میں نے سورۃ البقرۃ کو کیسے سمجھا

768

مریم شہزاد
قرآن کی تفسیر پڑھتے ہوئے مجھ کو خیال آیا کہ کیوں ناں اس سورۃ کو میں نے جس طرح سمجھا، اس کو مختصراً تحریر کروں۔ جیسے کہ ہم بچپن میں اسباق کا مرکزی خیال لکھتے تھے اسی طرح سورۃ البقرہ کا مرکزی خیال لکھوں۔ گو کہ اتنی قابلیت نہیں کہ سمندر کو کوزے میں بند کرسکوں، مگر ایک ادنیٰ سی کوشش کی ہے۔ سب لوگوں سے درخواست ہے کہ وہ بھی اپنے تجربات سے آگاہ کریں۔ تو شروع کرتی ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے، اور جس کی توفیق سے میں یہ لکھنے کے قابل ہوئی۔
یہ سورۃ مدنی ہے، سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب قرآن مجید ہدایت پانے والوں کے لیے یعنی متقیوں کے لیے ہے، تو جو کوئی چاہتا ہے کہ ہدایت حاصل کرے اُسے چاہیے کہ قرآن سیکھے اور اس پر عمل کرے۔
اس سورۃ میں بنی آدم کے وجود میں آنے کا تذکرہ ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کو دنیا میں بھیجا گیا تو ان کو علم دیا گیا اور چیزوں کے نام سکھائے گئے، اور علم کی بنیاد پر ہی ان کو فضیلت دی گئی اور سجدے کا حکم ہوا۔ مگر ابلیس نافرمانی کرکے شیطان مردود کے عہدے پر فائز ہوا اور اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرتے ہوئے قیامت تک انسانوں کو بہکانے کا عہد کیا، جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شیطان کے راستے پر وہی لوگ چلیں گے جو قرآن کے راستے سے بھٹکے ہوئے ہوں گے۔
اس سورۃ میں بنی اسرائیل کا ذکر تفصیل سے موجود ہے کہ انہوں نے حضرت موسیٰؑ کی تعلیم و تبلیغ سے ایمان لانے کے بعد، اور کتنی ہی دفعہ ان پر نعمتوں کا نزول ہوا مگر وہ حیل و حجت کرتے گئے اور نافرمانیاں اور من مانیاں کرنا اپنا شیوہ بنا لیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو فرعون کے ظلم سے نجات دی، من و سلویٰ اتارا، بادلوں کا سایہ کیا، تورات نازل کی، مگر پھر بھی وہ شکر گزار نہیں ہوئے۔ ان کی اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے ان سے امامت چھین لی گئی اور بنی اسماعیل کے حوالے کردی گئی۔ اس سورۃ میں بنی اسرائیل کی گائے کا ذکر ہے جس کی وجہ سے علامت کے طور پر اس سورۃ کو سورۃ البقرہ کہا جاتا ہے۔ یہ سورۃ دراصل امامت کی تبدیلی کی سورۃ ہے۔
اس سورۃ کا زیادہ حصہ مدینہ میں نازل ہوا۔ یہ احکامات کی سورۃ ہے۔ اس میں تقریباً 250 احکامات کا ذکر ہے۔ انسان کی نجی زندگی سے لے کر ملک کی سیاست تک تقریباً سب کا ہی ذکر ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، قبلہ کی تبدیلی، سود، شراب، انفاق، جہاد، قتال، قرض، توبہ، طہارت، قصاص وراثت تقریباً ہر مسئلے کو مختصراً یا تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔ جو موضوعات مختصراً بیان کیے گئے ہیں اُن کی تفصیل آگے سورتوں میں درج ہے، یعنی ہر مسئلے کو ہم قرآن کے ذریعے حل کرسکتے ہیں اور اس کی حکمت بھی اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہے۔
اس سورۃ میں جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ صرف دنیا ہی نہیں مانگنا، بلکہ ساتھ ساتھ آخرت بھی مانگنی ہے، وہیں اللہ تعالیٰ کا مکمل تعارف بھی آیۃ الکرسی کی صورت میں موجود ہے۔ آیتہ الکرسی وہ جامع آیت ہے جو اللہ کی کبریائی کو مکمل طور پر بیان کرتی ہے اور اس کی وسیع حکومت اور نگرانی کا پتا دیتی ہے، اور اس کی بادشاہی کا اعتراف ہے کہ وہی ہے اللہ جس کے آگے سب بے بس ہیں۔
آخر میں اس سورۃ کا اختتام اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور جامع دعا کے ساتھ کیا گیا ہے۔ آخری دو آیتیں ’’خواہتم البقرہ‘‘ کہلاتی ہیں۔ ان دو آیتوں کے بہت سے فضائل ہیں اور یہ جنت کے خزانوں میں سے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ سب ہدایات یاد کریں۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم کو قرآن مجید درست طریقے پر سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس پر عمل کرنے والا بنائے۔

گفتگو کا سلیقہ

مرسلہ: اریج شاہد
ایک دفعہ ہارون رشید نے خواب میں دیکھا کہ میرے بہت سے دانت ٹوٹ کر گر پڑے ہیں۔ صبح ہوئی تو عالموں کو بلا کر خواب کی تعبیر پوچھی۔ایک شخص نے کہا آپ کے اکثر عزیز آپ کے سامنے مر جائیں گے۔ یہ بات ہارون رشید کو اس قدر ناگوار گزری کہ اس شخص کو اسی وقت دربار سے نکلوا دیا۔ پھر دوسروں سے پوچھا اور جواب سے ناخوش ہو کریہی سلوک کیا۔ آخر ایک موقع شناس درباری نے عرض کیا ’’جہاں پناہ! حضور کا خواب بہت مبارک ہے جس کی تعبیر یہ ہے کہ خدا حضور کو ایسی لمبی عمر عطا فرمائے گا کہ حضور کے جیتے جی شاہی خاندان میں خوشیاور غم کی اکثر رسمیں انجام پائیں گی۔‘‘دانا کے اس جواب سے ہارون رشید خوش ہوگیا اور انعام و خلعت دے کر ارشاد فرمایا ’’میں خوب سمجھتا ہوں کہ مطلب سب کا ایک ہی ہے‘ مگر بیان کرنے کا ڈھنگ جدا جدا ہے‘ آخری درباری کو گفتگو کو سلیقہ ہے جو دوسروں میں نہیں۔

حصہ