نہ پہلی بار اور نہ آخری بار

316

تنویر اللہ خان
ساہیوال میں جو کچھ ہوا نہ یہ پہلی بار اور نہ آخری بار ہوا ہے، اس طرح کے حادثات، واقعات، سانحات اب ہماری عادت بن چکے ہیں، پہلے ظلم ہوتا ہے پھر حکومتی ادارے اپنے اقدام کو عین قانونی، حب الوطنی اور ناگزیر قرار دیتے ہیں پھر کسی نہ کسی طرح کبھی چشم دید گواہ کے ذریعے کبھی مین اسٹریم میڈیا کے ذریعے کبھی سوشل میڈیا کے ذریعے بیان کیے گئے واقعے کی نئی نئی پرتیں کھلتی چلی جاتی ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ حکومتی ذرائع جو کچھ بتارہے ہیں وہ جھوٹ ہے پھرروڈ بلاک ہوتے، ٹائرجلائے جاتے ہیں اخباری بیانات داغے جاتے ہیں، مضامین شائع ہوتے، ٹیلی وژن پر المیہ دھنوں کے ساتھ سینہ کوبی کی جاتی ہے، ٹی وی ٹاک شو میں بڑے بڑے مطالبے اور وعدے کیے جاتے ہیں۔
پھر وزیرآعظم نوٹس لیتے ہیں، وزیراعلی نے ایکشن لیتے ہیں، آئی جی نے رپورٹ طلب کرتے ہیں، چارمعطل کردیئے جاتے ہیں، دولائن گرفتار کرلیے جاتے ہیں، دس کے خلاف ایف آئی آر کاٹ دی جاتی ہے، فرانزک رپوٹ، پوسٹ مارٹم، اب ایک نیا شوشہ جے آئی ٹی کی بھی کا ایجاد ہوگیا ہے جو تشکیل دے دی جاتی ہے،نتیجہ پھر بھی برآمد نہیں ہوتا، نتیجہ نکالنا چاہیں گے تو نکلے گا،کیوں کہ ان سارے اقدامات کے پیچھے مکاری کے سوا کچھ نہیں ہوتا، ننگا سچ یہ ہے کہ موجودہ ہوں یا سابقہ یہ حکومت اور سیاست کو جھوٹ، مکاری، دھوکے، ریاکاری، مال بنانے اپنے بچوں اور رشتے داروں کو سیٹ کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، یہ کام وہ بخوبی انجام بھی دیتے ہیں، اس سے زیادہ المناک اور ناامیدی کی بات یہ ہے کہ ان کو منتخب کرنے والے عوام بھی اپنے لیڈروں میں امانت، دیانت، صلاحیت اور صالیحت کے بجائے لوٹ مار کرنے والا تلاش کرتے ہیں تاکہ ان کے ساتھ مل کر لوٹ مار کریں۔
جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اُنھیں دیر نہیں لگتی، ریاست مدینہ کے دعوے دار عمرفاروقؓ کے فیصلے پڑھ لیں لیکن یہ تو بہت بڑا بینچ مارک ہے، بات بات پر یورپ کی مثالیں دینے والے، برطانیہ میں دہشت گردی کے بعد کے اقدامات دیکھ لیں، دیکھنے اور کرنے کو بہت کچھ ہے اگر کرنے والے کچھ کرنا چاہیں تو، بصورت سب دھوکہ، سب سراب، سب فراڈ۔
نہ چہرے بدلنے سے کچھ ہوگا نہ نظام بدلنے سے کچھ ہوگا، نہ نت نئی قانون سازی سے کچھ ہوگا، نہ ادارے پر ادارہ، محکمہ پر محکمہ، فورس پر فورس بنانے سے کچھ ہوگا، بھٹو صاحب کی ایف ایس ایف سے لے کر سی ٹی ڈی تک سب ایک سے ہیں ایک سا ہی کام کرتے ہیں، فواد چوہدری نے اعلان کیا ہے کہ پنجاب میں سو ماڈل تھانے بنائے جائیں گے ممکن ہے ان ماڈل تھانوں میں وہ فرشتوں کو تعینات کریں۔
آدمی کوبدلنا ہوگا، جب ایک آدمی بدلے گا اور یہ ایک ایک مل کر بہت سے ہوجائیں گے پھر ہی سب کچھ بدل گا، بالکل بدل جائے گا، ابھی ہمارے خواص ہی خراب نہیں ہیں ہمارے عوام بھی ویسے ہی ہیں۔
جام ساقی کا واقعہ ہے وہ کراچی میں رہتے ہوئے میرپورخاص سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے تھے ان کا جیتنا یقینی بتایا جاتا تھا، جانے جام ساقی کو کیا سوجی کہ پبلک بس میں بیٹھ کر میرپورخاص جاپہنچے کسی نے اُنھیں بس سے اترتے دیکھ لیا پھر کیا تھا پورے شہر میں خبر اُڑ گئی کہ ہمارے قومی اسمبلی کے امیدوار کے پاس اپنی گاڑی بھی نہیں ہے لہذا جو اپنے لیے کچھ نہ کرسکا وہ ہمارے لیے کیا کرے گا، پانسہ پلٹ گیا ساقی صاحب الیکشن ہار گئے، کہاں کی دیانت، کہاں کی سچائی۔
اسی طرح شفیع ملک صاحب کورنگی سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے اُنھوں نے اپنی انتخابی میٹنگ میں فرمایا کہ میں ضیاء الحق کی مجلس شوری کا ممبر رہا، فلاں مالی ذمہ داری انجام دی لیکن آج بھی میرے پاس اپنا گھر نہیں ہے مجمعے میں موجود ایک آدمی دامن جھاڑتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا کہ جو اپنے لیے ایک مکان نہ بناسکا وہ ہمارے لیے کیا کرے گا۔ دُنیا میں جو خوبی شمار ہوتی ہے ہمارا معاشرہ اُسے عیب سمجھتا ہے لہذا جب تک ہمارے پیمانے درست نہ ہوں گے اُس وقت تک کوئی مثبت تبدیلی نہیں آسکتی۔
ساہیوال میں سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے مبینہ طور پر ایک دہشت گرد کے ساتھ تین بے گناھوں کو قتل کردیا، جدید دُنیا کی زبان میں اسے ’’کولیڑرل ڈیمج‘‘ کہتے ہیں یعنی ایک گُناہ گار کو مارنے کی کوشش میں کئی بے گُناہ نہ چاہتے ہوئے مارے گئے لہذا یہ قانون کے مطابق ہے۔
آج کل سی ٹی ڈی کو پاکستان کے تحفظ کا ٹھیکہ دے دیا گیا ہے، وہ جسے چاہے، جب چاہے، جہاں چاہے، جیسے چاہے اُٹھا لے، پھر چاہے توگرفتاری ظاہر کرے اور لاپتہ کرنا چاہے تو لاپتہ کردے، چاہے تو زندہ چھوڑ دے اور چاہے تو قتل کرکے روڈ پر پھنک دے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی حکمران بھی ان سے ڈرتے ہیں۔
حکومت اورسیاست کے معاملات کچھ ایسے ہیں کہ ان پر بات کرنا کارِ عبث معلوم ہوتا ہے لیکن کیا کریں چاہے نہ چاہے ان ہی ناگوارئیوں سے گُزرنا ہی پڑتا ہے۔
معاشی حالات ایسے ہیں کہ ہر چیز ان کے تابع ہوگئی ہے، ملنا اُس سے جو مالی فائدہ دے سکتا ہے، لاتعلق اُس سے ہونا جہاں سے قرض ادھار مانگ لینے کا خدشہ ہو، پڑھنا وہ ہے جس سے اچھی نوکری مل سکتی ہو علم وہ حاصل کرنا جسے بیچ کر مال بنایا جاسکتا ہو لہٰذا اب ایک ڈاکڑ،استاد، پٹواری، پولیس ،جج میں کوئی فرق نہیں رہا ہے، لہذا ہمارے تعلیمی ادارے بھی پبلک ڈیمانڈ کے مطابق پروڈکٹ تیار کررہے ہیں، سب کا زور اپنے اسٹوڈینٹ کو زیادہ نمبر دلانے پر ہے، آپ انٹر کالج کے اشتہارات دیکھ لیں جلی حروف میں اسٹوڈینٹ کے حاصل کردہ نمبر لکھے ہوتے ہیں، اب تعلیمی ادروں میں پڑھایا نہیں جاتا بلکہ امتحان کی تیاری کروائی جاتی ہے ایسا اس لیے ہوا ہے کہ والدین تعلیمی اداوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ زیادہ فیس لے لو اور زیادہ نمبر دلادو، زیادہ نمبر لینے کی کوشش بُری بات نہیں ہے لیکن کچھ سیکھے بغیر اپنے علم میں اضافہ کیے بغیر زیادہ نمبر کو ہی اپنی منزل مقصود بنالینا ٹھیک نہیں ہے۔
ماں باپ کا اپنے بچوں کو حالات کے سردوگرم سے بچانا بلاشبہ محبت ہے لیکن یہ محبت اُس پگلی کی طرح نہیں ہونی چاہیے جو اپنے بچے کو چوم چوم کر مار دیتی ہے، اپنے بچوں کے لیے بڑے اسکول، زیادہ فیس، مشہوراستاد، آرام دہ پک اینڈ ڈارپ، اچھا کھانا، اچھے کپڑے، مہنگا موبائیل، سیروتفریح، لانگ ڈرائیو، ہوٹلنگ کی ہی فکر اور کوشش نہ کریں اُنھیں عملی زندگی سے جوجینابھی سکھایں۔
میرے بیٹے حسن کے دوست کے والد نے اپنے بیٹے جو لڑک پن اور جوانی کے بین بین تھا اسے آدھا تولہ سونا دے کر اور ریل کا ٹکٹ دلا کر بیرونِ شہر روآنہ کردیا اور ٹاسک دیا کہ وہاں پہنچ کر اسے فروخت کرو گھومو پھرو، جیب کے مطابق کھاو پیو شاپنگ کرو اور ایک ہفتے بعد لوٹ آو اُسے تاکید کی کہ کوشش کرو سب کچھ اسی میں مینج ہوجائے کسی سے مدد یا گھر سے کچھ منگانے کی ضرورت نہ پڑے۔
لہذا آپ بھی کوشش کریں کہ پیسے آپ دیں لیکن فیس بچے کے ہاتھوں جمع کروایں، بچے اٹھارہ سال کا ہوجائے تو شناختی کارڈ وہ خود بنوائے، اپنا ڈرائیونگ لائسینس وہ خود بنوائے، اپنا پاسپورٹ، ڈومیسائل وغیرہ وہ خود بنوائے۔ ایسا کرنے سے آپ کا بچہ عملی دنیا سے نبرآزما ہونا سیکھ لے گا معاملات کو ان کی اہمیت کے مطابق برتنا سیکھ لے گا۔
اسی طرح اپنی لڑکیوں کو آبگینہ نہ بنائیں جب تک وہ آپ کے پاس ہیں اس وقت کو ان کا ٹرینیگ پریڈ سمجھیں یہ نا کہیں کہ سسرال جاکر تو کرنا ہی ہے ابھی رہنے دو۔
انسانی عادات ایک بٹن سے آن آف نہیں کی جاسکتی، سارے جان داروں میں انسان کا بچہ کھڑے ہونے میں، چلنے میں، کھانے پینے میں، بولنے میں سب سے زیادہ وقت لیتا ہے اسی طرح اس کی تربیت بھی وقت طلب کام ہے لہذا یہ نہ سوچیں جب خود پر پڑے گی تو خود آجائے گا، انہیں آپ اگر آج کل کے لیے تیار کردیں گے آپ کے بچوں میں ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کی ہمت و صلاحیت پیدا ہوجائے گی۔
اس سب کے بعد بھی دعاء اصل سہارا ہے ماں باپ کی دعا اپنے بچوں کے لئے تیر بہدف ہے اور بچوں کے بھی چاہیے کہ ان کے اعمال ایسے ہوں کہ ماں باپ اُن کے لیے سراپا دعا بن جائیں۔

حصہ