کیا ملک میں قانون کا بول بالا ہے؟

314

محمد انور
کہتے ہیں کہ جب قانون پر عمل درآمد ہو تو پھر کوئی حیلے بہانے نہیں سنے جاتے اور قانون سب ہی کے لیے ایک جیسا ہوتا ہے۔ اس پر عمل بلا تفریق ہو تو عوام کا حوصلہ بڑھتا ہے اور پھر قانون کی حکمرانی قائم ہوجاتی ہے۔
قانون کی حکمرانی آزاد عدلیہ کے بغیر ناممکن ہوا کرتی ہے۔ پاکستان جہاں عدالتوں پر ’’کنگرو کورٹس‘‘ کے الزامات بھی لگائے جاتے رہیں تو اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ماضی میں بعض جج صاحبان بھی قانون اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلے کرنے کا اختیار اور ہمت نہیں رکھتے تھے جس کی وجہ یقینا ان کی اپنی کمزوریاں بھی ہوں گی۔
الحمدللہ اب پاکستان کی عدالتیں آزاد ہیں، اب یہاں قانون کی حکمرانی قائم ہونے لگی ہے گو کہ پاکستان بدلنے لگا ہے۔ پاک وطن میں یہ مثبت تبدیلیاں کسی ’’سیاسی کھلاڑی‘‘ کی کوششوں یا کردار کی وجہ سے نہیں آرہی بلکہ یہ سب جج صاحبان کی مرہون منت ہی ممکن ہوسکا ہے۔
اگر سابق صدر پرویز مشرف کا حکم اس وقت کے چیف جسٹس چوہدری افتخار مان لیتے تو آج بھی عدالتیں ماضی کی طرح ’’حکمرانوں‘‘ کی تابع ہوتیں۔
آج عدالتیں قانون کے تحت وزیر اعظم اور سابق صدر کو نہ صرف طلب کرنے کے قابل ہوچکی ہیں بلکہ انہیں ملکی آئین و قانون کے تحت آزادی سے سزائیں بھی دے رہی ہیں تو اس کا کریڈٹ چیف جسٹس افتخار چوہدری اور ان کی اُس تحریک کو جاتا ہے جو انہوں نے عدلیہ کی خود مختاری یا منصفانہ اور آزادانہ فیصلوں کے لیے چلائی تھی۔ اگرچہ 2007 میں وکلاء کی چلائی جانے والی ’’عدلیہ بحالی تحریک‘‘ کا سیاست دانوں نے بھی بھرپور ساتھ دیا تھا مگر شاید اُس وقت چمپئن سیاست دانوں کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ہماری عدالتیں اس قدر آئین و قانون پر عمل کرنے والی ہوجائیں گی جو 21 مارچ 2009 سے 11 دسمبر 2013 تک رہیں۔ آزاد عدلیہ کی تاریخ کا شاید یہ پہلا دور تھا جس کے سربراہ چیف جسٹس افتخار چوہدری تھے۔ جسٹس افتخار چوہدری جب 2009 میں تیسری بار چیف بنے تو انہوں نے بتادیا کہ آزاد اور منصفانہ عدالتی نظام کیا ہوتا ہے۔
افتخار چوہدری کے بعد چار مزید چار شخصیات چیف جسٹس بنیں مگر جسٹس ثاقب نثار آزاد عدلیہ کے سربراہ کے ساتھ ایک متنازع چیف جسٹس بھی قرار پائے اور ان کے دور میں شروع کی گئیں بعض ازخود نوٹس کی کارروائی ہنوز جاری ہیں۔ خصوصاً کراچی میں تجاوزات کے خلاف جاری کارروائیوں سے بار بار آزادانہ عدالتی نظام کی بازگشت ہوتی ہے۔
گزشتہ ہفتے تجاوزات کے حوالے سے سپریم کورٹ کا دو رکنی بینچ بہت سرگرم رہا۔ان کارروائیوں کے دوران عدالت نے رفاہی اور رہائشی پلاٹوں کے حوالے سے بھی مقدمے کی سماعت کی اور اٹارنی جنرل‘ تمام کنٹونمنٹ بورڈز کے چیف ایگزیکٹوز اور منتخب چئیرمینز کو طلب کر لیا۔ اے ایس ایف‘ کے پی ٹی‘ پی آئی اے‘ سول ایوی ایشن سمیت تمام اداروں کے سربراہان کو بھی عدالت میں بلایا گیا اور انہیں دو ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کو کہا اس کے علاوہ کارساز‘ شاہراہ فیصل‘ اور راشد منہاس روڈ پر قائم تمام شادی ہالوں اور گلوبل مارکیٹ سمیت کنٹونمنٹ ایریاز میں تمام سنیمائوں‘ کمرشل پلازے اور مارکیٹوں کو گرانے کا بھی حکم دیا۔
جسٹس گلزار احمد نے سماعت کے دوران سوال کیا کہ ’’کیا فوجیوں کا کام شادیاں کرانا ہے؟‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ فوج کو کیا ہو گیا ہے؟ کن کاموں میں پڑ گئے؟ ایک میجر بیٹھ کر مرضی کے فیصلے کرتا ہے۔ میجر کی خواہش تھی کہ دیواریں بنا کر اشتہارات سے آمدنی حاصل کریں۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ کیا ڈی ایچ اے والے سمندر کو امریکا سے ملانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ لاہور میں تو ڈی ایچ اے نے اتنی عمارتیں بنا ڈالیں بھارت تک جا پہنچے ہیں۔ ان کا بس چلے تو یہ سڑکوں پر بھی شادی ہالز بنا ڈالیں۔ نیوی اور ائرفورس کے اسلحہ کے قریب شادی ہالز بن رہے ہیں، مہران بیس‘ جہاں حملہ ہوا تھا‘ وہاں بھی شادی ہالز قائم ہیں۔ جسٹس گلزار رفاہی اور رہائشی پلاٹوں پر تجارتی عمارتوں کی تعمیر اور جام صادق پارک سے تجاوزات ختم نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سندھ حکومت کی رپورٹ مسترد کردی۔
مسترد کردہ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سابق وزیراعلیٰ سندھ جام صادق نے وہاں جا کر صرف پارک کا اعلان کیا تھا زمین الاٹ نہیں ہوئی تھی۔ جس پر جسٹس نے سوال کیا کہ ’’کیا وزیر اعلیٰ کے اعلان کی کوئی اہمیت نہیں؟‘‘
عدالت کو کے ڈی اے کے ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ نے بتایا ہے کہ ملیر ندی کی زمین جو کورنگی انڈسٹریل ایریا کو دے دی گئی تھی، اس پر امتیاز اسٹور اور دیگر عمارتیں بن گئی ہیں جس پر عدالت نے کہا کہ کیا یہاں متوازی قانون چل رہا ہے؟ لوگوں کو بے وقوف نہ بنائیں اے جی صاحب۔ عوام کے حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا‘ غیرقانونی عمارتیں گرا دیں۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اس زمین پر اقرا یونیورسٹی کے اطراف شادی ہالز اور بلند عمارتیں بنا دی گئیں سب غیر قانونی ہے، یہاں ریڈیسن میرج ہال بھی غیرقانونی بنایا گیا ہے، جو بھی غیرقانونی عمارت ہے وہ گرے گی پاکستان کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔
عدالت عظمٰی کی اس طرح کی کارروائی عام لوگوں کے لیے مسرت کا باعث ہے مگر لوگوں کی خواہش ہے کہ یہ سب ایکشنز جلد مکمل ہوں اور شہر و شہریوں کو ان کا فائدہ ہوسکے۔
ایس بی سی اے کے ڈی خیال افتخار قائم خانی کا کہنا ہے کہ عدالت کے تمام احکامات اور فیصلوں پر من و عن عمل کیا جائے گا ۔

حصہ