اسلام کی اصلاحی جنگ کا بنیادی نظریہ

424

سید مہرالدین افضل
سورۃ الانفال کے مضامین کا خلاصہ
پندرہواں حصہ
سورۃ الانفال حاشیہ نمبر: 20 سورۃ الاعراف حاشیہ نمبر :125 )
ہم آئے دن یہ وارننگ سنتے ہیں کہ شہر میں صفائی کے ناقص انتظام کی وجہ سے وبائی امراض پھوٹنے کا خطرہ ہے ، شہری صفائی کا خاص خیال رکھیں۔۔۔ معلوم ہوا کہ صفائی ستھرائی اور پاکیزگی انسانی صحت کے لیئے بہت اہم ہے۔۔۔اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مہذب معاشروں میں صفائی صرف حکومتی اداروں کا کام نہیں بلکہ یہ عام شہریوں کے مزاج کا حصہ ہے ، وہاں آپ کو کوئی بھی تھوکتا ہوا نظر نہ آئے گا! اور نہ ہی کوئی ریپر، یا استعمال شدہ چیز راہ چلتے پھیکتاں ہوا نظر آئے گا۔۔۔ بلکہ اس کے لیے وہ جگہ جگہ رکھے ہو کوڑے دان کا استعمال کرے گا۔ یہ عمل بہت قابل تعریف ہے اور اس کی جائز حد تک تعریف بھی ہونی چاہیے، اور اسے اپنانا بھی چاہیے۔ افسوس کی بات ہے، کہ صفائی ستھرائی کی جانب تو مہذب دنیا کی توجہ ہے ، اور اگر کوئی شہری اس کا پاس و لحاظ نہ کرے ، تو اسے نہ صرف راہ چلتے لوگ روکتے ہیں ، بلکہ ریاستی ادارے اور قانون بھی حرکت میں آ جاتے ہیں۔۔۔ لیکن اخلاقی معاملات میں وہ کسی روک ٹوک کے روا دار نہیں !!! نتیجہ ہمارے سامنے ہے ، معاشرے اور سماج کو استحکام دینے والا ہر ادارہ تباہی کے دہانے پر ہے۔ سور?ۃالانفال آیت 25 میں ارشاد ہوا :۔( اور بچو اْس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پرصرف اْنہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔)یہ ہدایت ریاست مدینہ کے استحکام کے بعد دی گئی۔۔۔ کیونکہ ایک ریاست کا قیام تو ایک تحریک اور اس کے مختصر جاں نثاروں کے ذریعے ہو سکتا ہے، لیکن اس کے استحکام اور توسیع کے لیے ضروری ہے ، کہ اس کے شہری متحرک اور فعال ہوں۔۔۔ وہ کسی برائی کو ہوتے دیکھ کر یہ نہ سوچیں کہ ہم تو ٹھیک ہیں، وہ جانیں اور ان کا کام۔اس لیے ریاست مدینہ کے استحکام اور تیز تر پھلاؤ کو اگر سمجھنا ہو تو ہمیں مدینہ طیبہ میں نازل ہونے والی قرانی سورتیں اور حضور ?ﷺکی مدنی سیرت اور ارشادات کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ جس طرح کسی شہر میں گندگی چند مقامات پر رہتی ہے تو اس کا اثر بھی قریب کے کچھ لوگوں پر ہی پڑتا ہے لیکن جب گندگی عام ہو جا ئے اور کوئی گروہ بھی سارے شہر میں ایسا موجود نہ ہو جو صفائی کا انتظام کرنے کی کوشش کرے تو پھر ہوا اور زمین اور پانی ہر چیز میں زہریلے جراثیم پھیل جاتے ہیں۔۔۔ پھر جو وبائی امراض پھیلتے ہیں اس کا شکار گندگی پھیلانے والے ، اور گندے رہنے، والے گندے ماحول میں زندگی گذارنے والے سب ہی ہوتے ہیں۔۔۔آپ صرف اپنے آپ کو اور اپنے گھر کو صاف رکھ کر اس وبا سے نہیں بچ سکتے۔ یہی حال اخلاقی گندگی کا بھی ہے کہ اگروہ انفرادی طور پر بعض افراد میں ہوں ، لیکن صالح اور فعال سوسائٹی کے رعب سے دبی رہے ، تو اس کے نقصانات محدود رہتے ہیں۔ لیکن جب سوسائٹی کا اجتماعی ضمیر کمزور ہو جاتا ہے، جب اخلاقی برائیوں کو دبا کر رکھنے کی طاقت اْس میں نہیں رہتی، جب اس کے درمیان بْرے اور بے حیا اور بد اخلاق لوگ اپنے نفس کی گندگیوں کو اعلانیہ اچھا لنے اور پھیلانے لگتے ہیں، اور جب اچھے لوگ بے عملی (Passive attitude) اختیار کرکے اپنی انفرادی اچھائی پر مطمئن اور اجتماعی برائیوں پر خاموش ہو جاتے ہیں، تو مجموعی طور پر پوری سوسائٹی کی شامت آجاتی ہے اور وہ فتنہ عام برپا ہوتا ہے جس میں گندم کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ اللہ تعالی ٰ کے ارشاد کا مقصود یہ ہے کہ اسلام معاشرتی اصلاح اور ہدایت کا جو کام کرنا چاہتا ہےاور مسلمان ہو کر جس خدمت میں ہاتھ بٹانے کے لیے تمہیں بلا رہا ہے ، حقیقت یہ ہے کہ اسی میں تمہاری انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بھلائی ہے ۔ اگر اس میں سچے دل سے ، خلوص و اخلاص کے ساتھ حصہ نہ لو گے۔۔۔اور ان برائیوں کو جو سماج میں پھیلی ہوئی ہیں برداشت کرتے رہو گے، تو فتنہ عام ہو جائے گااور اس کی آفت سب کو لپیٹ میں لے لے گی چاہے بہت سے افراد تمہارے درمیان ایسے موجود ہوں جو عملاً برائی کرنے اور برائی پھیلانے کے ذمہ دار نہ ہوں، بلکہ اپنی ذاتی زندگی میں بھلائی ہی لیے ہوئے ہوں۔ اسی بات کو سورۃ اعراف آیات 163 تا 166 میں اصحاب السّبت کی تاریخی مثال پیش کرتے ہوئے بیان کیا جاچکا ہے، اور یہی وہ نقطہ نظر ہے جسے اسلام کی اصلاحی جنگ کا بنیادی نظریہ کہا جا سکتا ہے۔ سورۃالاعراف آیت نمبر 163 تا 166 میں ارشاد ہوا :۔ (اور ذرا اِ ن سے اْس بستی کا حال بھی پوچھو! جو سمندر کے کنارے واقع تھی۔ اِنہیں یاد دلاؤ وہ واقعہ کہ وہاں کے لوگ سَبت ہفتہ کے دن احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے ، اور یہ کہ مچھلیاں سبت ہی کے دن اْبھر اْبھر کر سطح پر اْن کے سامنے آتی تھیں، اور سَبت کے سوا باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں۔ یہ اس لیے ہوتا تھا کہ ہم ان کی نافر مانیوں کی وجہ سے ان کو آزمائش میں ڈال رہے تھے۔ اور انہیں یہ بھی یاد دلاؤ کہ جب اْن میں سے ایک گروہ نے دوسرے گروہ سے کہا تھا کہ ’’ ہم یہ سب کچھ تمہارے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور اس اْمید پر کرتے ہیں کہ شاید یہ لوگ اس کی نافرمانی سے پرہیز کر نے لگیں۔ ‘‘ آخر کا ر جب اْن ہدایات کو با لکل ہی فراموش کر گئے جو انہیں یاد کرائی گئی تھیں تو ہم نے اْن لوگوں کو بچا لیا جو بْرائی سے روکتے تھے اور باقی سب لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا۔ پھر جب وہ پوری سر کشی کے ساتھ وہی کام کیے چلے گئے جس سے انہیں روکا گیا تھا، تو ہم نے کہا کہ بندر ہو جاؤذلیل اور خوار۔) اس بستی میں تین قسم کے لوگ تھے۔ ایک وہ جو کھلے عام اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ دوسرے خاموش تماشائی تھے ، جو خود تو اللہ کے احکام مانتے تھے لیکن خلاف ورزی کرنے والوں کو نصیحت نہیں کرتے تھے ، بلکہ نصیحت کرنے والوں سے کہتے تھے کہ نصیحت کرنے کا کوئی فایدہ نہیں ۔ تیسرے وہ لوگ تھے جو اللہ کے احکام کی کھلے عام خلاف ورزی کرنے والوں کو نصیحت کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔۔۔ انہیں امید تھی کہ اس طرح مجرم لوگ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی چھوڑ دیں گے۔۔۔ اور اگر نہ بھی چھوڑیں تو ہم اپنے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کر سکیں گے کہ مالک ! ہم نے تو انہیں نصیحت کی تھی لیکن یہ باز نہ آئے ۔ اس صورت حال میں جب اس بستی پر اللہ کا عذاب آیا تو قرآن مجید کہتا ہے کہ اِن تینوں گروہوں میں سے صرف تیسرا گروہ ہی اس سے بچایا گیا کیونکہ اسی نے خدا کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کی فکر کی تھی ۔ باقی دونوں گروہوں کا شمار ظالموں میں ہوا اور وہ اپنے جرم کی حد تک مبتلائے عذاب ہوئے۔ ظاہر ہے کہ کسی بستی پر خدا کا عذاب آنے کی صورت میں تمام بستی دو ہی گروہوں میں تقسیم ہو سکتی ہے، ایک وہ جو عذاب میں مبتلا ہو اور دوسرا وہ جو بچا لیا جائے۔ معلوم ہوا کہ جس بستی میں اعلانیہ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی ہو رہی ہو اس کے تمام لوگ اللہ کی پکڑ میں آتے ہیں ، اور اس کا کوئی باشندہ صرف اس وجہ سے اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکتا ، کہ اس نے خود خلاف ورزی نہیں کی۔۔۔ بلکہ اْسےاللہ کے سامنے اپنی صفائی پیش کرنے کےلیے لازماً اس بات کا ثبوت پیش کرنا ہوگا کہ ، وہ اپنی طاقت کے مطابق اصلاح اور اقامت حق کی کوشش کرتا رہاتھا۔ اسی لیےیہاں ارشاد ہوا کہ (ڈرو اْس فتنے سے جس کے وبال میں خصوصیت کے ساتھ صرف وہی لوگ گرفتا ر نہیں ہوں گے جنہوں نے تم میں سے ظلم کیا ہو)۔ اس کی تشریح میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:۔ ’’اللہ عزوجل خاص لوگوں کے جرائم پر عام لوگوں کو سزا نہیں دیتا، جب تک لوگوں کی یہ حالت نہ ہو جائے کہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے بْرے کام ہوتے دیکھیں اور وہ ان کاموں کے خلاف اظہار ِ ناراضی کرنے پر قادر ہوں ، اور پھر کوئی اظہار ناراضی نہ کریں۔ پس جب لوگوں کا یہ حال ہوجاتا ہے تو اللہ خاص و عام سب کو عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے‘‘۔
اللہ سْبٰحانہ و تعٰالٰی ہَم سَب کو اَپنے دین کا صحیح فہم بخشے ، اَور اْس فہم کے مْطابق دین کے سارے تقاضے ، اَور مْطالبے پْورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

حصہ