شریکِ مطالعہ

254

نعیم الرحمن
دوسرا اور آخری حصہ
دیباچے میں عبدالخالق سرگانہ صاحب کا کہنا ہے کہ ’’ملک کے اہم لوگوں سے میری کبھی کوئی گپ شپ نہیں رہی، بس ایک روایتی سی ملازمت کی اور خاموشی سے ریٹائر ہوگئے۔ ان حالات میں آخر کتاب لکھنے کا رسک لینے کی ضرورت کیا آن پڑی تھی؟ پی ٹی وی کے قیام کو نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران صرف ایک ڈائریکٹر نیوز برہان الدین حسن صاحب نے نیوز کے موضوع پر قلم اٹھایا تھا اور وہ بھی سولہ سال پہلے۔ سوال یہ ہے کہ پی ٹی وی نیوز میں بتانے کو کچھ نہیں، یا اس کی بہتری میں کسی کو دل چسپی نہیں، یا کوئی خوف مانع ہے؟ برہان الدین حسن کے علاوہ دو منیجنگ ڈائریکٹرز آغا ناصر اور اختر وقار عظیم نے پی ٹی وی میں اپنے تجربات کے بارے میں کتابیں لکھی ہیں۔ ان دونوں حضرات کا تعلق پروگرام کے شعبے سے تھا، اس لیے انہوں نے بجا طور پر پی ٹی وی کو اسی نقطہ نظر سے دیکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک زمانے میں پی ٹی وی کی پہچان پروگرام ہی تھا، لیکن 2002ء میں پی ٹی وی نیوز کے نام سے الگ چینل کے قیام اور پرائیویٹ سیکٹر میں میڈیا کے پھیلاؤ کے بعد ضروری تھا کہ نیوز کی کہانی بھی ریکارڈ پر لائی جائے۔ نیوز کے نئے منظر نامے پر کچھ اور لکھنے کی گنجائش تھی۔ اس کے علاوہ شاید میرے ذہن میں کچھ بوجھ تھا جو میں ہلکا کرنا چاہتا تھا۔ میرا یہ دعویٰ نہیں کہ میرے مختصر دور میں کوئی انقلاب آگیا تھا، یا اس کتاب کے ذریعے پی ٹی وی میں کوئی بنیادی تبدیلی آسکے گی، لیکن میری یہ کوشش اپنے حصے کی شمع جلانا ہے تاکہ آئندہ چراغ سے چراغ جل سکے۔‘‘
کتاب کا پہلا باب ’’چند دل چسپ واقعات‘‘ کے نام سے ہے۔ جس میں پہلا ہی واقعہ یہ ہے کہ پی ٹی وی میں خبر کو بتانے سے زیادہ چھپانے کی کس طرح کوشش ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’17 اگست 1988ء نیوز کے حساب سے ٹھنڈا دن تھا۔ ہمارے نیوز ڈائریکٹر مصلح الدین مرحوم خلافِ معمول کسی سے ملنے گئے ہوئے تھے۔ کنٹرولر نیوز حبیب اللہ فاروقی اور چیف رپورٹر شمیم الرحمن نیوز روم میں انگریزی ڈیسک پر موجود تھے۔ میں خبرنامہ ڈیسک پر بیٹھا تھا، وہاں میرے نہایت قریبی دوست پولیس سروس کے اعجاز ملک، جو اُس وقت ایس پی خوشاب تھے، کا فون آیا، انہوں نے پوچھا صدر ضیاالحق کہاں گئے ہوئے ہیں؟ مجھے علم نہیں تھا۔ اعجاز ملک نے بتایا کہ وہ جہاں بھی گئے تھے ان کا جہاز کریش ہوگیا ہے اور غالباً وہ زندہ نہیں بچے۔ دراصل پنجاب کی انتظامیہ کو اس معاملے پر خاموش کردیا گیا تھا۔ میں سناٹے میں آگیا۔ میرے اردگرد بیٹھے لوگ بھی پریشان ہوگئے۔ میں نے فاروقی صاحب سے پوچھا: صدر صاحب آج کہاں گئے ہوئے تھے؟ انہوں نے کہا بہاولپور۔ میں نے کہا کہ ان کا طیارہ کریش ہوگیا ہے۔ فاروقی صاحب بھی پریشان ہوگئے۔ انہوں نے پوچھا: آپ کی سورس کیا ہے؟ بتانے پر وہ سنجیدہ ہوگئے۔ انہوں نے اے پی پی، ائرپورٹ، پی آئی ڈی وغیرہ کئی جگہ فون ملایا لیکن کوئی آدمی اس موضوع پر کھل کر بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد قائم مقام ایم ڈی فضل کمال کا فون آیا، انہوں نے کہا کہ صدر کا پروفائل تیار کرلیں۔ اس پر فاروقی صاحب نے کہا: سرگانہ صاحب آپ کی خبر بالکل صحیح ہے۔ اُس دن خبرنامہ کا دورانیہ صرف تیرہ منٹ رہا۔ اتنے بڑے واقعے پرکوئی تبصرہ وغیرہ شامل نہیں کیا گیا۔‘‘
یہی نہیں، اس انتہائی سنجیدہ واقعے سے متعلق سرگانہ صاحب کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں ایک مزاحیہ بات بھی سن لیجیے ’’ہمارے ملتان بیوروکی ایک ٹیم کسی اور سلسلے میں اُسی علاقے بستی لال کمال کے قریب موجود تھی جہاں صدر کا جہاز گرا تھا۔ ابھی سیکورٹی ایجنسیاں بھی نہیں پہنچی تھیں لیکن ہماری ٹیم نے اس کی کوریج نہیں کی۔ بعد میں ٹیم لیڈر اسلم غوری مرحوم کی جواب طلبی کی گئی تو انہوں نے کہا کہ انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ اُس طیارے میں صدر ضیا الحق سوارتھے، بلکہ انہوں نے سمجھاکہ پی آئی اے کا کوئی عام طیارہ گرا ہے‘‘۔ انھی اسلم غوری صاحب کا ایک اور لطیفہ بھی یہیں ہوجائے، وہ یہ کہ ’’یوگو سلاویہ کے صدر مارشل ٹیٹو بیمار تھے۔ پی ٹی وی نیوز الرٹ تھا کہ ان کے مرنے پر خصوصی خبریں ہوں گی، لیکن جب واقعہ رو پذیرہوا تو پی ٹی وی پرکوئی خبر نہ تھی۔ ڈائریکٹر نیوز نے رات کی ڈیوٹی پر موجود اسلم غوری کو طلب کیا اور پوچھا کہ ایساکیوں ہوا؟ تو انہوں نے جواباً کہا کہ جب ہمارے قائداعظم کا انتقال ہوا تھا تو یوگو سلاویہ کے ٹیلی ویژن نے کوئی خصوصی بلیٹن کیا تھا؟‘‘ دل چسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی وی کی نیوز ٹیم نے پی آئی اے کا طیارہ گرنے کو خبر ہی نہیں سمجھا اور مارشل ٹیٹو کی موت پر پروگرام نہ کرنے پر انوکھا جواز بھی قبول کرلیا گیا۔ لیکن عبدالخالق سرگانہ صاحب نے بھی اس انتہائی غیر پیشہ ورانہ رویّے اور سنگین غلطی کو ایک مزاحیہ بات اور لطیفے کے طور پر کتاب میں پیش کیا ہے۔ اس سے پی ٹی وی کے سینئر اہلکاروں کی نیوز سینس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
ایک مرتبہ خبرنامے میں ایسی غلطی چلی گئی جس کی شاید پی ٹی وی نیوز کی نصف صدی کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں۔ ’’فیکس پرکہیں سے وزیراعظم نوازشریف سے عالمی بینک کے صدر کی ملاقات کی ایک طویل خبر نیوز روم کو موصول ہوئی۔ وزیراعظم کی خبر تھی، فوراً تیارکرلی گئی۔ کسی نے سورس چیک نہیں کیا۔ اسی دوران خبرنامہ کے پروڈیوسر مجدد شیخ نے ریفرنس کا پتا کرنے کے بعد نیوز روم کو بتایا کہ اس ملاقات کی فلم نہیں ملی، جو ایک عجیب بات تھی، کیوں کہ وزیراعظم کی ہر ایکٹیویٹی کی فلم لازمی طور پر بنتی تھی اور اب بھی بنتی ہے، لیکن اس پر بھی کسی کے کان کھڑے نہیں ہوئے۔ ڈائریکٹر نیوز اُس وقت نیوز ڈیسک پر موجود تھے لیکن بڑی تفصیلی خبر خبرنامہ میں چلی گئی۔ بعد میں علم ہوا کہ ایسی کوئی ملاقات سرے سے ہوئی ہی نہیں تھی۔ عالمی بنک کے صدرکچھ عرصہ پہلے پاکستان آئے تھے۔ خبرنامہ کے بعد بھونچال آگیا۔‘‘
ریڈیو پاکستان کا مشہور واقعہ ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح کا یومِ آزادی پر پیغام اُن کے اصرار پر قطع و بریدکے بغیر چلایا گیا تو اُن کے مخصوص جملوں پر آواز خراب کردی گئی۔ پی ٹی وی پر بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔ 1977ء کے انتخابات میں اپوزیشن کی پٹیشن پر عدالت نے پی ٹی وی کو حکم جاری کیا کہ دونوں فریق کو برابر کا وقت دیا جائے۔ پی ٹی وی کی روایت کے مطابق وزیراعظم کے سوا کسی کی آواز استعمال نہیں کی جاتی تھی۔ اب عدالتی فیصلے کے مطابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ پی این اے کے لیڈرمفتی محمود کی آواز دینا بھی ضروری تھی۔ افسرانِ بالا کے لیے یہ کڑوی گولی تھی، تاہم انہوں نے اس کا یہ حل نکالا کہ ایک جلسے میں مفتی محمود نے خطاب کیا۔ جب اُن کی آواز دینے کا وقت آیا تو اسٹوڈیو میں آواز کم یا زیادہ کرنے والے آلے کو مسلسل آگے پیچھے کیا جاتا رہا جس سے مفتی صاحب کی آواز یا تو بالکل نیچے چلی جاتی یا بلاسٹ ہوتی تھی۔ اس طرح عدالت کے فیصلے پر عمل بھی ہوگیا اور مفتی صاحب کی آواز بھی کسی کی سمجھ میں نہ آئی۔ اُس وقت مسعود نبی نور پی ٹی وی کے ایم ڈی تھے۔
12 اکتوبر1999ء ملکی تاریخ کا اہم دن تھا۔ اُس روز ایک فوجی آمر نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر ملک کا نظم و نسق سنبھالا۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ اُس دن شام کو وزیراعظم نوازشریف نے اُس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویزمشرف کو برطرف کرکے جنرل ضیا الدین بٹ کو آرمی چیف مقرر کیا تھا۔ نئے آرمی چیف کی تقرری کی تقریب وزیراعظم ہاؤس میں منعقد ہوئی اور تقریباً ساڑھے چار بجے اس کی خبر پی ٹی وی پہنچی۔ خبر فوری طور پر خصوصی بلیٹن میں نشرکی گئی۔ پھر تھوڑی دیر بعد پانچ بجے کے نیوز بلیٹن میں دوبارہ نشر ہوئی۔ اس پر دس بارہ افراد پر مشتمل فوجی دستہ میجر نثارکی قیادت میں نیوز روم پہنچ گیا اور انہوں نے یہ خبر دینے سے منع کیا۔ کچھ دیر بعد یہی خبر اور اُس کی فلم لے کر پی ٹی وی کے چیئرمین پرویز رشید اور منیجنگ ڈائریکٹر یوسف بیگ مرزا اور وزیر اعظم کے ملٹری سیکریٹری بریگیڈیئر جاوید ملک ایلیٹ فورس کے ساتھ نیوز روم آپہنچے۔ بریگیڈیئر جاوید ملک نے میجر نثار کو سرینڈر کرنے کا حکم دیا اور ایلیٹ فورس نے اُس فوجی دستے کو ایک کمرے میں بند کردیا۔ چھ بجے کے انگریزی بلیٹن میں شائستہ زید نے اس خبرکو ایک مرتبہ پھر پڑھا۔ اسی دوران غالباً آئی ایس آئی کا ایک فوجی افسر سادہ لباس میں نیوز روم پہنچ گیا۔ انہوں نے حکم دیا کہ کوئی آدمی اپنی جگہ سے نہیں ہلے گا اور نہ فون پرکوئی بات چیت ہوگی۔ انہوں نے پوچھا: ٹرانسمیشن کہاں سے ہوتی ہے؟ کسی نے اسٹوڈیو تک ان کی رہنمائی کی، اور انہوں نے نشریات روکنے کا حکم دیا۔ ٹی وی نشریات سات بجے سے رات گیارہ بجے تک بند رہیں۔ یہ پی ٹی وی کی تاریخ میں پہلا واقعہ تھا، اور جب نشریات بحال ہوئیں تو جنرل پرویزمشرف کی تقریر تک صرف ملّی نغمے نشر ہوتے رہے۔ اس دوران ٹرپل ون بریگیڈ کا ایک دستہ پی ٹی وی پہنچ گیا۔ گیٹ بند تھے۔ فوجی گیٹ اور دیوار پھلانگ کر اندر آئے۔ دیوار پھلانگنے کا یہ شاٹ دنیا بھر کے ٹی وی چینلز پر دکھایا گیا۔
’’پی ٹی وی میں ماہ و سال‘‘ میں ایسے بہت سے تاریخی اور چشم کشا واقعات درج ہیں جن سے سیاسی اور فوجی حکمرانوں کے اس اہم ترین الیکٹرانک میڈیا کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا علم ہوتا ہے۔ پی ٹی وی حکام کس طرح ہر حکمران کی چاپلوسی میں ہر حد کو عبورکرتے رہے، یہ صرف پی ٹی وی نہیں ہمارے ملک کے ہر ادارے کا المیہ ہے۔ ہر ادارے کے اہلکار ملکی مفادات پر ہمیشہ حکمرانوں کے مفادات کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔
عبدالخالق سرگانہ صاحب کی آپ بیتی انتہائی دل چسپ ہے۔ ان کا اندازِ تحریر بھی عام فہم اور قابلِ مطالعہ ہے۔ اردو آپ بیتیوں کے مصنفین کے عمومی رویّے کے مطابق ’’پی ٹی وی میں ماہ و سال‘‘ کے مصنف نے بھی اپنی قابلیت اور ہر معاملے پر زود فہمی کو جگہ جگہ اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ سرگانہ صاحب جیسا بروقت اور درست فیصلہ کرنے والا ان کے پورے دور میں کوئی اور نہیں تھا۔ اپنے تعلیمی اور ملازمت کے دور میں انہوں نے کبھی کوئی غلطی نہیں کی۔ ہر موقع پر اُن کی رائے پر عمل نہیں بھی کیا گیا تب بھی وہ بعد میں درست ثابت ہوئی۔ اگرچہ کئی واقعات اس کے برعکس نظرآتے ہیں لیکن یہ آپ بیتیوں کی ایک عام خامی ہے۔ کوئی بھی فرد خودنوشت میں خود کو فرشتہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے، اس کے باوجود مجموعی طور پر عبدالخالق سرگانہ صاحب کی آپ بیتی دل چسپ اور سبق آموز واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ کئی چشم کشا اور انکشاف سے بھرپور قصوں سے قاری کی معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ صحافت سے وابستہ افراد کے لیے بھی سرکاری اداروں میں کام کرنے کے طریق کار کے بارے میں کئی نئے پہلو اجاگر ہوتے ہیں۔ ایمل پبلشرز نے عمدہ اشاعت کی روایت اس کتاب میں بھی قائم رکھتے ہوئے اپنی انفرادیت برقرار رکھی ہے۔

غزلیں

ڈاکٹر اورنگ زیب رہبر

کیا رکھا ہے صحرا ؤں میں ،خواب،سراب اور خوف کیساہے
دنیا کی اس چمک دمک نے رنگ اڑائے ،ہوش اڑائے
کس نے سوچا،کس نے دیکھا ،دیواروں کے پیچھے کیا ہے
بستی والے خوابیدہ ہیں، ڈرتا ہوں کچھ ہو نہ جائے !
دائروں میں گھومنے والے کیا جانیں کہ باہر کیا ہے
اندھیروں میں بسنے والوں کو کوئی رستہ دکھلائے
قد آور لوگوں کے سائے، بونے لوگوں پر پڑ جائیں
شاید یوں دنیا میں ان کو چلنا آئے، جینا آئے!
اتنی باتیں، اتنے وعدے، اتنے رشتے ،اتنے ناتے!
دیکھو! ان شیشوں پہ کوئی پتھر آکے لگ نہ جائے!
شہرِ عداوت، شہرِ محبت میں تبدیل ہوا ہے رہبر
ہم نے تو اس سمت سفر میں رنج اٹھائے،پتھر کھائے

نجیب ایوبی

رات کی بات میں کیا رکھا ہے
خود اس رات میں کیا رکھا ہے
آنکھیں شب بھر ٹوٹ کے برسیں
اب برسات میں کیا رکھا ہے
اپنے آپ سے باہر نکلو
اپنی ذات میں کیا رکھا ہے
کب آئے گی عمل کی نوبت
خالی بات میں کیا رکھا ہے
اپنے اندر جھانک کبھی تو
الزامات میں کیا رکھا ہے
پڑھیے عنوانات کی حد تک
مندرجات میں کیا رکھا ہے
دنیا اک تصویر کہانی
تفصیلات میں کیا رکھا ہے
حسنِ نظر کی بات ہے پھر بھی
تشبیہات میں کیا رکھا ہے
من کا منکا پھیر نجیباؔ
تسبیحات میں کیا رکھا ہے

اشرف طالب

میری ہر سانس ہے تحفۂ زندگی
میرے ہونٹوں پہ ہے نغمۂ زندگی
آرزو تجھ میں جینے کی پیدا ہوئی
اب تُو خود ڈھونڈے گا راستۂ زندگی
دیکھنا ذکر میرا ضرور آئے گا
اُس نے چھیڑا تو ہے قصۂ زندگی
پتھروں سے تعلق کچھ اچھا نہیں
ٹوٹ جائے گا آئینۂ زندگی
خواہشیں دل میں طالبؔ ابھرتی نہیں
ختم ہو جائے جب جذبۂ زندگی

حصہ