خوشگوار زندگی کا راز

1506

ام عبد اللہ بن عمر
گھر بنتا ہے مرد اور عورت سے، نکاح ایک خاندان کی بنیاد ہے۔ اگر نکاح نہ ہو تو خاندان وجود میں نہ آئیں اور نہ انسانی ماحول اور معاشرہ بن سکے۔ اس لیے اسلام نے نہ صرف نکاح کی ترغیب دی ہے بلکہ نکاح کے بعد ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنانے کا حکم دیا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی میں ہمارے لیے مکمل راہنمائی موجود ہے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’مومنوں میں کامل ایمان والا اپنی عورتوں کے ساتھ حسن اخلاق والا ہے اور تم میں سے پسندیدہ وہی ہیں جو اپنی عورتوں کے نزدیک پسندیدہ ہیں۔‘‘
آپؐ اپنی ازواج کے ساتھ کتنا حسن اخلاق اور خوش اسلوبی سے رہتے تھے اس کا انداز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس بات سے ہوتا ہے، فرماتی ہیں کہ، ’’ایک دفعہ چند حبشی نوجوان نیزہ بازی کھیل رہے تھے کہ آقاؐ نے مجھ سے فرمایا اے عائشہ! کیا تم ان حبشی کھلاڑیوں کا کھیل دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے کہا جی ہاں! آپؐ دروازے پر خود کھڑے ہوگئے اور میں آکر آپؐ کے پیچھے کھڑی ہوگئی اور آپؐ کے پیچھے کندھا مبارک اور کان مبارک کے درمیان سر کرکے دیکھتی رہی، آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اس روز مجھے لوگوں کا یہ جملہ یاد آیا کہ ابو القاسم بہت عمدہ اخلاق والے ہیں‘‘۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ! اب کافی ہے میں نے کہا یارسول اللہؐ جلدی نہ کیجیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے کھڑے رہے پھر کچھ دیر بعد فرمایا اب کافی ہے میں نے کہا یارسول اللہؐ! جلدی نہ کیجیے۔
اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آقاؐ کیسے اپنی ازواج کی خوشی کا خیال فرماتے تھے اور دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ صرف مرد پر منحصر نہیں کہ وہی ازدواجی تعلقات کو خوشگوار بنائے عورت کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ خندہ پیشانی، محبت اور اپنائیت سے پیش آئے۔
میاں بیوی جب تک ایک دوسرے کو سمجھ کر ایک دوسرے کی پسند نا پسند کا خیال رکھ کر چلیں تو زندگی اچھی گزرتی ہے۔ اگر دونوں اپنی مرضی کے مطابق چلیں شوہر بیوی کی پسند کو نظر انداز کردے اور بیوی نے کبھی شوہر کی پسند پوچھی ہی نہ ہو وہاں ازدواجی زندگی سے لطف اندوز کیسے ہوا جاسکتا ہے؟ خوشگوار زندگی کے لیے ازحد ضروری ہے کہ اپنی پسند پر دوسرے کی پسند کو ترجیح دی جائے۔
اسی طرح ایک دوسرے کی غلطیوں اور خامیوں کو بھی نظر انداز کرکے زندگی کو حسین بنایا جاسکتا ہے کیونکہ طبعی گرانی انسانی طبیعت کا تقاضہ ہے۔ آپؐ اور آپ کی ازواج میں بھی طبعی گرانی ہوجاتی تھی جیساکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرماتے تھے، ’’اے عائشہ! جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو تو مجھے پتا چل جاتا ہے‘‘۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا، ’’کیسے‘‘؟ ارشاد فرمایا، ’’جب تم خوش ہوتی ہو تو قسم کھاتی ہو، و ربِ محمد اور جب ناراض ہوتی ہو تو ، وربِ ابراھیم کہتی ہو‘‘۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا، ’’یارسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم! میں فقط آپ کا نام ہی تو چھوڑتی ہوں ورنہ آپ کی محبت تو میرے دل سے جدا نہیں ہوتی‘‘۔
غور کیجیے آقاؐ اور اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا میں کتنی محبت تھی؟ مگر پھر بھی طبعی گرانی کبھی نہ کبھی آہی جاتی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ صورت حال انہونی نہیں اور نہ کوئی بڑی بات ہے ہاں البتہ ایسی صورت حال کو لے کر نامناسب معنی کا جامہ پہنانا خطر ناک ہے۔ اسی سے معاملات بگڑتے ہیں،حالات خراب ہوتے ہیں اور گھر اجڑ جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں بڑی ذمے داری مرد کی ہے کہ وہ اپنے رویے کو لچکدار اور حکیمانہ رکھے سخت مزاجی سے کام نہ لے کیونکہ عورت صِنَفِ نازک ہے اس پہ بے جا سختی سے فائدہ نہیں بلکہ نقصان کا اندیشہ ہے۔بعض اوقات آدمی سختی پہ اتر آتا ہے اور عورت کے رویے جو اس کی طبیعت کاحصہ ہیں انھیں ختم کرنا چاہتا ہے۔ یہ غلط سوچ ہے اس کی مثال تو ایسے ہے کہ ایک بادشاہ کا باز اڑ کرکسی بھولی بڑھیا کے گھر جا بیٹھا بڑھیا نے دیکھا تو کہنے لگی کیسا خوبصورت پرندہ ہے لیکن پتا نہیں کس بے قدرے کے پاس رہا ہے جس نے اس کا خیال نہیں کیا کہ اس کی چونچ ٹیڑھی ہوگئی۔ بے چارہ کھاتا کیسے ہوگا؟ اس کے ناخن کتنے بڑھے ہوئے ہیں اس کو چلنے میں کتنی تکلیف ہوتی ہوگی۔
بوڑھی اماں کو بہت ترس آیا اس نے قینچی اٹھائی اور اس کی چونچ بھی کاٹ دی اور ناخن بھی کاٹ دیے۔ بادشاہ کے نوکر جب باز کو تلاش کرتے کرتے بڑھیا کے گھر پہنچے تو باز کو دیکھ کر حیرت سے پوچھنے لگے اماں یہ کس نے کیا؟ اماں نے بڑے فخریہ انداز میں بتلایا کہ میں نے کیا ہے تم نے تو اس کے ساتھ ظلم کررکھا تھا۔ شاہی نوکروں نے سر پِیٹ کے کہا او اماں! یہی ٹیڑھی چونچ اور لمبے ناخن ہی تو اس کا حسن و جمال تھے جو تونے کاٹ ڈالے اب یہ بیکار ہوگیا ہے۔
ایسے ہی عورت کی حساسیت اور نزاکت اس کا کمال ہے۔ اگر عورت میں سے ان چیزوں کو ختم کردیا جائے تو وہ بیکار ہوجائے گی۔ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ، ’’عورت ٹیڑھی پسلی سے پیداکی گئی ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کروگے تو یہ ٹوٹ جائے گی اور اگر اسے اس کے حال پہ چھوڑ دوگے تو یہ مزید ٹیڑھی ہوتی چلی جائے گی اس لیے اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرو۔‘‘

حصہ