کشمیر کی آزادی تک۔۔۔۔

440

عرفان اللہ اسماعیل
پاؤں چشمے کے اندر پھیلائے وہ چشمے کے ُمنڈیر پر بیٹھا تھا۔وہ سترہ سال کا نہایت حسین اور صاف ستھرا لڑکا تھا۔امیر کبیر اور علاقے کے رئیس کا صاحبزادہ ہونے کی وجہ سے علاقے میں ہر کوئی اُس کا چاہنے والا تھا۔
آزاد کشمیر کے شہر مظفرآباد کا رہنے والا یہ لڑکا تمام اپنے ہم جنسوں سے مختلف تھا۔کم گواور انتہائی شریر لیکن اس کی شرارتیں بڑی خاموشی کے ساتھ ہوتی تھیں۔ اس لیے کسی کو بھی اس پر شک نہیں ہوتا تھا۔ ہرچیز کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت بھی اس لڑکے کے اندر موجود تھی۔
کچھ دنوں سے وہ سنجیدہ رہنے لگا تھا۔شرارتوں سے بھی باز آگیا تھا۔ ایک چیز نے اُسے بہت اندر تک الجھن میں مبتلا کیے رکھا تھا۔ اپنی اس الجھن کو ختم کرنے کے لیے گھر سے دور اس چشمے کے اندر پاؤں پھیلائے وہ اُس معاملے پرسوچ رہا تھا۔
بابا کیوں نہیں چھوڑتے مجھے؟؟؟ میری اپنی خواہش ہے کہ میں بھی جاؤں۔کون سا میں کسی کے کہنے پر جارہا ہوں۔ ابا میری اتنی سی خواہش بھی پوری کرکے نہیں دے رہا۔کیا کروں؟؟؟
اُنگلی دانتوں میں دبائے چشمے کے اندر چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو تیرتا دیکھ رہا تھا اورساتھ ساتھ سوچ بھی رہا تھا۔
…٭…
فرقان بھائی میں ان معاملات میں نہیں پڑنا چاہتا۔ اپنی سکون والی زندگی کو برباد نہیں کرنا چاہتا۔ بس آپ مجھے اس سے معذور جانے۔ رئیس غضنفر صاحب کشمیر ٹریننگ پروگرام کے تحت ہونے والے دس روزہ ٹریننگ میں اپنے بیٹے کو شریک کرنے سے انکار کررہا تھا۔
غضنفر بھائی! اگر ہم لوگ اپنے بچوں کو اس طرح کی ٹریننگ سیشنزسے دور رکھیں گے تو ہماری سرزمین کشمیر کی آزادی کے لیے کون آئے گا۔ ارضِ کشمیر میں بہنے والے خون کی، ماؤں اور بہنوں کی پامال ہوتی عزت کی، کون حفاظت کرنے آئے گا۔
غضنفر بھائی! کل ہی مقبوضہ کشمیر سے مَیں آیا ہوں۔ وہ منظر مجھے بالکل نہیں بھولتا کہ خون سے لت پت کشمیری نوجوان کو گاڑی کی بونٹ پر رسیوں میں جکڑ کر بٹھایا گیا اور اس کو شہر کے ہر گلی میں گھمایا گیا۔ اس کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا کہ کشمیری غلام قوم بن چکی ہے۔ اب وہ کبھی آزادی کے لیے اُٹھ بھی نہ سکیں گے۔
غضنفر بھائی! خدا کے لیے ارضِ کشمیر کی حالت زار پر رحم کھائیں، اپنے بیٹے کو اس ٹریننگ میں شریک کریں۔ فرقان رئیس غضنفر کو قائل کرنے کی کوشش میں مصروف تھا اور دوسری جانب رئیس صاحب کا بیٹا فہد گیسٹ روم کے باہر کھڑا چپکے سے سب کچھ سن رہا تھا۔
فرقان آپ کی باتیں بالکل درست ہے لیکن یہی آخری میرا بیٹا بچا ہے دو پہلے سے اس راستے میں جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ یہ مجھے بہت عزیز ہے اس کو اپنے سے جدا نہیں کرسکتا۔ فرقان بھائی میں مجبور ہوں۔ غضنفر صاحب کی آواز مدھم اور گلوگیر ہوتی جارہی تھی۔
غضنفر صاحب!! حوصلے بلند رکھیں۔ آپ تو بہت بہادر باپ ہیں۔ دو بیٹوں کو قربان کرنے والا شخص کبھی بزدل اور پست حوصلے والا ہو نہیں سکتا۔ اللہ آپ کے بیٹے کو سلامت رکھے۔ یہ کہہ کر فرقان بھائی اپنے صوفے سے اٹھے اور جانے کے لیے اجازت طلب کی۔
فرقان کے جاتے ہی فہد ابّا کے پاس آیا اور ٹریننگ میں شریک ہونے کی خواہش کا اظہار کیا۔
بیٹا ابھی آپ چھوٹے ہو۔ چھوڑو ان چیزوں کو۔ اپنی تعلیم پر توجہ دو۔ ابھی تو تمھارے امتحان بھی ہونے والے ہیں۔ جاو اُن کی تیاری کرو۔ غضنفر صاحب نے فہد کی خواہش کو رد کرتے ہوئے کہا۔
فہد کے جانے کے بعد بھی غضنفر صاحب کے دماغ میں ابھی تک اس کی باتیں گونج رہی تھیں۔ غضنفر صاحب کی کیفیت عجیب ہونے لگی تھی۔ ماضی کی یادیں دوبارہ سے اس کو جھنجھلا رہی تھیں۔ ماضی کی یاد ہمیشہ کی طرح آج بھی اس کے زخم تازہ کررہی تھی۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ماضی کے سفر پر روانہ ہوچکا تھا۔
دو سال پرانی زندگی فلم کی صورت میں اس کے دماغ کے اسکرین پر اُبھر رہی تھی کہ جب اس کا سب سے بڑا بیٹا عماد اس کی لائبریری میں داخل ہوتا ہے اور کہنا شروع کردیتا ہے۔
ابا!! مجھے آپ سے ایک اہم بات کہنا ہے۔ عماد نے آتے ہی اپنی عادت پر عمل کرتے ہوئے بغیر کسی تمہید کے بولنا شروع کردیا۔
غضنفر صاحب نے اپنی عینک اور کتاب سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اپنی توجہ اس کی طرف کی۔
ابا جی!! ہمارے شہر سے دور ایک گاؤں میں دس روزہ کشمیر ٹریننگ سیش کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ مجھے اور حیات کو اس میں شرکت کے لیے آپ سے اجازت چاہیے۔
ٹھیک ہے بیٹا لیکن جاتے ہوئے مجھ سے ضرور ملنا۔ غضنفر صاحب نے مستقبل پر نظر رکھے بغیر ان کو شرکت کی اجازت دے دی۔ غضنفر صاحب کا خیال تھا کہ ایک عمومی سی ٹریننگ ہوگی اور بس۔۔۔ اُسے معلوم نہیں تھا کہ عماد اور اس کے ساتھی دس دن کے بعد کشمیر میں جہاد پہ جانے کی بات کریں گے۔
دسویں دن غضنفر صاحب باہر لان میں گلاب کے ملائم پھولوں پر ہاتھ پھیرتے ا ن کا لمس محسوس کررہے تھے کہ یکایک دروازے کو اندر کی طرف دھکیلتے ہوئے اُس کے دونوں جوان بیٹے گھر کے اندر داخل ہوئے۔ دس دن کی ٹریننگ مکمل کرکے دونوں جوان بیٹے آئے تھے۔ غضنفر صاحب کی خوشی قابلِ دید تھی لیکن اس کی خوشی اس وقت ماند پڑگئی کہ جب دونوں بیٹوں نے کشمیر میں جاری انڈین فوج کے خلاف جہاد میں حصہ لینے کی بات کی اور شہید ہونے کی خواہش کی۔
بیٹا میرے اندر اتنا حوصلہ نہیں ہے۔ میں تم دونوں کو اپنی زندگی میں شہید ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ تم دونوں میرا سہارا ہو۔
غضنفر صاحب نے برجستہ جواب دیا۔
ابّا آپ کے لیے کتنی خوش قسمتی کی بات ہوگی کہ جب آپ کے بیٹے ارضِ کشمیر کی آزادی کے لیے اپنی جانیں نچھاور کردیں گے اور اس راہ میں شہید ہوجائیں گے۔ ابو آپ نے سہارے کی بات کی۔ فہد ہے نا!! جو ابھی ماشاء اللہ پندرہ سال کا ہے۔ آپ کا سہارا بنے گا۔
دونوں بیٹوں کی خواہش اور بے حد اصرار کے بعد آخرکار غضنفر صاحب نے اُن کو اجازت دے دی۔
اگلے دن بہت ہی رقت آمیز منظر تھا کہ دونوں جوان بیٹے جہادِ کشمیر کے لیے روانہ ہوتے وقت ابّا جی سے رخصت لے رہے تھے۔ پچاس سالہ غضنفر صاحب اپنی آنکھوں کے اندر آنے والی نمی کو چھپانے کی ناکام کوشش میں مصروف تھے۔
…٭…
دونوں جوان بیٹے کشمیر روانہ ہوچکے تھے۔ اب وہ اور اس کا پندرہ سالہ بیٹا فہد اُن دونوں کی باتیں کرتے اور مشن میں کامیابی کے بعد زندہ لوٹ آنے کی دعا کرتے۔
دن یونہی گزرتے رہے۔ غضنفر صاحب کے انتظار کا پیمانہ لبریز ہوتا رہا کہ ایک دن عشاء کی نماز پڑھ کے وہ واپس گھر کی جانب آرہے تھے کہ ان کو اطلاع ملی کہ اُن کے دونوں بیٹے گھر لوٹ آئے ہیں۔ یہ سن کے غضنفر صاحب کا چہرہ خوشی سے دمکنے لگا اور وہ جلد از جلد گھر پہنچنے کے لیے تیز تیز چلنے لگا۔
گھر کے اندر داخل ہوتے ہی اُنہوں نے سوچا تھا کہ وہ دونوں دوڑتے ہوئے آئیں گے اور ابّا سے لپٹ جائیں گے لیکن اندر عجیب سی خاموشی تھی اور اُس وقت تو ان کے پاوں کے نیچے سے زمین سرک گئی کہ جب اُنہوں نے سفید چادر میں لپٹی دو لاشیں برآمدے میں پڑی دیکھیں۔
اُن کی آنکھوں کے گرد اندھیرا چھانے لگا اور آہستہ آہستہ وہ زمین کی جانب آنے لگے۔ اس سے پہلے کہ وہ فرش پہ گرتے دو بازوؤں نے اُن کو پکڑ لیا اور اُن کے کانوں میں ایک آواز آئی ”غضنفر صاحب مبارک ہو آپ کے دونوں بیٹے شہید ہوگئے ہیں”۔
…٭…
ماضی کے خیالات میں گُم اچانک غضنفر صاحب کو احساس ہوا کہ رات گہری ہوتی جارہی ہے اور فرقان صاحب کو یہاں سے گئے تقریبا دو گھنٹے ہوچکے ہیں۔ دماغ میں چلنے والی اسکرین کو بند کرتے ہوئے وہ اپنے بیڈ روم کی طرف چلنے لگے۔
بستر پر لیٹتے ہی ہچکیوں کے ساتھ رونے کی آواز نے اُنہیں پریشان کردیا۔ فوراً باہر نکلے تو حیرت سے اُن کا منہ کھلا رہ گیا۔ فہد مصلے ٰ پر بیٹا رُورُو کے اپنے رب سے التجا کررہا تھا۔
یااللہ میرے ابّا کے دل میں یہ بات ڈال دے کہ وہ مجھے اس ٹریننگ میں شرکت کی اجازت دیں۔ یا اللہ میرے لیے آسانی پیدا فرمایا۔
فہد اپنے اردگرد سے بے خبر دعا میں مصروف تھا اور دوسری جانب غضنفر صاحب اپنے آپ پر قابو نہ پاتے ہوئے اُس سے جا لپٹے۔ فہد گھبرا گیا کہ یہ اچانک کیا ہوا۔
بیٹا جاؤ!! جس طرح پہلے میں نے اپنے دو بیٹے اللہ کی راہ میں اور کشمیر کی آزادی کے لیے قربان کردیے ہیں۔ تمھیں بھی اجازت دیتا ہوں اور اللہ کی راہ میں شہادت کی تمھارے لیے دعا کرتا ہوں۔
فہد کی خواہش کو اُس کے ابّا نے آخرکار منظور کرلیا۔ فہد کی پریشانی بھی دور ہوگئی۔
غضنفر صاحب نے فہد کو اجازت دے کر یہ بات پوری دنیا پر عیاں کردی کہ ”کشمیر کی آزادی تک، جنگ رہے گی جنگ رہے گی”۔

حصہ