فصل سود و زیاں

314

فرزانہ رباب
’’اس دفعہ فصل بہت اچھی ہوئی ہے۔‘‘ فضل الٰہی اپنی بیوی سے مخاطب تھا۔
’’ہاں! اشرف کے ابا! میں سوچ رہی تھی اس فصل پر اشرف کا بیاہ کردیں۔‘‘
’’اشرف کی ماں! پہلے تو قرض اتاریں گے، چھوٹی چھوٹی رقمیں بھی ادا کرتے کرتے پتا نہیں کتنا نکل جائے گا۔ تمہیں پتا ہے، کپاس کی پھٹی سترہ اٹھارہ ہزار روپے فی من ہے، اور ہماری کپاس چاندی کی طرح چمک رہی ہے، بہت پیسہ دے گی۔ کچھ نہیں، کچھ نہیں تو بارہ ہزار روپے بھی من کے مل جائیں تو خرچا نکال کے اور قرضے بھی ادا کرکے گھر کی حالت بہتر ہوجائے گی تو اگلی فصل پر اشرف کا بیاہ کردیں گے۔ لبنیٰ گھر کی بچی ہے، سال چھ ماہ میں کچھ نہیں ہوگا۔ بھائی کرم الٰہی ابھی زور بھی نہیں دے گا، اور اسے خود گھر کے کام کاج کے لیے لبنیٰ کی ضرورت ہے، بھرجائی جو بیمار رہتی ہے۔‘‘
’’ہاں اشرف کے ابا! کہہ تو تم ٹھیک ہی رہے ہو۔ چھیمو کے منہ پر اُس کے پیسے ماروں گی تو اُسے چین ملے گا، روز پیسے مانگنے آجاتی ہے۔ دو ہزار کیا دے دیے وہ سمجھتی ہے جب چاہوں بے عزت کردوں۔‘‘
سکینہ (اشرف کی ماں) اور فضل الٰہی (اشرف کا باپ) اپنی تین ایکڑ زمین پر بوئی جانے والی کپاس کی فصل کے بلکہ کپاس کی پھٹی کے پیسے آنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس دفعہ سارے معاملات سیدھے ہوجائیں گے۔
لیکن عام بے فکرے، بے سوچ انسانوں کی طرح انہوں نے یہ کبھی نہیںسوچا تھا کہ وہ اپنے معاملات اللہ کے ساتھ اور اللہ کے بندوں کے ساتھ کتنے اچھے طریقے سے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مستری اللہ داد کا بیٹا نوید شہر سے جب بھی گائوں آتا، ایک ایک گھر میں جاتا، سب سے ملتا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات یاد دلاتا، مگر کوئی اس کی بات پر سنجیدہ ہی نہیں ہوتا تھا۔ وہ دو ماہ پہلے جب آیا تھا تو اُس نے کہا تھا ’’چچا اپنی فصل کا عشر نکالا کرو۔‘‘
’’یہ عشر کیا چیز ہے؟‘‘ فضل الٰہی نے بڑے غصے سے پوچھا تھا۔
’’چچا! یہ زمین سے ہونے والی فصل میں سے اللہ کا حصہ ہے جو ہم پر فرض ہے، جیسے سونے چاندی پر زکوٰۃ نکالی جاتی ہے۔‘‘
’’یعنی تم یہ کہتے ہو کہ اتنی محنت کر کرکے ہم فصل اگائیں، سردی اور سخت گرمی میں دن رات کام کریں، پھر اللہ کی راہ میں دے دیں، ہم کچھ نہ کھائیں! تم بھی فارغ لوگ ہو، کبھی کہتے ہو نمازیں پڑھو، کبھی کہتے ہو روزے رکھو، صدقہ خیرات دو۔ ہماری مشکلات کا تو تمہیں اندازہ ہوتا ہی نہیں ہے۔‘‘
’’چچا! فصل تم اگاتے ہو یا تمہارا اللہ؟‘‘
’’پتر! محنت ہم کرتے ہیں، بیج ہم خرید کر بوتے ہیں، پانی ہم لگاتے ہیں، گوڈی ہم کرتے ہیں، بھاگ دوڑ ہم کرتے ہیں اور تمِ کہتے ہو اس میں دسواں یا بیسواں حصہ نکال کر دے دیں! ہمارے پاس کیا بچے گا؟‘‘
’’چچا! بتائو تمہاری کتنی اولادیں ہوئیں؟‘‘
’’سات بچے ہوئے، پر ہمارے نصیب ہی برے تھے‘‘۔ فضل الٰہی افسردہ ہوگیا۔‘‘
’’کہاں ہیں وہ سب؟‘‘
’’چھ مر گئے۔ کوئی پیدا ہوتے ہی مر گیا، کوئی سال کا ہوکے، اور کوئی چھ ماہ کا۔ لوگ کہتے تھے…‘‘
’’چچا لوگوں کی باتیں چھوڑو۔‘‘
’’اب توصرف اشرف ہمارے پاس ہے۔‘‘
’’چچا! اشرف کی زندگی کس نے عطا کی؟‘‘
’’اللہ پاک نے۔‘‘
’’دوسرے بچوں کو موت کس نے دی؟‘‘
’’اللہ پاک نے۔ پر تم یہ کیسے سوال کررہے ہو؟‘‘
’’چچا جب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں زندگی اور موت ہے تو کیا فصل کا ہونا تمہارے ہاتھ میں ہے؟‘‘
’’محنت تو ساری ہماری ہے، خرچا بھی ہمارا ہے۔‘‘ فضل الٰہی کی سوئی اسی نکتے پر اٹک گئی تھی۔ نوید نے بڑا سمجھایا مگر وہ کسی طرح عشر دینے پر آمادہ نہ ہوا۔ وہ کہتا تھا محنت ہماری، زمین ہماری، خرچا ہمارا… بچت ہوتی نہیں، خرچے پورے نہیں پڑتے، سال میں ایک آدھی فصل آتی ہے، اس میں سے حصے نکالتے رہو۔‘‘
گھر آکر سکینہ سے بات کی تو اس نے بھی ہمیشہ کی طرح فضل الٰہی کی تائید کی۔ ’’ایسے سمجھانے آجاتے ہیں… خود محنت کی ہو راتوں کو جاگ جاگ کر، بارش کی بوندوں کو ترسے ہوں، دن کو دھوپ کھا کھا کر کھیتوں میں کام کیا ہو تو پتا چلے کہ کس کس کو کیا دینا ہے، کس طرح دینا ہے، کیوں دینا ہے۔ ہونہہ! آجاتے ہیں مولوی بن کے۔ دو چار کتابیں کیا پڑھ لیتے ہیں عالم فاضل بن جاتے ہیں۔ دوسروں کی مجبوریوں کو سمجھتے ہی نہیں۔‘‘
پھر چاندی کی طرح چمکتی کپاس اور سبز لہلہاتی فصلوں پر بارش شروع ہوئی۔ اتنی خاموش بارش اور اتنی زیادہ بارش جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ دن رات بارش۔ چھ چھ دن کی بارش۔ ہر طرف پانی ہی پانی۔ حکومتی عہدیدار کہتے تھے کہ ہمارے پاس مُردے نہلانے کے لیے پانی نہیں… اللہ نے اتنا پانی برسایا کہ صدیوں پرانے مُردے بھی باہر آگئے، پانی کہیں نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ کئی کئی فٹ اونچا پانی۔ پہلے تو لوگوں نے کہا سب ٹھیک ہوجائے گا، ہماری فصلیں بھی، گھر بھی سب کچھ بچ جائے گا۔ مگر جب پانی چڑھتا ہی چلا گیا تو صرف زندگی بچانے کی فکر لاحق ہوگئی۔ نہ فصلیں یاد رہیں، نہ گھر کا سامان۔ اپنی اور بال بچوں کی جان بچانے کی فکر تھی سب کو۔ وہ سکینہ تھی یا چھیمو تھی، اللہ وسائی تھی یا میداں دائی تھی… ہر طرف نفسانفسی۔ چھتوں پر چڑھ کے بیٹھ گئے۔ بھوک پیاس، بے بسی اور خوف نے اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔ ایسے میں شہر سے امدادی ٹیمیں آئیں، کشتیوں پر بٹھاکر لوگوں کو پانی میں سے نکالا، محفوظ جگہ پر لے گئے۔ انہیں کھانا، پانی دیا۔ ان سب کی مدد کرنے والوں میں نوید بھی تھا۔ فضل الٰہی نے اسے دیکھا تو بلک بلک کر اس کے سامنے رونے لگا۔ نوید نے سب کو تسلی دی۔
’’نوید پتر ہمارا کچھ نہیں بچا، جس پھٹی کی آمدن سے ہم گھر کی حالت بہتر کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے وہ بھی تباہ ہوئی، ساتھ گھر بھی گیا۔ زندگی بچی ہے۔ کوئی سامان نہیں، گھر نہیں، مال مویشی نہیں۔ ایک ایک لاکھ کی بھینس تھی جو پانی میں بہہ گئیں۔ ہمارا اشرف تو بڑا تھا، بھوک پیاس برداشت کرگیا۔ میداں دائی کے دو بچے بھوک سے بلک بلک کر فوت ہوگئے، اسے صبر آہی نہیں رہا۔ سب کچھ تباہ ہوگیا۔ نوید پتر! ہمارا تو کوئی آسرا ہی نہیں، کوئی ٹھکانہ ہی نہیں رہا۔‘‘
’’چچا! آپ فکر نہ کریں، اللہ کا شکر کریں زندگی بچ گئی۔ آپ اللہ سے توبہ کریں۔ صدقہ خیرات دینے کے لیے لکھ پتی ہونا ضروری نہیں۔ اپنی دو روٹیوں میں سے ایک روٹی بھی دوسرے کو دے کر اللہ کو خوش کیا جاسکتا ہے۔ آپ کہتے ہیں فصل ہماری، محنت ہماری، بیج ہمارا… آپ بتائیں کس چیز کو بچانے کا اختیار ملا آپ کو؟ نہیں ملا! آپ اللہ کا شکر ادا کریں اور کثرت سے استغفار کریں، سب کچھ واپس مل جائے گا۔ حکومت اور تنظیمیں بڑی امداد کررہے ہیں۔ آپ ان شاء اللہ بہت جلد اپنے پائوں پر کھڑے ہوجائیں گے۔ لیکن ایک وعدہ اپنے رب سے آپ کو کرنا ہوگا۔‘‘
’’وہ کون سا وعدہ پتر! تُو جو کہے گا میں کروں گا۔‘‘
’’چچا! اللہ تعالیٰ کو سب کچھ ماننا ہی انسان کا کام ہے۔ محنت کرتا ہے، اسے محنت کرنی بھی چاہیے، لیکن اسے یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ محنت میں کرتا ہوں تو سب کچھ کا مالک بھی میں ہوں۔ بالکل نہیں۔ چچا! مالک اور مختار وہی ہے۔ صرف اللہ ہے جو فصل اُگاتا ہے، جو رزق دیتا ہے، جو محنت کا پھل دیتا ہے۔ تو اب اپنی فصل کا عشر نکالا کرو گے، یہی وعدہ اپنے رب سے کرنا ہے سچے دل سے۔ اب کوئی گھمنڈ‘ کوئی بے ایمانی اور کوئی فضول کی بات نہیں ہوگی۔‘‘
فضل الٰہی نے سب کچھ گنواکر ایک بات سیکھ لی اور اپنے رب سے سچا وعدہ کرلیا، تو رب نے بھی دنوں میں اس کی حالت بدل کر مایوسی سے نکال دیا۔ انسان کی یہ فطرت ہے، آسانی سے سمجھ نہیں سکتا کہ اسے کون کیا دے رہا ہے۔

حصہ