کانٹوں کی راہ

777

شاہ جہاں رشید
’’دیکھو آسیہ! جس راستے پر تم چل رہی ہو یہ ایک ایسی کھائی کی طرف جاتا ہے جس میں گر کر انسانی جسم کے پرخچے اُڑ جاتے ہیں، اس طرح کہ نشان تک نہیں ملتا، اور اس کی لاش کو گِدھ نوچ نوچ کر کھاتے ہیں۔‘‘
’’یہ آپ کیسی ہولناک باتیں کررہی ہیں خالہ جان! میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔‘‘
’’اچھا تو میں آسان الفاظ میں سمجھا دیتی ہوں۔ جو کچھ تم کررہی ہو، یہ تمہیں تو تباہ کرے گا ہی، مگر تمہارے پیچھے تمہارے ماں باپ، بھائی اور بہنوں کو بھی لے ڈوبے گا، ان کے سر شرمندگی سے ایسے جھکیں گے کہ پھر کبھی اٹھ نہیں سکیں گے، تمہاری بہنوں کے رشتے کبھی نہیں ہوں گے، معاشرہ تمہارے بھائی کو زندہ درگور کردے گا۔ اور ایک آخری بات، ایسے لڑکے اور مرد رنگین خواب دکھا کر وقتی مزے لوٹتے ہیں، فائدے حاصل کرتے ہیں، مگر شادی ایسی لڑکی سے کرتے ہیں جس پر کبھی کسی کا سایہ بھی نہ پڑا ہو۔‘‘
’’لیکن احمد ایسا نہیں ہے۔‘‘ آسیہ چمک کر بولی۔
’’ٹھیک ہے، پھر تم اُس سے کہو کہ سیدھا سیدھا تمہارا رشتہ لے کر اپنے بڑوںکو بھیجے، میں اس سلسلے میں تمہاری مدد کروں گی۔‘‘
دو دن گزرے، میں انتظار کرتی رہی۔ ایک ہفتے بعد آسیہ آئی، چہرے پر زردی چھائی ہوئی، ہونٹ پپڑی زدہ۔ میں اسے دیکھ کر حق دق رہ گئی۔ کہاں تو ہر وقت نک سک سے تیار، ہر دم میک اَپ کیے ہوئے، ہنستی مسکراتی، قہقہے لگاتی آسیہ… اور کہاں یہ برسوں کی مریضہ نظر آنے والی لڑکی! میرے پوچھنے کی دیر تھی کہ اس نے ہچکیوں سے رونا شروع کردیا۔ ’’ارے… ارے کیا ہوا؟‘‘ میں گھبرا گئی، ملازمہ سے پانی منگوا کر زبردستی پلوایا۔ جب اس کی حالت ذرا سنبھلی تو میں نے اس سے کہا کہ ’’اب شروع سے آخر تک سب کچھ کہہ ڈالو۔‘‘
’’ایک روز میں چھٹی کے بعد اسکول سے واپس آرہی تھی، ویسے تو میرے ساتھ کئی لڑکیاں ہوتی ہیں، لیکن ایک ایک کرکے سب کے گھر آتے جاتے ہیں، آخر میں مَیں اکیلی رہ جاتی ہوں۔ میرا گھر ذرا فاصلے پر ہے۔ میں تیز تیز چل رہی تھی، اچانک ایک لڑکا کہیں سے نکلا اور میرے ساتھ چلنے لگا۔ باتیں کرنے کی کوشش کی، میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ جیسے ہی میرا گھر نظر آیا، میں بھاگ کر گھر پہنچی۔ دروازہ میرے انتظار میں کھلا ہوتا ہے، میں جلدی سے اندر داخل ہوئی اور دروازہ بند کرکے کنڈی لگا لی۔ دو گلاس پانی پی کر میری حالت کچھ ٹھیک ہوئی۔ میں کپڑے بدل کر باورچی خانے میں آگئی۔ امی کھانا نکال رہی تھیں۔ میں نے کھانا میز پر لگوایا اور ہم دونوں نے کھانا کھایا۔ امی نے میری طرف غور سے دیکھا، پھر کہنے لگیں: تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟ میں نے سر درد کا بہانہ بنایا۔ امی نے کھانے کے بعد مجھے درد کی گولی کھلائی اور سونے کی تاکید کی۔
بھائی تو ورک شاپ سے شام کو ہی آتا ہے، اور چھوٹی بہنیں اپنے کھلونوں سے کھیل رہی تھیں۔ میںخاموشی سے لیٹ گئی اور آج کا واقعہ سوچ کر پھر سے خوف زدہ ہوگئی۔ شام تک ایسی ہی کیفیت رہی۔ پھر بہنوں کو ساتھ بٹھاکر ہوم ورک کروانے اور اپنا ہوم ورک کرنے لگی۔ رات کو بھائی آیا تو پھر سب نے ایک ساتھ کھانا کھایا۔ نیند اس وقت بھی مشکل سے ہی آئی۔
اگلے دن پھر وہ لڑکا اچانک سامنے آیا اور زبردستی پرچہ ہاتھ میں پکڑا کر چلا گیا۔ میں نے بڑی مشکل سے گھر کا راستہ طے کیا اور ڈرتے ڈرتے گھر میں قدم رکھا، اور پرچہ جو جیب میں چھپایا تھا اس کی موجودگی کا یقین کیا، اور جلدی سے باتھ روم میں گھس گئی۔ کپڑے بدلے، اور وہیں کھڑے کھڑے پرچہ پڑھا۔ بہت کچھ نیا نیا لگا۔ اچھا بھی لگا۔ اس پر اس کا نام احمد لکھا تھا۔
پھر یہ روز کا معمول بن گیا۔ روز ایک پرچہ میری مٹھی سے جیب میں منتقل ہوجاتا۔ گھر آکر میں اسے پڑھ کر جلا دیتی تاکہ کبھی کسی کے ہاتھ نہ لگ سکے۔
اُس روز جب میں آپ سے بات کرکے گئی تو اگلے دن میں نے پرچہ لینے کے بجائے اس سے کہا کہ اب یہ سلسلہ ختم کرو، اگر مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو تو اپنے گھر والوں کو میرا رشتہ لے کر بھیجو۔
اس سے اگلے دن اس نے مجھے زبردستی پرچہ دیا اور کہا پہلے اسے پڑھ لو، پھر بات کریں گے۔ میں نے گھر جاکر پرچہ پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ اوّل تو میرا اپنا کوئی ہے نہیں، اور جن کے ساتھ میں رہتا ہوں وہ میری کوئی ذمے داری نہیں اٹھائیں گے کیوں کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی میرے ساتھ کرنا چاہتے ہیں، اب ایک ہی راستہ ہے کہ میں خود ہی اپنا رشتہ لے کر آجائوں، میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تمہارے والد نہیں ہیں، ایک بھائی ہے جو صبح کا گیا رات کو آتا ہے، چھوٹی بہنیں ہیں، اس لیے ایسا کوئی پرابلم نہیں ہے۔
میں نے پرچہ جلا دیا اور اسے اپنے گھر آنے کی دعوت دے دی۔ شام کو ہی وہ گھر آگیا۔ ماں نے باتوں کے دوران ساری معلومات لیں۔ اگلے دن انہوں نے کسی جاننے والے کو اُس کے بارے میں پتا کروانے بھیجا تو معلوم ہوا کہ یہ لڑکا کوئی کام کاج نہیں کرتا، محلے میں دادا گیری کرتا ہے، لڑکیوں کو بے وقوف بناتا ہے، انہیں بدنام کرتا ہے۔ شریف لوگ عزت کے ڈر سے راتوں رات گھر بدل لیتے ہیں، جو ایسا نہ کرسکیں انہیں یہ بہت تنگ کرتا ہے، ان کا جینا حرام کردیتا ہے۔
میری امی نے تو اپنا سر پیٹ لیا اور اگلی مرتبہ اس کے منہ پر ہی انکار کردیا۔ اُس وقت تو وہ خاموشی سے چلا گیا لیکن دراصل وہ کوئی پلاننگ کررہا تھا۔
کل اس نے مجھے پھر زبردستی ایک پرچہ دے دیا۔ وہ میں جلا نہ سکی بلکہ ساتھ لائی ہوں، آپ خود پڑھ لیں۔‘‘
اس میں لکھا تھا: ’’میں نے تمہارے سارے خطوط کی کاپیاں ایک فائل میں لگا لی ہیں، ہر خط کے ساتھ تمہارا جوابی پرچہ بھی ہے، اب تم پوچھو گی کیسے؟ تم نے تو کوئی خط مجھے لکھا ہی نہیں، تو آئو میں تمہیں بتائوں، جس طرح تمہارا نام اور پتا میں نے معلوم کروایا، اسی طرح تمہاری کاپی سے لکھا ہوا ایک صفحہ نکلوانا کون سا مشکل تھا! پھر اس سے ایک ماہر کی خدمات حاصل کرکے ہر خط کا جواب تمہاری طرف سے لکھوایا۔ اب ہر خط کے ساتھ ایک کاپی جواب کی بھی منسلک ہے۔ اگر تم نے میری بات نہ مانی تو میں اس کی کاپیاں کرواکر ایک تمہارے گھر، اور باقی محلے میں بھجوا دوں گا۔ سوچو پھر تمہارا اور تمہارے گھر والوں کا کیا انجام ہوگا؟ اب آخری بات، میرے ساتھ بھاگ چلو، ہم کورٹ میں شادی کرلیتے ہیں، پھر تمہاری ماں اور بھائی سب ہمیں قبول کرلیں گے… تمہارے پاس دو دن ہیں، سوچ کر مجھے جواب دو، ورنہ تمہارے گھر ڈاکا پڑے گا، تمہارا بھائی مارا جائے گا، تم اغوا کرلی جائو گی، تمہاری ماں اور بہنیں زندہ درگور ہوجائیں گی۔ (تمہارا احمد)‘‘
’’ایسا کرو یہ پرچہ میرے پاس چھوڑ جائو اور خاموشی سے گھر جائو، اور ایک دو دن تک گھر سے باہر نہ نکلنا، کوئی بھی آئے دروازہ نہ کھولنا، بھائی سے کہنا کل شام کو ورکشاپ سے سیدھا میرے پاس آئے، میں خود سنبھال لوں گی۔‘‘
آسیہ کے جانے کے بعد میں نے اپنے دیورکے بیٹے کو فون کرکے بلوایا۔ وہ مقامی تھانے میں ایس ایچ او ہے، اس کے سامنے ساری صورت حال رکھی اور پرچہ اس کے حوالے کردیا۔ اس نے کہا: بڑی امی! اب آپ اس بات کو بالکل بھول جائیں، اس معاملے کو اب میں خود دیکھ لوں گا، البتہ آپ کوشش کرکے اس کے بھائی کو سرِشام ہی اپنے ہاں بلوا لیجیے گا۔
اس نے سارے معاملے کو بہت اچھی طرح نمٹایا کہ سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹی، اور میں سوچنے لگی کہ جہاں کوئی اثر رسوخ والا نہ ہوتا ہوگا وہاں معاملے کیا ہوتا ہوگا؟ غریب اور بے آسرا کے لیے ریاست ماں کا کردار کیوں ادا نہیں کرتی؟

حصہ