزیں ہیں۔علوم و فنون کے دائرے میں رکاوٹیں ڈالنا قطعی مذہبیت نہیں بلکہ قدامت پسندی ہے۔ کیونکہ اگر آپ علم حاصل نہیں کریں گے تو آپ انسانوں کو کیسے لے کر چلے گے۔ ہمارے معاشرے میں حیا کا تصور بہت محدود ہوتا جا رہا ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں ہر سطح پر مغربیت غالب آتی جا رہی ہے۔ ہماری زندگی کا کوئی گوشہ گوشہ مغربی تصورات سے پاک نہیں ہے ہمارے کلچر ہمارا معاشرہ ہماری معیشت کوئی چیز مغربیت سے پاک نہیں ہے۔ہماری تہذیب لفظ پر کھڑی ہے جبکہ مغربی تہذیب تصویر پر کھڑی ہوئی تہذیب ہے۔ ہمیں اپنی تہذیب پہچاننی ہے۔ دین کو اسکے اصل تناظر میں دیکھناہے۔اپنے رشتوں کے وقار کو پہچاننا ہے۔اپنی تہذیب و ثقافت کی تشیہر کرنی ہے۔جبھی ہم اپنے تصور حیا کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
گزشتہ اقوام کی تباہی ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ گناہ کے کام مل کر اجتماعی طورپرکیاکرتے تھے۔اللہ تعالیٰ کا ہر عذاب اگرچہ بڑا عذاب ہے لیکن سب سے سخت ترین عذاب قوم لوط پر آیا جو اجتماعی عذاب بھی تھا اور انفرادی عذاب بھی۔اس قوم کے جرائم میں ایک جرم یہ بھی تھا کہ وہ شرم و حیا سے عاری ہو چکی تھی اور بے حیائی کے کام بھری محفلوں میں سرعام کیا کرتے تھے۔قوم لوط کے لوگوں کی گفتگو ئیں،ان کی حرکات و سکنات، اشارات و کنایات اور ان کے محلے اور بازارسب کے سب عریانی و فحاشی اور برائی و بے حیائی کا پرچار کرتے تھے۔آج کی سیکولر تہذیب نے بھی انسانیت کوحیاکے لبادے سے ناآشنا کر دیا ہے اور انسان کوثقافت کی آڑ میں اپنے خالق و مالک سے دور کر کے توتباہی و بربادی کے دہانے پر لاکھڑاکیاہے۔بقول اقبال

ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صُحبتِ زاغ
حیا نہیں زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ

(جاری ہے)

حصہ