آخری فتح

966

سیدہ امبرین عالم
۔10 دسمبر 2018ء… تھرڈ ٹیمپل کا اسرائیل نے بیت المقدس میں سنگِ بنیاد رکھ دیا۔ آگ جلا کر تقریبات کی گئیں اور مذہبی رسومات ادا کی گئیں۔ تمام یہودی ساری دنیا میں خوشیاں منا رہے تھے اور امتِ مسلمہ سو رہی تھی، یا پھر دعائیں مانگنے میں مصروف تھی۔
آمنہ یہ سب مناظر ٹی وی پر دیکھ رہی تھی۔ وہ دہلی کے ایک نواحی علاقے میں رہتی تھی، آج اس کا نکاح تھا… عامر آمنہ کا چچازاد تھا۔ آمنہ سے کم پڑھا لکھا سہی، مگر سمجھ دار اور دین دار تھا۔ رات کے ایک بجے وہ کمرے میں داخل ہوا، خوشی اس کے چہرے سے ہی ظاہر تھی، وہ آمنہ کے پاس آبیٹھا اوراس کا گھونگھٹ اٹھایا۔ خاصی دیر وہ لوگ اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے، پھر عامر نے پوچھا ’’گھومنے کے لیے کہاں چلو گی آمنہ! میں نے شادی کے لیے ایک ماہ کی چھٹی لے رکھی ہے، کہیں انڈیا سے باہر چلیں گے۔‘‘
’’اسرائیل…‘‘ آمنہ نے جواب دیا۔
عامر حیران رہ گیا۔ ’’اسرائیل؟ مگر کیوں…؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’میں جاننا چاہتی ہوں کہ ان کی کامیابیوں کا راز کیا ہے، میں ان کو قریب سے دیکھنا چاہتی ہوں‘‘۔ آمنہ نے کہا۔
’’ٹھیک ہے میں انتظام کرتا ہوں، میری بھی خواہش ہے اسرائیلیوں کے راز سمجھنے کی‘‘۔ عامر راضی ہوگیا۔
…٭…
17 دسمبر 2018ء کو آمنہ اور عامر تل ابیب کے ائرپورٹ پر اترے، وہیں کے ایک گائیڈ نے انہیں تل ابیب کے ایک ہوٹل پہنچایا۔ ہوٹل خاصا وسیع و عریض تھا اور جگہ جگہ ہندوستانی موجود تھے۔ آمنہ کو ہندوستانی اس تعداد میں اسرائیل میں دیکھ کر حیرت ہوئی۔ وہ شام کو سیر کے لیے نکلے۔ آمنہ نے خاص طور پر ہندو لڑکیوں والا حلیہ بنالیا تاکہ وہ اسکارف وغیرہ کی وجہ سے مشکوک نہ نظر آئے اور اسرائیلی اس سے بات کرتے ہوئے نہ جھجکیں، اور وہ زیادہ تر معلومات حاصل کرسکے۔ اسرائیل میں گھومتے ہوئے ایک بات اور حیران کن تھی، ہر اسرائیلی نے گن رکھی ہوئی تھی۔ چاہے لڑکیاں ہوں، بوڑھے یا دس سال سے بڑی عمر کے بچے… سب ہتھیار بند تھے اور ریسٹورنٹ، اسکول، بازار ہر جگہ آجا رہے تھے۔ اس کے علاوہ ایک اور بات مشاہدے کے لائق تھی، پورے اسرائیل میں بڑی تعداد میں غرقد کے درخت لگے ہوئے تھے، یہاں تک کہ عمارتوں کے اندر بھی غرقد کی تصویریں لگی ہوئی تھیں، لوگوں کے کپڑوں تک پر غرقد کی تصویریں تھیں۔ مذہبی لحاظ سے بھی یہاں یورپی اور امریکی طرزعمل نہیں تھا، بلکہ سب چھوٹے بڑے پابندی سے عبادت گاہوں کو جاتے تھے۔
یہ 19 دسمبر کی ایک سرد صبح تھی، عامر سو رہا تھا، مگر آمنہ کو فجر کے بعد نیند ہی نہیں آئی۔ آخر 7 بجے تک وہ بھوک سے بے حال ہوگئی اور اس نے اکیلے ہی ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں جانے کا فیصلہ کرلیا۔ اسرائیلی جیسے بھی ہوں مگر ان کے روایتی کھانے انتہائی مزیدار تھے اور عربی کھانوں سے ملتے جلتے تھے۔ آمنہ جب ڈائننگ ہال میں پہنچی تو ایک میز پر چند بوڑھے اسرائیلی طرز کی چھوٹی سی ٹوپی پہنے بیٹھے تھے، اور ایک میز پر اکیلی لڑکی بیٹھی ہوئی قہوہ پی رہی تھی، باقی پورا ہال خالی تھا۔ آمنہ اس لڑکی کے پاس گئی اور انگریزی میں بولی ’’کیا میں آپ کے پاس بیٹھ سکتی ہوں؟ میں ایک انڈین ہوں، آپ میرے ساتھ ناشتا کریں گی تو مجھے خوشی ہوگی۔‘‘
لڑکی نے آمادگی ظاہر کی تو آمنہ نے بہت سارا ناشتا منگوا لیا جس میں دودھ، انڈے، آلو کے ہیش برائون، Cheese Sticks, سمیت چائے، کافی وغیرہ بھی شامل تھی۔ اسرائیلی لڑکی خاصی خوش اخلاق تھی، اس نے پہلے ہی کہہ دیا کہ بل میں دوں گی، ہم مہمانوں کی تواضع کرنا جانتے ہیں۔ اس لڑکی کا نام سارہ تھا، وہ امریکا میں اپنی فیملی کے ساتھ رہتی تھی اور صرف دو ماہ پہلے یہ لوگ اسرائیل شفٹ ہوئے تھے، اس کے والد ایک بینکار تھے، والدہ ہارٹ اسپیشلسٹ تھیں، اور سارہ فارمیسی کی تعلیم حاصل کررہی تھی، اس کی دو بڑی بہنیں بھی ڈاکٹر تھیں اور شادی شدہ تھیں، وہ بھی اپنی فیملیز کے ساتھ اسرائیل میں رہائش اختیار کرچکی تھیں۔
’’سارہ! یہ اسرائیل میں سب لوگ ہتھیار کیوں لے کر چلتے ہیں، حتیٰ کہ اسپتال کے اندر ڈاکٹرز اور نرسیں تک اپنی بیلٹ سے ایک چھوٹی پستول باندھے رہتے ہیں؟‘‘ آمنہ نے پوچھا۔
سارہ مسکرانے لگی ’’یہ ہم نے آپ کے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے سیکھا ہے، انہوں نے کبھی امت کے ایک حصے کو فوج کے طور پر مختص نہیں کیا بلکہ تمام امت جنگ کے وقت فوج بن جاتی تھی، ہم اسرائیلیوں نے بھی محمدؐ کی اس حکمت عملی کو اپنایا۔ اسرائیل کی 80 لاکھ کی آبادی میں سے صرف ڈیڑھ لاکھ مستقل اور روایتی فوج ہے، لیکن 70 لاکھ آبادی ہر وقت جنگ کے لیے تیار ہے۔ اسرائیل کے ہر شہری کو تین سال کی فوجی ٹریننگ لینی پڑتی ہے جس میں ہر قسم کے ہتھیار چلانا، کمانڈو ایکشن، جنگی حکمت عملی، منصوبہ بندی اور دیگر ملکوں کے حالات سکھائے جاتے ہیں، اس لیے جب بھی کوئی جنگ ہو، ہماری 70 لاکھ فوج فراہم ہوتی ہے، چاہے عورت چاہے مرد‘‘۔ اس نے آمنہ کو بتایا۔
’’ٹھیک…‘‘ آمنہ نے سر ہلایا ’’مگر ہر وقت ہتھیار کیوں؟ ہر وقت تو جنگ نہیں ہورہی‘‘۔ اس نے پوچھا۔
’’اگر ایک شخص مر رہا ہو تو اسے کس چیز کی ضرورت ہوگی تمہارے خیال میں؟‘‘ سارہ نے پوچھا۔
’’پانی، خوراک، دوا، اپنے عزیز آس پاس ہوں تاکہ آخری ملاقات ہوجائے‘‘۔ آمنہ نے جواب دیا۔
’’صحیح…‘‘ سارہ نے تائید کی۔ ’’لیکن جب مسلمانوں کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) انتقال فرما رہے تھے تو ان کے پاس خوراک کا ایک دانہ نہ تھا، وہ فاقے کی حالت میں تھے، ان کی بیگم عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) بھی فاقے کی حالت میں تھیں، لیکن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بستر کے پیچھے جو دیوار تھی اُس پر اُس وقت کے جدید ترین ہتھیار تیار حالت میں لٹکے ہوئے تھے اور ایک فوج گھر کے باہر تیار کی جارہی تھی جسے حملے کے لیے روانہ ہونا تھا، جب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) انتقال کرگئے تو بھی ابوبکرؓ نے فوج روانہ کی اور اسے محمدؐ کی آخری رسومات میں بھی شرکت کا موقع نہ مل سکا‘‘۔ اُس نے آمنہ کو آمنہ کے نبیؐ کی سنت بتائی۔
’’آپ لوگ میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر اتنی سختی سے عمل کیوں کرتے ہو؟‘‘ آمنہ نے سارہ سے پوچھا۔
’’کیوںکہ دنیا میں کامیابی حاصل کرنا ہے تو اسی شخص کی تعلیمات میں وہ گُر موجود ہے جو ہمیں تمام دنیا کے اوپر حکومت کرنے کے قابل بنا سکتا ہے، اور کوئی طریقہ نہیں‘‘۔ سارہ نے کہا۔
آمنہ مسکرا دی ’’یعنی آپ لوگ مانتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں؟‘‘ اس نے کہا۔
’’بالکل مانتے ہیں، بس اقرار نہیں کرتے، کیونکہ ہم اپنے مسیح موعود کا انتظار کررہے ہیں، ہم شیطانی نظام لانا چاہتے ہیں۔ محمدؐ اللہ کا نظام لانا چاہتے تھے۔ ہماری منزل جدا جدا ہے مگر دنیاوی کامیابی کا طریقہ وہی ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اختیار کیا۔ آپ کی تو منزل بھی وہی ہے جو محمدؐ کی تھی تو پھر آپ لوگ محمدؐ کے طریقے اور تعلیمات اختیار کیوں نہیں کرتے؟ انگریزوں کی نقل کیوں کرتے ہو؟‘‘ سارہ نے پوچھا۔
آمنہ شرمندہ سی ہوکر رہ گئی ’’کیوں کہ ہم اتنے عقل مند نہیں جتنے آپ لوگ ہیں… اچھا یہ بتائو کہ یہ غرقد کے درخت کا کیا معاملہ ہے، ہر طرف غرقد کے درخت…؟‘‘ اس نے پوچھا۔
سارہ نے قہقہہ لگایا ’’یہ بھی آپ کے ہی محمدؐ کی پیش گوئی ہے، انہوں نے فرمایا تھا کہ بڑی جنگ ہرمجدون میں، ہر یہودی کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مارا جائے گا، صرف غرقد کے درخت ہی یہودیوں کو اللہ کے عذاب سے پناہ دیں گے، اس لیے ہم اس کی کاشت جنگی بنیادوں پر کررہے ہیں‘‘۔ اس نے بتایا۔
آمنہ نے غور سے سارہ کی بات سنی ’’مجھے کچھ اور بتائو، غرقد کے بارے میں‘‘۔ اس نے کہا۔
’’غرقد کو انگریزی میں Boxthorn اور یونانی میں Lycium کہتے ہیں، یہ درخت زیادہ سے زیادہ چھ فٹ اونچا ہوتا ہے، یہ عرب میں بھی بہت ہوتا تھا، مگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ تمام درخت کٹوا دیے اور اس کی کاشت کو ممنوع قرار دیا، اسے عربی میں ’’عسویج‘‘ کہتے ہیں۔ اسرائیل میں اس درخت کی زیادہ سے زیادہ کاشت کے لیے فنڈز اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ اسرائیل کے علاوہ بھارت اور افغانستان وہ دو ملک ہیں جو غرقد سے بہت عقیدت رکھتے ہیں اور بڑی تعداد میں اس کی کاشت کررہے ہیں۔ اسرائیل میں 2010ء تک غرقد کے 24 کروڑ درخت لگائے جا چکے، مہاراشٹر میں غرقد کے 5 کروڑ درخت بجرنگ دَل صرف 2013ء تک لگا چکی تھی، پورے بھارت میں غرقد اس قدر لگ چکا ہے کہ شمار ممکن نہیں‘‘۔ سارہ نے آمنہ کی معلومات میں اضافہ کیا۔
’’یہودیوں اور ہندوئوں میں اس قدر ہم آہنگی! سمجھ سے بالاتر ہے‘‘۔ آمنہ نے حیرت سے کہا۔
’’یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ ہندو جو انڈیا میں رہتے ہیں وہ بنیادی طور پر اسرائیلی ہی ہیں، اور صدیوں پہلے یہودیوں سے علیحدہ ہوکر بھارت میں سکونت اختیار کی، تاہم جیسے یہودی کبھی گائے کی پوجا کرتے تھے، ہندو ابھی بھی گائے کی پوجا کرتے ہیں، مزاج بھی یکساں ہیں، مسلم دشمنی بھی ایک جیسی اور مقاصد بھی ہم آہنگ… لہٰذا گزشتہ برسوں میں بھارت اور اسرائیل خاصے قریب آئے ہیں، ہندوئوں نے بھی خود کو اسرائیل کا گمشدہ حصہ تسلیم کرلیا ہے اور آئندہ کے لیے سپر پاور بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اسرائیل اب 2023ء کے بعد امریکا کا کردار انڈیا کو دینا چاہتا ہے‘‘۔ سارہ نے ہندوئوں اور یہودیوں کی آپسی محبت کے راز کھولے۔
آمنہ نے اپنا فون آن کررکھا تھا اور سارہ کا ایک ایک لفظ ریکارڈ کررہی تھی۔ ’’تھرڈ ٹیمپل میں ایک پتھر لائے جانے کا بھی تذکرہ ہورہا ہے، اس پتھر کا کیا قصہ ہے؟‘‘ اس نے سارہ سے پوچھا۔
سارہ نے سنجیدگی سے سر جھکایا اور کافی کی چسکی لی۔ ’’یہ مقدس پتھر وہ ہے جس پر بٹھاکر حضرت دائود ؑ کی تاج پوشی کی گئی تھی، اسے تختِ دائود یا Throne of David کہا جاتا ہے، جب ہیکلِ سلیمانی تعمیر کیا گیا تو دیگر مقدس اشیا کے ساتھ ساتھ اسے بھی ہیکل سلیمانی میں لگا دیا گیا، 70 عیسوی میں جب رومیوں نے فلسطین پر حملہ کیا تو لاکھوں یہودیوں کو قتل کیا اور Titus یہ پتھر بھی روم میں لگانے کے لیے لے گیا، روم کے بعد یہ پتھر آئرلینڈ، پھر اسکاٹ لینڈ لے جایا گیا، ان دونوں جگہ اس پتھر کو تاج پوشی کے لیے استعمال کیا گیا، پھر انگلینڈ میں ملکہ کی تاج پوشی کے لیے استعمال ہونے لگا۔ آج بھی یہ ویسٹ منسٹر، برطانوی پارلیمنٹ کے ساتھ موجود چرچ میں ہے، اب جلد ہی اسے تھرڈ ٹیمپل میں منتقل کردیا جائے گا، کیوں کہ ہمارا Christ جسے آپ دجال کہتے ہو، آنے والا ہے اور اس کی تاج پوشی اسی پتھر پر ہوگی‘‘۔ اس نے سب کچھ بتا دیا۔
’’واہ یار سارہ! تم یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں مسلم ہوں، اتنی وضاحت سے سب کچھ بتا رہی ہو۔ میرا خیال تھا کہ میں جس کو بتائوں گی کہ میں مسلم ہوں وہ مجھ سے ہچکچائے گا‘‘۔ آمنہ نے کہا۔
’’سارہ نے زوردار قہقہہ لگایا ’’تم مسلم ہو تو ہمارا کیا بگاڑ لو گی! تم لوگ کچھ نہیں کرسکتے۔ ہم نے تو گریٹر اسرائیل کا نقشہ بھی ایک صدی پہلے چھاپ دیا تھا، جس میں تمہارا مدینہ بھی شامل تھا، تم نے کیا کرلیا؟ ہم نے امریکی سفارت خانہ بیت المقدس میں بناکر یہ ثابت کردیا کہ بیت المقدس اسرائیل کا دارالحکومت ہے، تم نے مسجدوں میں دعائیں کرنے کے سوا کیا کرلیا؟‘‘ اس نے تحقیر سے کہا۔
’’ہم نے پاکستان بنا لیا اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا لیا، اور بھی بہت کچھ ہوگا‘‘۔ آمنہ نے کہا۔
’’یہ تمہارا خیال ہے، کیا تمہیں معلوم ہے کہ پاکستان کے کسی اخبار اور کسی نیوز چینل نے تھرڈ ٹیمپل کی بنیاد پڑنے کی خبر نہیں چلائی، ان کا سارا میڈیا ہمارے ہاتھ میں ہے، وہی خبریں چلاتے ہیں جو ہم چاہتے ہیں، قوم کی اسی طرز پر تربیت کررہے ہیں جس طرح ہم چاہتے ہیں، ان کے بچوں کے ہیروز خالد بن ولید، ٹیپو سلطان اور طارق بن زیاد نہیں ہیں، ان بچوں کے ہیروز میسی، ٹام کروز اور بل گیٹس ہیں، ان میں سے کوئی محمد بن قاسم بن کر تم ہندوستانی مسلمانوں کی مدد کو نہیں آئے گا، پاکستانی تو اپنے گھٹیا سیاست دانوں کے پیچھے لگ کر ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں، ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں‘‘۔ سارہ نے کڑوی حقیقت بیان کی۔
آمنہ نے انتہائی نفرت سے سارہ کو دیکھا ’’ہوش میں آئو! بھول گئیں 1967ء میں پاکستان نے اسرائیل کا کیا حشر کیا تھا، کیا بھول گئیں کہ امریکا کو بے وقوف بناکر کیسے ضیاء الحق نے امریکا کے خرچے پر اپنے دشمن رشیا کے قدم پاکستان میں داخل ہونے سے روکے تھے، کیسے اُس نے تم لوگوں کو اندھا بنا کر ایٹم بم تیار کیا تھا، تم تو ایک ISI کا مقابلہ نہیں کرسکتے‘‘۔ اس نے کھری کھری سنا دی۔
سارہ نے ایک بار پھر زوردار قہقہہ لگایا ’’میں نہیں بھولی مگر تم بھول گئیں کہ ہم نے ضیاء الحق کا کیا حشر کیا تھا، آج پورے پاکستان میں اس کا کوئی نام لیوا نہیں، اس کو نفرت کا نشان بنادیا گیا۔ آج کے تمہارے لیڈر ہمارے اشاروں پر کام کرتے ہیں، شراب کو حلال قرار دیا جارہا ہے، یہودیوں کو اسمبلی کے فلور پر اللہ کی محبوب قوم قرار دیا جارہا ہے‘‘۔ اس نے کہا۔
’’ٹھیک ہے…‘‘ آمنہ نے اپنا چہرہ ٹشو سے صاف کیا ’’ہمارے پاس ابھی مخلص اور باتدبیر قیادت نہیں ہے، لیکن جب تم میرے رسولؐ کی احادیث پر اتنا یقین رکھتے ہو تو ذرا حضرت مہدیؑ، حضرت عیسیٰؑ کی واپسی، غزوۂ ہند اور دنیا پر اسلام کے غلبے کے بارے میں بھی احادیث پڑھ لینا۔ بے شک ہم امت کے طور پر عضوِ معطل سے بڑھ کر کچھ نہیں، مگر ہمارے بزرگوں نے پیشن گوئیاں کر رکھی ہیں کہ ہمارا پاکستان مدینہ ثانی ہے، اسلام کا قلعہ ہے، وہاں سے ایک نہیں ہزاروں محمد بن قاسم اٹھیں گے، انڈیا کو سپر پاور بنانے کی خواہش رکھنے والے روتے رہ جائیںگے، میرا پاکستان سپر پاور بھی بنے گا اور دنیا میں اسلام بھی نافذ ہوگا۔ آج کی بڑھی ہوئی بے راہ روی، شمع کے بجھنے سے پہلے کی بھڑک ہے۔ بے راہ روی ختم ہوگی۔ محمدؐ ہمارے رسول ہیں، ان کی تعلیم کو تم جتنا چاہو اپنالو، مگر ان تعلیمات کا اصل چہرہ تمہیں ایک دن ہم ہی میں نظر آئے گا۔ جو ہم سمجھ سکتے ہیں، وہ تم نہیں سمجھ سکتے، کیوں کہ ہم صرف بہک گئے ہیں لیکن ہیں رب کے ہی عاشق، اور تم شیطان کے پیرو ہو‘‘۔ اس نے بلند آواز میں کہا اور ناشتے کے بل سے ڈبل رقم میز پر پھینک کر چلی گئی۔ سارہ ہکا بکا دیکھتی رہ گئی۔ ’’حضرت مہدیؑ اور غزوۂ ہند کے متعلق احادیث پڑھنی پڑیں گی‘‘۔ اس نے سوچا۔ ’’مگر آمنہ تو ہندوستانی ہے، اور یہ ’’میرا پاکستان‘‘ کیوں کہہ رہی تھی؟‘‘ وہ سوچتی ہی رہ گئی۔

حصہ