سید فرخ علی جواد کی ’’دُرِّ شہوار‘‘ کا جائزہ

871

فیض عالم بابر
’’دُرّ ِ شہوار‘‘ سید فرخ علی جواد کا شعری مجموعہ ہے۔فرخ علی جواد ایک علمی و ادبی خانوادے سے تعلّق رکھتے ہیںاور معروف شاعر سبطِ علی صبا کے صاحبزادے ہیںجن کا یہ شعر تو ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرگیا ہے ۔

دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن سے رستے بنالیے

فرخ نے اپنے شعری مجموعے کاآغاز والد محترم کے پانچ اشعار درج کرکے کیا ہے۔فرخ نے والد کی طرح نہ صرف وادیِ سخن میں قدم رکھا ہے بلکہ والد ہی تقلید کرتے ہوئے سپاہ گری کو پیشہ بنایا ہے۔وہ فوج میں جونیئر کمیشنڈ افسر ہیں۔بقول غالب

سو پشت سے ہے پیشہِ آباء سپہ گری
کچھ شاعری ذریعہِ عزت نہیں مجھے۔

موصوف اپنی اہلیہ کو ’درِ شہوار‘ سمجھتے ہی نہیں بلکہ پکارتے بھی ہیںاور کتاب کا یہ نام رکھ کر اپنی بیگم کو تحفہ پیش کیا ہے۔یقینا یہ ارمغانِ محبت بہت قیمتی ہے اور بھابھی اسے پاکر خوشی سے نہال بھی ہوئی ہوں گی ،مگر معلوم نہیں وہ اس راز سے واقف بھی ہیں یا نہیں کہ کتاب کا نام’ درِ شہوار‘ رکھ کر دراصل فرخ نے خود کو بادشاہ بتانے کی کوشش کی ہے،کیونکہ در شہوار کا مطلب’’ بادشاہ کے زیر استعمال موتی ‘‘ہوتا ہے۔
فرخ نے اپنی ’’درِ شہوار‘‘ کی محبت میں ایک غزل بھی درِ شہوار کی ردیف میں کہی ہے جسکا ایک شعر بطورِ تبرک پیش ہے۔

آپ کا رشتہ مقدم ہے مجھے ہر شے سے
صاف لفظوں میں کہے دیتے ہیں دُرّ ِ شہوار

دُرِّ شہوار‘ کے نام سے علامہ راشد الخیری کی تصنیف شائع ہوچکی ہے جس کا دوسرا ایڈیشن محمد عباس حسین قاری نے1922 ء میں دہلی سے شائع کیا تھا ۔علاوہ ازیں امریکا میں مقیم استاد شاعر سرور عالم راز کے ایک شعری مجموعے کا نام بھی ’دُرِ شہوار‘ ہے۔
کتاب میں نعت اور سلام کے علاوہ 73غزلیں اور 6 نظمیں شامل ہیں۔ کتاب میں شامل 17,17 غزلیں بحرِ مجتث اور بحر ِ مضارع کی مزاحف اشکال(مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن)، (مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن)16 غزلیں بحرِ رمل کی مزاحف شکل(فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن) اور 6 غزلیں بحرِ خفیف کی مزاحف صورت(فاعلاتن مفاعلن فعلن) کے وزن پر ہیں۔
کتاب میں حبیب الرحمان مشتاق کا مختصر مضمون ،شہزادنیّر،محمد اکرم جاذب اوردلاور علی آذر کی آراء شامل ہیں۔فرخ جواد اہلِ بیت اور شہدائے کرب و بلا سے خاص عقیدت رکھتے ہیں جس کا اظہار کتاب میںجا بہ جا نظر آتا ہے ۔کتاب کے آغاز میں نعت کے بعد غزل کے سانچے میں یاحسینؓ، لا الہ الااللہ،پیغامِ کربلااور سلام کے عنوانات سے چار نظمیں شامل ہیں۔کچھ شعر

نہیں ہے مجھ کو ضرورت کسی بھی گوہر کی
رسولِ پاکﷺ کی سیرت مرا نگینہ ہے

اذنِ جہاد دے کے ہر اک جانثار کو
راہِ خدا میں ہوگئے قربان یاحسینؓ

کہیں حسینؓ کہیں پر علیؓ بنی زینبؓ
حسینیت کی زباں،لا الہ الا اللہ
باپ کے ہاتھ میں علی اصغر
تیر کھاکے بھی مسکرایا ہے

کتاب میں شامل سلام کا ایک شعر ہے۔

ہر کسی کے سامنے جب سر جھکایا جائے گا
حشر میں یزدان کو کیا منہ دکھایا جائے گا

اس شعر میں یزدان کی جگہ لفظ اللہ ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔( لفظ اللہ کو ہم فعلن اور مفعول دونوں اوزان پر باندھ سکتے ہیں) وجہ یہ ہے کہ ایک تو شعر سلام کا ہے دوسرا لفظ یزدان کی بنیاد کفریہ ہے۔زرتشت کے پیرو کاروں کے نزدیک کائنات دو طرح کے دیوتا چلارہے ہیں ۔خیر کے دیوتا کا نام یزداں اور شر کے دیوتا کا نام اہرمن ہے۔گو کہ ایرانی شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کے دور سے یہ لفظ خدا یا اللہ کے معنوں میں استعمال ہونا شروع ہوگیا تھا۔بعد ازاں فارسی شعرا کی تقلید کرتے ہوئے ہمارے کچھ شعرا نے بھی اس لفظ کو اللہ ہی کے معنوں میں استعمال کرنا شروع کردیا تاہم ایسے لفظوں کو برتتے ہوئے خصوصاً مذہبی کلام میں احتیاط پیشِ نظر رہنی چاہیے۔
کتاب میں شامل چار اشعار کچھ یوں ہیں۔

منافقوں کا مرے شہر میں بسیرا ہے
اس لیے تو مجھے سازشوں نے گھیرا ہے
تمام عمر کٹے چاہے دھوپ چھائوں میں
بڑا سکوں ملا مجھ کو اپنے گائوں میں

پہلے شعر کا دوسرا مصرع اس بحر میں نہیں ہے جس میں غزل ہے۔کہاں کو رات کے وزن پر باندھنا ٹھیک نہیں صاحب۔دوسرے شعر کا دوسرا مصرع وزن سے خارج ہے۔اس اگر اسی ہے تو پھر ٹھیک ہے۔تیسرے شعر کا پہلا مصرع خارج الوزن ہے۔اگر یقیں یقین ہے تو پھر ٹھیک ہے۔آپ کو تو اپنے گائوں میں سکوں مل گیا مگر چوتھے شعر میںسکون کو سکوں پڑھ کر ہمارا سکون غارت ہوگیا۔
کتاب میں ایک آدھ پروف کی غلطی بھی ہے۔

غافل خدا سے تم کو بناے دے گی دشمنی
احساس بندگی کا بھلا دے گی دشمنی

پہلے مصرع میں ے اضافی ہے۔

دیکھا جو اپنے آپ کو ماضی میں جھانک کر
فرخ کسی سے اپنا پتہ پوچھنا پڑا
لشکر کا پتہ دو،مجھے رہبر کا پتہ دو
باطل کو مٹانا ہے اگر شر کا پتہ دو

لفظ پتہ کو’ ہ‘ کے بجائے الف سے(پتا) لکھنا فصیح ہے۔

مرے عدو کو یہ پہلے سی ہی خبر کردو
جو خوں میں ہوتی ہیں تر وردیاں بناتے ہیں

سردی کا موسم ہے شاید اسی لیے پہلے مصرع کا ’سے‘ سی سی کرتے ’سی‘ ہی ہوگیا۔

اُترنے لگ گئے الہام نو بہ نو کی طرح
وہی غزل کے مضامین نثری نظموں میں

الہام کو فرشتے کی طرح آسمان سے نیچے اتارنا ٹھیک نہیں۔دل کو الہام ہوتا ہے تو ہونے دو۔
شاعر کو کسی بنیے کی طرح لفظ کو مال جان کر بڑھانا اور گھٹانا نہیں چاہیے۔شاعر اگر فوجی بھی ہے تو اسے چاہیے کہ ’معرکے کا آدمی‘بن کر ’معرکے سر کرے‘۔

فصلِ گُل لوٹ کے آئی ہے چمن میں فرخ
نگہتیں ساتھ لیے چہرے کھلیں عید کے دن

نگہتیں کوئی لفظ نہیں درست لفظ نکہت ہے ۔ گمان غالب ہے کہ بہت سے الفاظ کی طرح اس لفظ کی صورت بگاڑنے کا کارنامہ بھی کسی کاتب نے انجام دیا ہوگا۔نکہت کی خوبصورتی بڑھانے کے لیے کاتب نے ک کے اوپر ایک لکیر کھینچی ہوگی اور ہمارے عوام نے نکہت کو نگہت جان کر بچیوں کے نام بھی نگہت رکھنا شروع کردیے۔
کتاب کے آخر میں نظموں کی صورت میں اپنے شہید فوجی ساتھیوں کو نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے جبکہ کشمیر اور شام کے مخدوش حالات پر بھی منظوم اظہارِ خیال کیا ہے۔برف کے عنوان سے سیاچن محاذِ جنگ کے حوالے سے ایک نظم ہے جس کے کچھ مصرعے ملاحظہ فرمائیں۔
برف پر جو رہتے ہیں
سب جوان کہتے ہیں
ان کے اپنے پائوں سے
دھوپ کی تمازت سے
کوئی تودا برفانی
جانے کب پگھل جائے
برف کے سمندر میں
عمر کا سفینہ ہے
اور ایسے عالم میں
مل کے ہم کو جینا ہے۔
فرخ علی جواد کی کتاب میں جا بہ جا پُر فکر اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشارخوبصورت اشعار ملتے ہیں۔ان کے شعر کہنے کا انداز وہی ہے جوا حمد فراز، محسن نقوی اور پروین شاکر کا مقبولِ عام انداز تھا۔ذخیرہ ِ الفاظ کی کمی کے باعث کہیں کہیں وزن پورا کرنے کے لیے انہوں نے بھرتی کے الفاظ سے بھی کام چلایا ہے۔امید ہے فوج کی سخت جان نوکری کے دوران اپنا مطالعہ مزید وسیع کرتے ہوئے ادب کی آبیاری میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں گے۔
کتاب میں شامل چند خوبصورت اشعار۔

ہر مصیبت لیے ہوتی ہے کئی دوسرے دکھ
حبس بڑھنے سے بڑے سانپ نکل آتے ہیں

اچھے وقتوں کے دوستو! تم نے
کیوں نہ دیکھا بہار سے آگے

ہمارے پاس اثاثہ تھا فکر کا فرخ
کہ جس کو چھینا ہے اس دور کی مشینوں نے

مجھے پسند بہت اختلاف آراء کا
میں چاہتا ہوں کہ سارے جدا جدا سوچیں

ملا تھا حکم مجھ کو واپسی کا
وگرنہ جنگ میں جیتا ہوا تھا

بجھانے آگئے وہ آگ گھر کی
دھواں اُٹھنے لگا جب ا ٓسماں تک

شرما کے اپنے ہاتھوں سے چہرہ چھپا لیا
چھونے کو جب بھی میں نے بڑھائی ہیں انگلیاں

شہر سے کوچ کررہا ہوں میں
آپ پر اب نہ کوئی بات آئے

جب حوصلے بلند ہوں تعداد سے نہ ڈر
دشمن نے کیا ہوا جو بڑھائی ہوئی ہے فوج۔

حصہ