کیا جنت میں اجتماعِ ارکان ہوگا؟

304

طلحہ ادریس
کسی کی تلاش جاری تھی۔ ایسا اکثر ہوتا رہتا ہے۔ راستوں میں اِدھر اُدھر پھرتے ہوئے اچانک انہیں اپنی مراد مل گئی۔ وہ ایک دوسرے کو آواز دے کر بلانے لگے کہ آئو ہمارا مطلوب حاصل ہوگیا ہے۔ کچھ لوگ وہاں بیٹھے ذکرِ الٰہی میں مشغول تھے۔ فرشتے اُنہیں پاکر خوش ہوگئے۔ انہوں نے اپنے پَر پہلے آسمان تک ا للّٰہ کی یاد میں مگن ا للّٰہ کے بندوں کے اوپر پھیلا دیے۔ مجلس ختم ہوئی تو فرشتے اپنے رب کی طرف چلے گئے۔
ربّ ِ کریم نے پوچھا: میرے بندے کیا کہتے تھے؟ فرشتوں نے جواب دیا: وہ آپ کی حمد و ثنا میں مصروف تھے، تسبیح و تحلیل اور کبریائی بیان کررہے تھے۔ پیار کرنے والے رب نے پوچھا: کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ فرشتے گویا ہوئے: نہیں و ا للّٰہ انہوں نے دیکھا تو نہیں ہے۔ محبوب رب(سب کچھ جاننے کے باوجود)پھر سوال کرتا ہے: اُن کا اُس وقت کیا حال ہوتا جب انہوں نے مجھے دیکھا ہوا ہوتا؟فرشتے بولے: اگر وہ دیدار کرلیتے تو اور بھی زیادہ عبادت کرتے، تسبیح میں اضافہ کردیتے… ا للّٰہ کریم دریافت کرتا ہے: وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں؟ فرشتوں کا جواب ہے: وہ جنت مانگتے ہیں۔ پیارا رب پوچھتا ہے: کیا جنت انہوں نے دیکھی ہے؟ فرشتے کہتے ہیں: نہیں وا للّٰہ جنت تو انہوں نے نہیں دیکھی۔ ا للّٰہ رحیم کا سلسلۂ سوالات جاری ہے: اگر جنت انہوں نے دیکھی ہوتی تو وہ کیا کرتے؟ فرشتے بھی سلسلۂ جوابات کو جاری رکھے ہوئے ہیں: اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو اُن کی طلب اور بھی بڑھ جاتی۔غفور و شکور رب پوچھتا ہے: وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں؟ بتایا جاتا ہے: دوزخ سے۔ بات جاری رہتی ہے: کیا دوزخ انہوں نے دیکھی ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: نہیں وا للّٰہ دوزخ انہوں نے دیکھی تو نہیں۔ ارشاد ہوتا ہے: اگر انہوں نے اُسے دیکھا ہوتا تو؟ جواب آتاہے: اگر انہوں نے اُسے دیکھا ہوتا تو اُس سے بچنے میں وہ سب سے آگے ہوتے اور سب سے زیادہ اُس سے خوف کھاتے۔ اس پر فرشتوں کو گواہ بناکر ا للّٰہ تعالیٰ کہتا ہے: میں نے اپنے بندوں کی مغفرت کردی ہے۔ ایک فرشتہ بولا: یا ا للّٰہ! اُن میں ایک شخص اپنے کسی کام سے آیا تھا، وہ بھی اُن کے ساتھ بیٹھ گیاتھا۔ ا للّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ یہ وہ لوگ ہیں جن کی مجلس میں بیٹھنے والا بھی محروم نہیں رہتا۔‘‘مجلس میں بیٹھ کر ا للّٰہ والوں کی فہرست میں نام لکھوالینے کی خواہش نہ جانے کتنے ساتھی بھائیوں کے دلوں میں مچلتی رہتی ہے۔ یہ طلبِ صادق جب جب پوری ہوتی ہے دل کی دنیا مثلِ غنچۂ گل کھل اٹھتی ہے۔ کیوں ایسا نہ ہو کہ (مندرجہ بالا مفہومِ حدیث کے مطابق) اللّٰہ اور فرشتوں کے باہم مکالمے کا موضوع یہ بنتا ہے۔ اسلامی جمعیت ِ طلبہ ایسی کئی مجالس منعقد کرتی ہے۔ کبھی دعوت نامہ دیتی تو کبھی زبانی لالچ دیے کھینچ لاتی ہے۔ اگر کوئی پھر بھی نہ مانے اور نہ ماننے والا بہت عزیز ہو، جس کا یہ اپنا کام ہو تو جمعیت افسردہ ہوجاتی ہے۔ عذرِ شرعی پر رخصت لینے کا کہتی ہے۔ اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی مجلس میں نہ آنے والوں سے گلہ تو بنتا ہے۔ اُنہیں ہلکی پھلکی سزا دینے کی اجازت تو ہونی چاہیے…اکہتر سالہ ماں کی آغوش میں چھیاسٹھواں سالانہ اکٹھ اب کی بار کراچی میں ہورہا ہے۔ اسی مناسبت سے مدیر ہم قدم نے ’’ماں‘‘ کا تعارف کرانے کا کہاہے۔ حیرت تو ہوئی ہے کہ ’’ماں‘‘ کا تعارف اُس کا ایک بیٹا اپنے بھائیوں کو کرائے تو کیسے کرائے… خود ماں نے بتایا ہے کہ تعارف ایسے کراتے ہیں: ’’بسم ا للّٰہ الرحمن الرحیم، نام اسلامی جمعیت ِ طلبہ ہے، رہائشی تعلق پاکستان سے ہے، تعلیمی اداروں میں انسانی زندگی کی تعمیر کے سدا بہار سال میں زیرِ تعلیم ہوں۔‘‘ اب اگر اس ’’روایت‘‘ کا ذکر ہوا ہے تو چند ایک مزیدکا بھی کیے دیتا ہوں۔ کچھ بکھرے خیالات اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ بڑھ جائیں گے۔ طویل سلسلۂ ’’روایات‘‘ میں ایک اصطلاح ’’ساتھی بھائی‘‘ کا بعض اوقات بتکرار اور بعض اوقات حسبِ ضرورتِ باہمی استعمال عام ہے۔ ایک مرتبہ جامعہ پنجاب میں ایک ساتھی بھائی اسی اصطلاح کے استعمال کی وجہ سے دھر لیے گئے تھے۔ فرض نمازوں کی ادائیگی مسجد میں ہونی چاہیے اور سنن و نوافل کا اہتمام گھر میں کرنا چاہیے۔ ساتھی نماز ادا کرنے کے بعد جمع ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ معانقہ کیا جاتا ہے۔ دورِ جدید کے تقاضوں کی نظر سے یہ روایت ابھی محفوظ ہے (الحمدللّٰہ)، لیکن نماز کے بعد ساتھیوں کا جمع ہوکر تادیر گپ شپ لگانا مناسب نہیں۔ کئی ماتھوں پر شکن اور بہت سے لبوں پر شکایت پیدا ہوتی ہے۔ دیگ کا تیسرا چاول ایک جملہ (جو اکثر ناظمین کی زبان سے) سننے کو ملتا ہے: ’’احساس پایا جاتا ہے۔‘‘جی ہاں، احساس ہر دم ، ہر لحظہ رہنا چاہیے کہ ا للّٰہ اور اُس کے رسول ؐنے حیاتِ فانی کو برتنے کے جو اصول بتائے ہیں وہ کامل ہیں۔ اُن کی روشنی میں بھول جانے والے انسان کو یاد دلاتے رہنا ہے تاکہ حصولِ رضائے الٰہی کی منزل پر قدم رواں دواں رہیں۔ اس لیے کہ اِس راہ میں اگر کسی آخری صف میں بھی جگہ مل گئی تو وارے نیارے ہوجائیں گے۔ ’’وقت کافی ہوگیا ہے، بس اب ایک آخری سوال‘‘ :کیا جنت میں اجتماعِ ارکان ہوگا؟

حصہ