ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کا 37 واں ’’یک جہتی ظہرانہ‘‘

226

ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی ہمارے عہد کے بہت اہم قلم کار ہیں‘ طنز و مزاح کے حوالے سے اردو ادب میں ممتاز مقام کے حامل ہیں ان کی کئی نثری کتابیں اردو زبان و ادب میں شامل ہیں۔ متعدد اخبارات میں کالم نویسی کر رہے ہیں اور کتابوں پر تبصرے بھی ان کے مشاغل میں شامل ہیں۔ بہت ملنسار انسان ہیں سوشل ویلفیئر کی دنیا میں بھی ان کے نام کا ڈنکا بج رہا ہے گورنمنٹ کے اہم ڈپارٹمنٹ سے بحیثیت ڈائریکٹر ریٹائر ہوئے ہیں کراچی میں واقع اپنی رہائش گاہ پر گزشتہ 36 برسوں سے بڑے پائے کی دعوت کا اہتمام کرتے ہیں یہ سلسلہ اس حوالے سے بھی قابل ذکر ہے کہ اس طرح شعر و ادب کی خدمت ہو رہی ہے۔ 20 جنوری 2019ء بروز اتوار ٹھیک 12 بجے دن سکندر ہائوس ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی میں ان کی زیر نگرانی 37 ویں یک جہتی ظہرانہ کا آغاز ہوا۔ اس پروگرام کے تین حصے تھے (1) مشاعرہ (2) تقریبِ اعزاز (3) یکجہتی مذاکرہ۔ مشاعرے کی صدارت محمود شام نے کی۔ شفیق زادہ مہمان خصوصی تھے۔ ذوالقرنین جمیل مہمان اعزازی تھے جب کہ پروگرام کے تمام ادوار کی نظامت ڈاکٹر نزہت عباسی نے کی۔ مشاعرے میں محمود شام‘ انور شعور‘ ظفر محمد خاں ظفر‘ پروفیسر سحر انصاری‘ ڈاکٹر فاطمہ حسن‘ نسیم نازش‘ رضیہ سبحان‘ اختر سعیدی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار احمد‘ نجیب عمر‘ شاعر علی شاعر‘ ڈاکٹر محمد اعظم‘ ڈاکٹر سراج‘ قادر بخش سومرو اور محمد سلیم قریشی نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ حسن ضیا نے تلاوت کلام مجید کا شرف حاصل کیا۔ کینیڈا سے تشریف لائے ہوئے شبیر احمد بھٹی نے اپنی نعت پیش کی۔ پروگرام کے دوسرے حصے میں عالمی اردو تنظیم کینیڈا کے صدر بشیر احمد بھٹی نے ادبی ایوارڈ برائے 2018 (ایک لاکھ روپے نقد اور سندِ توصیف) ممتاز محقق‘ ادیب‘ کالم نویس اور ماہر تعلیم ڈاکٹر یونس حسنی کی خدمت میں پیش کیا۔ مشاعرے کے صدر محمود شام نے کہا کہ ڈاکٹر معین قریشی ہر سال یہ پروگرام ترتیب دے رہے ہیں جس میں زندگی کے مختلف شعبوں کی نمائندگی ہو رہی ہے۔ یہ ایک قابلِ ستائش اقدام ہے یہ گیٹ ٹو گیدر کے علاوہ ادب کی خدمت ہے آج ہر شاعر نے بہت اچھا کلام پیش کیا۔ دبئی سے تشریف لائے ہوئے شفیق زادہ نے کہا کہ ادبی تقریبات سے ہماری ذہنی نشوونما ہوتی ہے میں معین قریشی کا مشکور ہوں کہ انہوں نے آج مجھے یہ موقع فراہم کیا کہ اس پروگرام کا مہمان خصوصی ہوں۔ انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی کے صدر ذوالقرنین جمیل نے کہا کہ آج کا پروگرام نہایت منظم اور پُروقار ہے اس قسم کے پروگرام ’’خزاں رت میں موسم بہار ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا ادارہ اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے لیے مصروف عمل ہے انہوں نے سابق صدر پاکستان ممنون حسین کا شکریہ ادا کیا کہ جنہوں نے اردو باغ کا سنگِ بنیاد رکھا اور انجمن کی مدد فرمائی انہوں نے اس موقع پر اعلان کیا کہ 9 فروری 2019 کو ڈاکٹر معین قریشی کی صدارت میں ایک پروگرام ترتیب دیا جارہا ہے۔ تقریب کے تیسرے حصے میں ’’یکجہتی مذاکرے‘‘ کا آغاز ہوا جس کی مجلس صدارت میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین قریشی‘ سردار یاسین ملک‘ میاں زاہد حسین اور عبدالحسیب خان شامل تھے۔ معین الدین حیدر نے کہا کہ شعر و ادب کو زندہ رکھنے کا اعزاز شعرا کے سر ہے کہ جنہوں نے ہر دور میں معاشرتی مسائل اجاگر کیے اور تحریک پاکستان میں اپنے اشعار کے ذریعے یکجہتی کی فضا بحال کی آج ہم آزاد ملک میں زندگی بسر کررہے ہیں ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہم پر قومی و اسلامی روایات پر عمل کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم متحد ہوکر پاکستان کی بقا کے لیے کام کریں‘ ہمارے دشمن ہمیں مٹانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے موجودہ معاشی مسائل عارضی ہیں اور ہمارا مستقبل تابناک ہے۔ تھر میں کوئلے کے وسیع ذخائر‘ ریکوڈک کے معدنی وسائل‘ سمندر میں تیل کی تلاش اور سی پیک کے ذریعے خوش حالی متوقع ہے۔ عبدالحسیب خان نے کہا کہ ہم آپس میں دست و گریباں ہیں جس سے ہمارے دشمن فائدہ اٹھا رہے ہیں‘ ہمیں صحیح سمت کا تعین کرکے آگے بڑھنا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے قطعات بھی سنائے اور ڈاکٹر معین قریشی سے کہا کہ وہ انہیں بھی آئندہ پروگرام میں شعر سنانے کا موقع فراہم کریں۔ میاں زاہد نے کہا کہ یک جہتی ہمارا قومی مسئلہ ہے ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ اس ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے اس وقت ہم بے شمار مسائل میں مبتلا ہیں تاہم عمران خان سے انہیں بڑی امیدیں وابستہ ہیں خدا کرے کہ وہ پاکستان کے وقار کو بلند کرنے میں کامیاب ہوں اور ہمارے مصائب کا مداوا کریں سردار یاسین ملک نے کہا کہ انہیں اس دعوتِ یک جہتی کا انتظار رہتا ہے میں معین قریشی کا ممنون و شکر گزار ہیں کہ وہ مجھے اس پروگرام میں مدعو کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی بائیو گرافی کی ترتیب کا کام معین قریشی کی زیر نگرانی جاری ہے امید ہے کہ جلد ہی یہ کتاب منظر شہود پر آجائے گی۔ ڈاکٹر معین قریشی نے خطبۂ صدارت پیش کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ محکمہ تعلقاتِ عامہ میں ملازم تھے تب ڈاکٹر فاطمہ حسن کے مشورے پر ہم نے پائے کی دعوت کا سلسلہ شروع کیا تھا جب اس پروگرام میں بہت اہم لوگوں نے شرکت کرنا شروع کی تو ہم نے اس پروگرام کا ڈیکورم تبدیل کیا۔ اس پروگرام کے شرکا بدلتے رہتے ہیں تاہم کچھ ارکان مستقل ہیں جیسے محمود شام 19 مرتبہ ہمارے مشاعرے کی صدارت کر چکے ہیں اس کے علاوہ بھی بہت سے اہم افراد ہر سال ہمارے یہاں تشریف لا رہے ہیں میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ پروگرام کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں شبیر بھٹی کی جانب سے انور شعور اور دائوو عثمانی کو پچاس‘ پچاس ہزار روپے کا نذرانہ پیش کیا جا چکا ہے آج ہم ڈاکٹر یونس حسنی کو ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے ایک لاکھ روپے نقد پیش کررہے ہیں جس کا نصف حصہ شبیر بھٹی نے ادا کیا ہے۔ اس موقع پر جمیل الدین عالی کی 94 ویں سالگرہ کا کیک کاٹا گیا اور ان کی روح کے لیے ایصالِ ثواب کیا گیا۔

میٹرو پولیس ادبی و ثقافتی فورم کے زیر اہتمام مشاعرہ

میٹرو پولیس ادبی و ثقافتی فورم کے زیر اہتمام سید معود احمد حیات کی یاد میں 26 جنوری 2019ء کو فیڈرل بی ایریا واٹر پمپ کراچی میں مشاعرہ منعقد ہوا جس کی صدارت ڈاکٹر سید حامد علی الحامد (جدہ) نے کی۔ حیات رضوی امروہوی مہمان خصوصی تھے۔ سلمان صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تلاوتِ کلام مجید کی سعادت احسان اللہ آفریدی نے حاصل کی۔ دائود عباس نے نعت رسولؐ پیش کی۔ صاحب صدر‘ مہمان خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ ڈاکٹر اقبال پیرزادہ‘ راشد نور‘ ریحانہ روحی‘ حجاب عباسی‘ عنبرین حسیب عنبر‘ سلمان صدیقی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار احمد‘ حامد علی سید‘ فیاض علی‘ کاشف حسین غائر‘ صفدر علی انشاء‘ خالد میر‘ احمد سعید خان اور گل افشاں نے اپنے اشعار نذر سامعین کیے۔ سلمان صدیقی نے کہا کہ معود احمد حیات ایک زندہ دل انسان تھے‘ وہ محبتوں کے سفیر تھے انہوں نے زندگی بھر سماجی خدمات کے ساتھ ساتھ شعر و ادب کی آبیاری کی وہ لوگوں کے مسائل حل کرکے خوشی محسوس کرتے تھے ان کے انتقال کے سبب ہم ایک عظیم انسان سے محروم ہو گئے ہیں۔ میٹرو پولیس ادبی و ثقافتی فورم کے چیئرمین مشتاق احمد بھٹی نے کہا کہ آج سے آٹھ برس قبل انہوں نے ادبی تقریبات کا سلسلہ شروع کیا تھا اس وقت معود حیات گلبرگ ٹائون کے ناظم تھے انہوں نے ہمارا بہت ساتھ دیا آج وہ ہم میں نہیں‘ آج ہم ان کی یاد میں مشاعرہ کر رہے ہیں۔ ہم نے اپنے ادبی پروگراموں کا سلسلہ چار برس کے تعطل کے بعد شروع کیا ہے امید ہے کہ یہ سلسلہ چلتا رہے گا کیوں کہ مشاعرے بھی ہماری مشرقی روایات کا حصہ ہیں۔ یہ ادب کے فروغ میں اہم حصہ دار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ معود بھائی ’’ڈیڈی‘‘ کے لقب سے مشہور تھے‘ وہ اپنے علاقے کے ہر دلعزیز لیڈر تھے۔ وہ ایک علم دوست شخصیت تھے وہ وسیع المطالعہ انسان تھے انہیں موسیقی سے بہت لگائو تھا اور ہر محفل کی جان ہوا کرتے تھے۔ وہ رام پور بھارت سے ہجرت کرکے پہلے مشرقی پاکستان شفٹ ہوئے پھر بوجوہ کراچی آگئے اور کراچی میں مدفون ہیں۔ وہ کھرے انسان تھے زبان کے سخت اور دل کے نرم تھے وہ عوامی شکایات سنتے تھے اور پوری ذمے داری کے ساتھ ہر مسئلے کا حل تلاش کرتے تھے‘ وہ دوستی نبھاتے تھے‘ اللہ تعالیٰ ان کی درجات بلند فرمائے۔ اقبال احمد خان نے کہا کہ معود حیات کو فنونِ لطیفہ سے دلچسپی تھی‘ وہ رفاہی کاموں میں مصروف رہتے تھے۔ خدمتِ خلق ان کی زندگی کا محور تھا ان کے انتقال سے ہمیں بہت گہرا زخم لگا ہے ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ اس موقع پر معود بھائی کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی۔ اس مشاعرے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ پنڈال بھرا ہوا تھا۔ رات 12 بجے ختم ہونے والے اس پروگرام میں تمام لوگوں کے لیے گرما گرم حلیم پیش کیا گیا۔ مشتاق بھٹی نے کلمات تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ اردو ادب کے دلدادہ ہیں۔ انہوں نے اپنے تعلیمی اداروں میں شعرو سخن کی ترویج و اشاعت کے لیے بزم طلباء و طالبات قائم کی ہے جس کے تحت ہمارے اسکولوں میں ادبی پروگرام ہو رہے ہیں۔

زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں مشاعرے کا اہم کردار ہے‘ پروفیسر جاذب قریشی

مشاعرے ہر زمانے میں ہوتے رہے ہیں‘ یہ وہ ادارہ ہے جو زبان و ادب کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے‘ شاعر بہت حساس ہوتا ہے‘ وہ اپنے معاشرے کو نظم کرتا ہے‘ زندگی اور ادب میں چولی دامن کا ساتھ ہے‘ جو لوگ مشاعرے کرا رہے ہیں وہ قابل مبارک ہیں۔ یاسر سعید صدیقی بہت اچھی تقریبات سجا رہے ہیں‘ ان خیالات کا اظہار پروفیسر جاذب قریشی نے بزمِ سعید الادب کے زیر اہتمام ہونے والے مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج بہت اچھی شاعری سننے کو ملی ہے اپنے عہد سے جڑ کر شاعری کرنا مشکل کام ہے۔ آج ہر شاعر نے زمانے کے حالات کے ساتھ ساتھ غزل کے مضامین بھی باندھے ہیں‘ آج سعیدالظفر صدیقی نے جو غزل سنائی ہے اس کی ردیف مشکل ہے تاہم انہوں نے کمالِ ہنر مندی سے بہت اچھے اشعار نکالے ہیں۔ اشعار پورے ابلاغ کے ساتھ سامعین تک پہنچ رہے ہیں۔ اپنے صدارتی خطاب میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ گزشتہ چالیس برس سے زندہ لوگوں پر مضامین لکھ رہے ہیں۔ لوگوں کی پزیرائی کرنا اہم کام ہے‘ میں جس کو اہم سمجھتا ہوں اس پر مضمون لکھتا ہوں‘ میں نے ادبی منظر نامے میں اپنی محنت و ریاضت سے جگہ بنائی ہے۔ فیروز ناطق اس مشاعرے میں مہمان خصوصی تھے۔ اختر سعیدی مہمان اعزازی اور یاسر سعید صدیقی ناظم مشاعرہ تھے۔ جن شعرا نے کلام پیش کیا ان میں پروفیسر جاذب قریشی‘ فیروز ناطق خسرو‘ اختر سعیدی‘ سعیدالظفر صدیقی‘ راشد نور‘ نسیم نازش‘ سلمان صدیقی‘ راقم الحروف نثار احمد‘ نسیم شیخ‘ آئرن فرحت‘ وقار زیدی‘ شبیر نازش‘ سخاوت علی نادر‘ ہما بیگ‘ انیس جعفری‘ سبیلہ انعام صدیقی‘ ارم زہرہ‘ حمیدہ کشش‘ شاہد شہاب اور یاسر سعد صدیقی شامل تھے۔

حصہ