کم عمری کی شادی

801

ملک شاہ زیب احمد
اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے آج 70 کروڑ سے زائد کم عمری میں شادی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ رہا تو 2030 تک ان کی تعداد 95 کروڑ ہو جائے گی۔ بین الاقوامی ادارے سیو دی چلڈرن نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ہر سات سیکنڈ میں 15 سال سے کم عمر ایک بچی کی شادی ہوجاتی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کم عمر کی شادی سے کسی لڑکی کی پوری زندگی متاثر ہوسکتی ہے۔ سیو دا چلڈرن انٹرنیشنل کے چیف ایگزیکٹو کا کہنا ہے کہ، ’’کم عمری میں شادی سے ناموافق صورت حال کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اس سے سیکھنے نشوو نما پانے اور بچہ رہنے کے لڑکیوں کے بنیادی حقوق کی پامالی ہوتی ہے۔ جن لڑکیوں کی جلدی شادی ہوجاتی ہے وہ عام طور پر تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں اور ان کے ساتھ گھریلو استحصال جیسے واقعات بھی بڑھنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔
رپورٹ میں دنیا کے ممالک کی درجہ بندی بھی کی گئی ہے۔ کہا گیا ہے جنگی صورتحال سے دوچار ممالک میں لڑکیوں کے تحفظ کی خاطر کم عمری میں ان کی شادی کردی جاتی ہے کہ پناہ گزین خاندان اپنی بچیوں کو غربت اور جنسی استحصال سے بچانے کے لیے بھی ان کی جلدی شادی کردیتے ہیں۔ اب بات ہوجائے وطن عزیز پاکستان کے بارے میں عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 21 فیصد بچیوں کی کم عمری میں ہی جبراً شادی کردی جاتی ہے۔ کم عمری کی شادی کی سب سے زیادہ شرح صوبہ سندھ اور قبائلی علاقوں میں ہے۔ کم عمری کی شادی زیادہ تر ترقی پذیر ممالک جنگ زدہ علاقوں اور گاؤں دیہات میں انجام پاتی ہے۔ عالمی ادارے کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں کم عمر کی شادیوں کا رجحان بہت زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق سن2011ء سے دس سال کے عرصے میں کم عمری کی شادیوں کا شکار بچیوں کی تعداد 14کروڑ ہوگئی ہے۔ جب کہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 21 فیصدکم عمر بچیاں بلوغت کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی بیاہ دی جاتی ہیں اور ان میں سب سے زیادہ تر کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے۔ کم عمری کی شادیوں کی سب سے زیادہ شرح صوبہ سندھ میں ہے جہاں 75 فیصد بچیوں اور پچیس فیصد بچوں کی جبری شادی کردی جاتی ہے۔ انفرادی طور پر کم عمری کی شادی کا سب سے زیادہ رجحان قبائلی علاقوں میں ہیں جہاں 90 فیصد بچیاں کم عمری میں بیاہ دی جاتی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کسی ایسے کی شادی کرنا جو ابھی رضا مندی کا اظہار کرنے کے قابل بھی نہ ہو بچوں اور بچیوں دونوں کی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
کم عمری کی شادی کا یہ غلط رجحان صرف پاکستان میں ہی موجود نہیں بلکہ دنیا بھر میں ایک کروڑ 50 لاکھ شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں دولہن کی اٹھارہ سال سے عمر کم ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ہر تین میں سے ایک لڑکی کی جبراً کم عمر میں شادی کردی جاتی ہے۔ کم عمر کی شادی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ لڑکی چاہے جسمانی اور ذہنی طور پر تیار نہ ہو تب بھی حاملہ ہو جاتی ہے۔ کم عمری کے باعث بعض اوقات طبی پیچیدگیاں بھی پیش آتی ہیں جن میں سے لڑکی اور بچوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں کیونکہ کم عمری کی شادی زیادہ تر ترقی پذیر ممالک اور جنگ زدہ علاقوں اور گاؤں دیہات میں انجام پاتی ہیں اور یہاں طبی سہولیات کا ویسے ہی فقدان ہوتا ہے۔ لہذا ماں اور بچے دونوں کی طبی مسائل کا سامنا ہوتا اور آگے چل کر کئی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے۔ یہ رپورٹ عالمی اداروں کی جانب سے شائع شدہ رپورٹ کے مطابق ہیں۔
وطن عزیز پاکستان میں سابقہ حکمران جماعت مسلم لیگ نون کے رکن پارلیمان ماروی میمن نے سال 2016 میں کم عمر کی شادیاں روکنے کے لیے قانون میں ترمیم کے لیے بل جمع کروایا تھا جس سے پارلیمنٹ نے منظوری میں ناکامی کی وجہ بتاتے ہوئے ماروی میمن نے ایک غیرملکی نشریاتی ادارے کو بتایا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے قانون پر اپنی تجویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ،’’ اسلامی ریاست میں شادی کے لیے کم سے کم عمر مقرر کرنا توہین رسالت کے مترادف ہے‘‘۔ اس وقت مذہبی امور کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ اسلامی روایات کے تحت کم عمری کی شادی کو جرم قرار دینا غیر اسلامی ہے کیونکہ اسلامی تاریخ میں کم عمری میں نکاح کی کئی مثالیں موجود ہیں اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل وزارت مذہبی امور کے حکام موجود تھے پاکستان میں چاہیے میرج ایکٹ 1929 کے مطابق لڑکے کی شادی کی شادی کی کم سے کم عمر 18 سال جب کہ لڑکی کے لیے شادی کی کم سے کم عمر 16 سال ہے قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ایک ماہ کی قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ ہوسکتا ہے۔
ماروی میمن اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ،’’ انہوں نے کم عمری میں شادی کے خلاف قانون میں موجود سخت بنانے کی تجویز دی تھی تاکہ کم عمر لڑکیوں کی شادی کو کم کیا جائے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کم عمر میں شادی کی وجہ سے زچگی کے دوران اموات کی شرح دوسرے ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے اور شادی کے لیے لڑکی کی عمر کم سے کم 18 سال مقرر کرنے پر اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا کہ یہ غیر اسلامی ہے اور توہین رسالت کے زمرے میں آتا ہے تو ایسے میں پیچھے ہٹ جانا ہی بہتر ہے کیوں کہ پھر بات کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ جب کہ ترمیمی قانون میں تجویز کی گئی تھی کہ کم عمر لڑکے یا لڑکی کی شادی میں ملوث افراد کی سزا کو بڑھا کر دو سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے ۔اکتوبر 2017 میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے کم عمر کی شادی کا بل منظور کرلیا جس کے مطابق لڑکی کی شادی کی عمر 16 سال سے بڑھا کر 18سال کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔

حصہ