کاش ! میں جمعیت کا رکن ہوتا

366

نعیم صدیقی
ہم نے آپ کے ’’کاش‘‘ کا جائزہ لیا اور موضوع کو اپنے اوپر طاری کر کے مجوزہ حسرت ناکام کا پورا پورا تصور باندھا ۔اسلامی جمعیت طلبہ میں ہم آج شامل ہوتے (یا پہلے کبھی رہے ہوئے ہوتے) تو کیا ہوتا ؟
یہی ناں کہ ہم استاد کا ادب کرتے ،ضبط و نظم کا احترام کرتے ،لڑکیوں کا سامنا ہوتا تو نگاہیں بچا کر گزر جاتے ،امتحان ہوتا تو نقل نہ لگاتے بلکہ اس کوتاہی کی پیشگی تلافی کے لئے سارا سال محنت میں لگے رہتے اور ان ’’گناہوں ‘‘ کے سبب ملا کہلواتے ،یا رروزانہ زبان کے محتاط لوگ ہمیں مولوی کہہ کہتے ۔طنز و تعریف ہوتی چوٹیں ہوتیں ۔ساتھی ہممیں احساس کمتری کے روگ میں مبتلا کرنے کی تدبیریں کرتے اور نظام تعلیم میں بھی ہمیں تعلیم گاہ کے معاشرے میں سب سے پچھلی صف میں جگہ دیتا اور یاران شریر و شاطر کو آگے کر کے سر آنکھوں پر بٹھا تا ۔پھر شیطان مردود ہمارا دن رات کا امن چین حرام کر دیتا اور بار بار کہتا کیوں اپنا مستقبل خراب کرتے ہو ۔یہ کوٹھیاں اور کاریں اور دولت اور لڑکیاں دیکھو ،یہ چاروں طرف پھیلی ہوئی جنت تمہیں بلا رہی ہے ۔اور تم اسلام اسلام کی رٹ لگا کر اس سے محروم ہو رہے ہو ۔چھوڑو میاں نماز وغیرہ کو ، کہاں اس دور میں تم قرآن پاک کی تلاوت کو صبح ہی صبح بیٹھ جاتے ہو ،کاہے کے لئے سینما اور ناول چھوڑ کر یہ دینی لٹریچر پڑھتے ہو ،گپیں ہانکنے اور تاش کھیلنے کی بجائے فضول اجتماع کرتے پھرتے ہو جس کی سنجیدگی کا انداز ایسا ہوتا ہے جیسے کوئی مجلس عزا ہو ،مگر وہ بھی ایسی کہ جیسے کوئی خوش الحان مرثیہ خواں تک نہ ملا ہو ۔اور وہ مجھے کہتا کہ تم جس تہذیب الحاد سے بچنے کے لئے بند باندھ رہے ہو اسے تو بڑے طبقوں کے لوگ گلے لگا رہے ہیں ۔وہ اسے ترقی کہتے ہیں یہ وہ زہر ہے جس نے کتنے ہی انسانی ہاروت و ماروت کو سحر حسن کا شکار بنا کر ذلت و پستی کے چاہ بابل میں لٹکوا دیا ہے ۔اوران بے چاروں کے نتھنوں میں دن رات مرچوں کی دھونی دی جاتی ہے اور مجھے معلوم ہے کہ یہ شیطان کبھی کسی بزرگ کے پیکر میں ،کبھی کسی خیر خواہ دوست کے پیکر میں ،کبھی کسی استاد کے پیکر میں ،کبھی کتابوں کی شکل میں ،کبھی اخبارات کے مندر جات اور تصویروں اور اشتہارات کی صورت میں ناصح معشوق بن کر آتا ۔نہ صبح اس سے اما ن ہوتی ،نہ شام کو پناہ ملتی ۔یہ کم بخت مجھے عین دوران نماز میں بھی خناس بن کر وسواس سے پریشان کرتا ۔اور پھر جناب کچھ ’’کرامأ کاتبین ‘‘ (سی آئی ڈی ) میرے اردگرد رہتے اور عالم بالا کو مسلسل اطلاع کرتے رہتے کہ یہ ایک خطرناک طالبان ہے اوربڑے خطرناک گروہ کے ساتھ وابستہ ہے ۔یہی اور اس کا گروہ کالجوں میں ہڑتال اوریونیورسٹیوں میں ہنگامہ کراتا ہے ۔اسی نے کوئی خفیہ تار ہلایا تھا تو ریلوے ہڑتال ہو گئی بلکہ عجب نہیں کہ وہ لکھتا ہے کہ ۔۔۔۔۔ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر بم گرانے کی سلسلہ جنبانی بھی اس نے کی تھی ۔اور آج عراق ایران جنگ ،اسرائیلی جارحیت اور ہندوستان کے مسلم کش فسادات کا اصل ذمہ دار بھی یہی ہے ،یہ اور اس کی جمعیت !
فرمائیے،اتنے بڑے فخرو اعزاز کا میں کیسے متحمل ہو سکتا ۔
لہٰذا میں تو صدائے اختلاف بلند کرتا ہوں اور صاف صاف کہتا ہوں کہ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ میرے زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ موجود نہ تھی اور اگر ہوتی تو میں اس میں ہر گز شامل نہ ہوتا ۔آپ میری اس مقطع کی بات سے ناراض نہ ہو ں یہ تو ایک بات تھی جو یونہی سوچے سمجھے بغیر بنتی چلی گئی ،اور قلم لکھتا چلا گیا ۔میرے دل کی بات اور ہے ۔اب وہ بھی سن لیجئے ۔میں سمجھتا ہوں کہ ’’کاش ‘‘ ایک ایسا نقطہ آغاز ہے جہاں سے چلنے کے لئے آدمی کو نہ کوئی راستہ ملتا ہے نہ کوئی منزل سامنے آتی ہے نہ رہنما ،نہ رہزن ،نہ صدائے جرس۔لفظ ’’کاش‘‘تو ایک علامت اختتام ہے۔’’کاش‘‘کوئی زندہ حقیقت نہیں ،بلکہ ایک ’’لاش ‘‘ہے۔مولانا روم بھی اس کا بڑا فلسفیانہ پوسٹ مارٹم کر گئے ہیں کہ جو لوگ کام نہیں کرتے بلکہ اگر مگر سے کام چلاتے ہیں اورایسے لوگوں کے وسیع حلقوں سے آپ کو تعاون ہو چکا ہو گا ۔’’اگر‘‘ اور ’’مگر ‘‘کے ازدواج سے جو نتیجہ پیدا ہوتا ہے ۔اس کا نام ’’کاش ‘‘ کہ یہ ’’ کاش ‘‘ ہے یہ نتیجہ بالعموم مردہ تولد ہوتا ہے ۔وہی بات کہ کھودا پہاڑ نکلی چوہیا اور وہ بھی مری ہوئی ۔سو اب بات اسی چوہیا پر ختم کرتے ہوئے ،اتنا کہوں گا کہ کاش ہماری لغت سے لفظ ’’کاش ‘‘ کو ختم کر دیا جائے ۔

حصہ