شیطانی مجسمہ اور سوشل میڈیا

809

سوشل میڈیا پر سانحہ ساہیوال کے حوالے سے مستقل اپ ڈیٹ اب بھی جاری ہیں، اس پر جتنی بات کی جائے کم ہوگی۔اس کے لیے جو سب سے زیادہ مناسب اصطلاح استعمال ہوئی وہ ’حکمرانوں کی بدترین سفاکی ‘ کی تھی ۔خصوصاً جب سینیٹ کمیٹی کے عدالتی کمیشن والے مطالبے کو وزیر اعلیٰ پنجاب نے یکسر رد کر دیا اور گرفتار سی ٹی ڈی اہلکاروںنے بیان ہی بدل لیا کہ انہوں نے کوئی فائرنگ نہیں کی۔اس سے قبل ایسے ہی کئی واقعات پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سفاکی بتلانے کے لیے پاکستان کی تاریخ میںرقم ہوئے ہیں۔ ان تمام کو سماجی میڈیا پر نمایاں طور پر یاد دلایا جاتارہا جن میں خروٹ آباد (کوئٹہ 4نہتی خواتین )، بے نظیر بھٹو پارک کراچی، نقیب اللہ محسود سر فہرست تھے ۔اہم بات یہ ہے کہ ان سب کے باوجود کچھ نہیں ہو سکا، سب اپنی جگہ اپنے آپ کو درست ہی قرار دیتے ہیں۔
اب ہم چلتے ہیں ایک اور دلچسپ واقعہ کی طرف جو مجھے کہیں اور لے گیا۔ ہوا یہ کہ کچھ روز قبل لاہور میں عجائب گھر کے باہر ایک عجیب خوفناک قسم کا مجسمہ دیکھنے میں آیا۔جس کے بعد سماجی میڈیا پر خوب شور مچا، کسی نے کچھ کہا کسی نے کچھ۔پھر شور مچنے پر حکومت نے مجسمہ اٹھوا لیا۔اب ذرا اُن تبصروں اور تجزیوں کی جانب چلتے ہیں:طہ چیمہ کہتے ہیں کہ ’’ یہ مجسمہ تعلیمی ادارے کی جانب سے اسلام کے خلاف سازش ہے۔‘‘اس کی تفصیل یوں پیش کی گئی کہ ’’لاہور کے عجائب گھر کے داخلی راستے پر نصب کیا گیا 20 فٹ طویل مجسمے نے خوب ہلچل مچائی ، مجسمے کے بارے میں سوالات اُٹھنا شروع ہوگئے ہیں کہ کس نے نصب کیا اور کیوں کیا اور اس کی تاریخ کیا ہے۔اس مجسمے کے 2 بڑے سینگوں میں ایک سینگ ٹوٹا ہوا ہے، مجسمے کاخوفناک چہرہ ، ہاتھ پاؤں کی حیوانوں کی سی شباہت نے اسے شیطانی مجسمہ سے تشبیہہ دے ڈالی ۔ شہریوں میں اس کی وجہ سے کافی خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔‘‘ کہیں سے آواز آئی کہ ’’کیا یہ اسلامی مملکت ہے ، عجائب گھروں میں عجائبات رکھے جاتے ہیں وہاں شیطانی مجسمہ نصب کر دیا گیا۔یہ مدینہ کی ریاست ہے ؟‘‘۔ایک دل جلے نے کہاکہ’’ شیطانی مجسمہ لگانے کی کیا ضرورت تھی عمران خان کا مجسمہ لگا دیتے ‘‘۔اسی دوران سانحہ ساہیوال بھی ہوا اس لیے عوام نے غم و غصہ یون ظاہرکیا،’’’ لاہور میوزیم کے باہر خوفناک شیطانی مجسمہ لگانے کے بجائے سی ٹی ڈی اہلکار ہی لگا دیتے تو بات سمجھ آجاتی۔‘‘صدف خان لکھتی ہیں کہ ’سابقہ حکومت کی بیوقوفی یا سوچی سمجھی سازش۔شیطان کا مجسمہ لاہور میوزیم میں۔شیطانی مذہب کے ماننے والوں کا دیوتاہے۔‘‘چونکہ حکومت ہی ہر کام کی ذمہ دار ہوتی ہے اس لیے عوام نے اس پر خوب ہاتھ صاف کیے ،’’قادیانیوں کا دفاع۔اسرائیل کی حمایت۔ گستاخ کی آزادی۔ علماء سید زادوں کو جیل۔ شیطانی ایلومیناٹی مجسمہ نصب۔نصاب کی تبدیلی۔ کرتار پور سے قادیان کا راستہ۔پانچ فیصد قادیانیوں کا اسلامیات پڑھانا۔1100 سینمابنانے کا اعلان۔عورتوں کی سائیکل ریس۔گستاخ کی یاد میں منائے جانے والی بسنت کا اور کرسمس۔یہ ہے تبدیلی سرکار‘‘۔شروع میں یہ بات سامنے نہیں آئی تھی کہ اس مجسمہ کا راز کیا ہے ، بات پھیلی تو مجسمے کا موجد سامنے آگیا۔مگر اس کے باوجودیہ بات تواتر سے کہی جاتی رہی ۔’’لاہور میوزیم میں لگا ایک بڑا شیطانی مجسمہ پنجاب یونیورسٹی کے ایک طالبعلم نے بنایا ہے مگر افسوس کے لاہور میوزیم نے بھی اسے نمائش کی اجازت دے دی وجہ الومیناٹی اور دجال کو ایک دقیانوسی خیال سمجھنا ہے۔ پاکستان میں چند نوجوان شاید شیطان کی عبادت اور خوشنودی کو ہی کامیابی کا شارٹ کٹ سمجھتے ہیں۔ہم حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ لاہور میوزیم سے اسے فوراً ہٹایا جائے اور انتظامیہ کے خلاف کاروائی کی جائے. اس کی جگہ کسی شہید، قائداعظمؒ، علامہ اقبال،ؒ ڈاکٹر قدیر یا کسی ایسی ہستی کا بھی مجسمہ لگایاجاسکتا تھا جو پاکستان قوم کے لیے بھی خوشی کا باعث ہوتا لیکن اس مجسمہ کا مقصد صرف شیطان کی خوشنودی ہے۔شئیر کریں تاکہ بات حکومت تک پہنچے اور اس گندگی کو ہٹایا جائے۔‘‘اس دوران سماجی میڈیا پر ایک اور ویڈیو وائرل ہوئی جس میں یہ مجسمہ ایک موسیقی کے شو میں موجود ہے اور اس کے حوالے سے یہ تبصرہ تھاکہ ’’بفومیٹ بنانا محض ایک پروجیکٹ تھا؟کیااس کنسرٹ میںاس کی لانچنگ تقریب ہوچکی ہے ۔یہ شیطانی عمل ناچ گاناپنجاب یونیورسٹی میں ہوچکااس کے بعدیہ مجسمہ غالباًوہاں سے ہٹایاگیایاپھرخاموشی سے دوبارہ لایاگیاجبکہ لاہور ہائی کورٹ ایکشن لے چکی تھی۔‘‘معروف تجزیہ نگار زید زمان حامد کے آفیشل ٹوئیٹر اکاؤنٹ سے بھی ایسی ٹوئیٹ کی گئی کہ،’’یہ کس نے شیطانی مجسمہ لاہور عجائب گھر کے باہر لگایاہے؟ استغفراللہ، یہ کیاہو رہاہے؟ پتہ کریں کون اسکے پیچھے ہے۔ اسے بھاگنے نھیں دینا اب۔ یہ کوئی عام مجسمہ نہیںہے۔ صہونیوں کے خدا کا ہے جسکی یہ پرستش کرتے ہیں۔ اسکو یہاں لگانے والا کوئی بہت طاقتور نظریاتی یہودی ہے۔‘‘
ایک اور اہم پوسٹ اس ضمن میں وائرل رہی جس کا عنوان یہ تھا کہ ’’یہ تعلیمی نظریاتی جنگ نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘
لمز یونیورسٹی نے منصوبے کے تحت طلباء کو قادیانیوں سے محبت کرنا سکھایا، انہیں بتایا کہ قادیانی سے مولوی ناانصافی کرتے ہیں، وہ بے قصور ہیں ان سے محبت کرو وہ دشمن نہیں دوست ہیں۔
پھر بیکن ہاؤس نے اپنے طلباء کو سمجھایا کہ کشمیر، سکردو اور یہاں تک کہ گلگت بلتستان بھی پاکستان کے حصے نہیں بلکہ متنازعہ علاقے ہیں، کتابوں میں کشمیر کو تو کھلے عام بھارت کا حصہ پڑھایا گیا۔اس کے بعد آیا سٹی سکول، انہوں نے لڑکیوں کو کہا کہ نئے سال یعنی 2019 سے یونیفارم تبدیل ہے اور اب شلواریں اتاردو اور ٹائٹس پہن کر آؤ جبکہ سر پر دوپٹہ پہننے سے بھی منع کردیا اور ٹائٹس پر پہنے جانے والی قمیص بھی آدھی کروادی گئی یعنی عورت کا ستر مکمل ظاہر،اور اب پنجاب یونیورسٹی مستقبل کے معمار طلباء و طالبات کو شیطان پرستوں کے خدا یعنی ”دجال” سے آشنا کروا رہی ہے۔یہ اس وطن اور اسلام پر سو فیصد نظریاتی جنگ ہے۔اسے کہتے ہیں سلو پوائزن یا میٹھا زہر جو ایک نسل کے دماغ میں Slow & Steady wins the race محاورے کے تحت آہستہ آہستہ انڈیلا جاتا ہے تاکہ انہیں اپنی اسلامی اقدار سے مکمل ناآشنا کرکے انکے خیالات مکمل بدل دیے جائیں۔جب یہ بچے بڑے ہوں گے تو ان کے خیالات کیسے ہوں گے اس بارے سوچ کر ہی زبان پر یہی آتا ہے کہ الامان والحفیظ…‘‘
ایک اور پوسٹ جس میں اس جیسے مجسموں کی کئی تصاویر بھی شامل تھیں اس مجسمہ کا یہ رخ بتاتی رہی کہ ’’لاہوری مجسمے کو صیہونی پوجتے ہیں۔لاہور میوزیم میں جس شیطان کے مجسمے کو لگایا ہے اسے یورپ میں عالمی صیہونی فری میسن اور الیومیناٹی لوگ باقائدہ پوجتے ہیں۔یہ تصاویر صیہونی چرچ کی ہیں جہاں پر آپ بکرے یا خچر کے سر جیساــ’’بفومیٹ‘‘ یعنی شیطان کا مجسمہ واضح دیکھ سکتے ہیں۔نہ صرف شیطانی مجسمہ بلکہ اس چرچ میں ہر چیز صیہونی علامات اور نشانیوں کے عین مطابق بنائی گئی ہے ۔یہاں در و دیواروں سے لیکر کرسیوں، پینٹنگز اور یہاں تک کہ موم بتیوں کے ہینگرز بھی صیہونی شیطانی علامات پر مشتمل ہیں۔
اس دجال یا شیطان یا بفومیٹ کو یہودی اپنا خدا مانتے ہیں، عیسائی اسے اینٹی کرسٹ (Anti Christ) کہتے ہیں اور مسلمان اسے دجال کے نام سے جانتے ہیں۔آپ اس دجالی مجسمے کے سامنے الٹی صلیب بھی دیکھ سکتے ہیں. عیسائیوں کی نشانی سیدھی صلیب ہوتی ہے جبکہ صیہونی الٹی صلیب بناتے ہیں کیونکہ صیہونیوں کی بانی تنظیم Priory of Zion کے خفیہ سپاہیوں ”Knight Templers” کے جھنڈے پر یہی الٹی صلیب بنی ہوئی تھی۔ایک طرف صیہونیوں نے اپنے خدا شیطان کو پوجا شروع کیا تو دوسری طرف ہمارے ملک میں بیٹھے ان کے ایجنٹوں نے اسی شیطان کے مجسمے بنواکے لاہور میوزیم میں رکھوادیے،عین ممکن ہے کہ لاہور کے چھپے صیہونی اس کی پوجا کرنا شروع کردیںاور یہ بھی ممکن ہے کل کو ایسے مجسمے پورے ملک میں قائم ہر میوزیم میں رکھواکے سکول و کالج کے طلباء و طالبات کو پکنک کے نام پر شیطان سے آشنا کروایا جائے۔یاد رکھیں دنیا برے لوگوں کی وجہ سے بری نہیں بنتی بلکہ آپ جیسے اچھی لوگوں کے ایسی باتوں پر خاموش رہنے اور انہیں نظرانداز کرنے کی وجہ سے بنتی ہے… جس طرح یہ وطن میرا ہے اسی طرح آپ کا بھی ہے اور اگر آپ مسلمان ہیں تو یہ پھر یہ شیطان اور اس کے پجاری صیہونی ہمارے ”مشترکہ دشمن” ہیں.. اس لیے اس مجسمے کو نظرانداز مت کریں. اس کے خلاف جہاں ہوسکے کھل کر آواز بلند کریں….. خاموش مت رہیں…. بول کہ لب آزاد ہیں تیرے۔‘‘ نائلہ شاہد لکھتی ہیںکہ ،’’جو لوگ اس شیطانی مجسمے کو آرٹ کا شاہکار قرار دیکر اسکی وکالت کررہے ہیں ان سے عرض ہے اس شاہکار کو اپنے اپنے گھروں کے باہر ڈرائنگ روموں اور اپنے بچوں جے کمروں میں سجالیں۔۔۔۔ یہ اسلامی مملکت ہے اور یہاں اس شیطانی مجسمے کی کوئی گنجائش نہیں۔‘‘
لاہور کی ایک خاتون شہری عنبرین قریشی نے اس شیطانی مجسمے کوہٹانے اور اسلامی اقدار کے منافی قرار دینے کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست بھی دائر کی گئی جس کے بعد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔یہ بات سامنے آئی کہ یہ مجسمہ ارتباط الحسن چیمہ نامی طالب علم نے پنجاب یونیورسٹی کے کالج آف آرٹس اینڈ ڈیزئن سے اپنے فائنل تھیسز ورک کے طور پربنایاتھا۔ان کا کہنا تھا کہ اس کردار کو تخلیق کرتے ہوئے اُن کے ذہن میں شیطانیت کا کوئی تصور بھی نہیں تھا۔ اُس نے زینب واقعہ کے تناظر میں اُس وحشی پن کے اظہار کے لیے اس مجسمہ کو بنایا۔ دراصل اس کے ذریعہ وہ انسان کے اندر کا آئینہ دکھانا چاہتا تھا کہ اگر انسان اپنی اصلاح کرنا چھوڑ دے تو وہ اتنا وحشی بھی ہو سکتا ہے۔دوسری بات یہ کہ اگر اسے شیطان بولا جا رہا ہے تو شیطان تو کسی نے بھی نہیں دیکھا، تو پھر اسے کیوں شیطان کا نام دیا جا رہا ہے؟عدالت نے ریمارکس دیے کہ شیطان کو قابو کرنا ہے ہم سب کی ذمہ داری ہے شکر ہے شیطان کے خلاف کوئی تو باہر نکلا، عدالت نے نوٹس جاری کرتے ہوئے چیف سیکرٹری پنجاب اور ڈائریکٹر لاہور میوزیم سے جواب طلب کرلیا۔
بظاہر تو ارتباط کی دلیل اور جواب بہت مناسب ہے کہ اُس نے درندگی یا وحشی پن کو مجسمہ کی صورت ظاہر کرنا چاہا ۔اب زینب جیسی بچیوں کے ساتھ ہونے والی درندگی یقیناً شیطانیت ہی ہے ۔اب ارتباط نے خود بھی بغیر شیطان کو دیکھے جو چیز اپنے تخیل سے تیار کی تو وہ اتفاق سے اُسی مجسمے کی مشابہت بن کر سامنے آئی جو پہلے سے ہی شیطان سے منسوب کی جاتی ہے ۔انٹرنیٹ ، سماجی میڈیا پر شیطان ، اس کے معبد، اس کے چرچ کی بھرمار ہے ۔اس بات میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت دنیا میں شیطان کی عبادت کرنے والے بھی موجود ہیں۔شیطان کو کسی نے نہیں دیکھا مگر اس سے منسوب کردہ تمام تصاویر، مجسموں میں اُس کے دو سینگ ، بکرے کی شکل سے مشابہت ضرور دی گئی ہے۔ویسے تو یہ ایک تحقیق طلب موضوع ہے مگر ابتدائی طور پر یہ جاننا ضروری ہے کہ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے جس کا ایک ہی مشن ہے کہ انسان کو اُس کے حقیقی رب اللہ سے دور کرنا ، اس کے لیے وہ ہر قسم کا ٹول استعمال کرنے میں مکمل آزاد ہے ۔ قرآن سے تومعلوم ہوتا ہے کہ اُس نے رگوں میں دوڑنے پھرنے تک کی سہولت لی ہوئی ہے ۔اس لیے شیطان ،اس کے حربوں اور اس کے چیلوں سے ہوشیار رہناہماری ذمہ داری ہے ۔میڈیا، انٹرنیٹ بلکہ تمام ابلاغی محاذوںپر اُسے اپنا پورا کنٹرول ہے ۔اس لیے میں سمجھتا ہوںکہ لوگوں نے ہوشیار رہنے، رکھنے کے لیے اس مجسمہ کی آمد پر جو جو تشریحات کیں وہ متعلقہ مجسمہ کے حوالے سے درست نہ بھی ہوں لیکن اپنی نہاد میں ایک حقیقی موضوع ہیں۔ اس حوالے سے ہم کچھ تصاویر بھی شائع کرر ہے ہیں۔

حصہ