ایک اور الیکشن ایک اور سلیکشن

430

زاہد عباس
ویسے تو شہر کی ابتر صورت حال انتخابات میں حصہ لینے والوں کے لیے بڑی آئیڈیل ہوا کرتی ہے، یعنی امیدوار بنیادی سہولیات اور مسائل ہی کی جانب اشارہ یا نشاندہی کرکے اپنے ووٹ پکے کیا کرتے ہیں۔ کوئی سڑکوں کی تعمیر، تو کوئی سیوریج نظام کی درستی کے دعوے کرکے اپنے ووٹرز کے دل جیتنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ ’’اپنا ووٹ اپنوں کے لیے‘‘، ’’صاف چلی شفاف چلی‘‘، ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ جیسے کھوکھلے نعرے لگاکر ہر مرتبہ عوام کو ٹرک کی سرخ بتی کے پیچھے لگاکر اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔ انتخابات مکمل ہوتے ہی ’’تُو کون، میں کون؟‘‘کے فلسفے پر من و عن عمل کرتے یہ رہنما چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ یوں عوام کامیاب ہونے والے امیدوار کے درشن انتخابی مہم کے دوران لگائے جانے والے پوسٹروں پر چھپی تصاویر سے کرتے ہیں۔ ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے مقابلے میں کسی بھی ایک حلقے کے ضمنی انتخاب کی انتخابی مہم کے دوران عوام کو کچھ زیادہ ہی سبز باغ دکھائے جاتے ہیں۔ یہی کچھ آج کل ہمیں صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 94 لانڈھی کراچی میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ واضح رہے کہ ایم کیو ایم کے کامیاب امیدوار کے انتقال کے بعد خالی ہونے والی اس نشست پر انتخاب 27 جنوری کو ہوگا۔ اس حلقے میں جہاں ایک طرف انتخابی گہما گہمی عروج پر ہے تو دوسری طرف گلیوں میں کھڑا سیوریج کا گندا پانی، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر، اور اس پر رواں ہفتے ہونے والی بارش نے سارے ہی علاقے کو تالاب میں تبدیل کردیا ہے۔ کوئی محلہ ایسا نہیں جہاں بلاکوں سے بنائی گئی راہداریاں نہ ہوں۔ ابلتے گٹر، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، کچرے سے بھرے برساتی نالے یہاں کے مکینوں کا مقدر ہیں۔
اس بدترین صورتِ حال کے باوجود یہ بات تو طے ہے کہ علاقے میں کھڑے گندے پانی کی وجہ سے لوگوں کو ایک قطار میں چلنے کا سلیقہ ضرور آگیا ہے۔ ظاہر ہے گند سے بچنے کے لیے جب دن بھر ایک پگڈنڈی پر چلا جائے تو یہ ہنر سیکھا کوئی بڑی بات نہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ سچ ہے کہ سڑکوں پر بہتے سیوریج کے پانی سے بچتے بچاتے گزرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، اس کے لیے خاص تجربے کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ کیچڑ کے درمیان ایک ترتیب کے ساتھ اینٹیں لگا کر راستہ بنانا بچوں کا کھیل نہیں۔ میں نے اس علاقے میں جہاں جہاں بھی اس طرح سے بنی راہداریاں دیکھیں، داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ ایسے بنائے گئے راستوں پر چلنے والوں کی صلاحیت بجا طور پر فنکارانہ ہوا کرتی ہے۔ اپنے جسم کے توازن کو برقرار رکھ کر اٹھنے والے قدم کو اگلے بلاک پر رکھتے ہوئے بارہ سے پندرہ فٹ چوڑی اوپن سیوریج لائن کامیابی سے عبور کرنا بڑے دل والوں کا کام ہے۔ حکمرانوں نے کراچی کے عوام کو ترقی کے نام پر کچھ دیا ہو یا نہ دیا ہو لیکن یہ سچ ہے کہ ان کے اقدامات کی بدولت کراچی کے عوام نے کچرے کے ڈھیروں، ابلتے گٹروں، ٹوٹی سڑکوں اور وبائی امراض سے لڑنے کا فن ضرور سیکھ لیا ہے۔
اس ساری صورت حال میں ایم کیو ایم، پی پی پی اور پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کی جانب سے حلقے کے عوام کو تعمیراتی اور ترقیاتی کاموں سمیت تمام مسائل حل کرنے کی نوید سناکر ووٹ مانگنا انتہائی حیرت انگیز ہے۔ اختیارات کے باوجود ان تینوں حکمراں جماعتوں کے امیدواروں کا گندگی کے درمیان کھڑے ہوکر مستقبل کے سہانے خواب دکھانا معصوم عوام کو لولی پاپ دینے کے سوا اور کیا ہے؟ ایک زمانہ تھا جب انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار ووٹ حاصل کرنے کے لیے اپنے ذاتی وسائل استعمال کرتے ہوئے کئی عوامی مسائل حل کرتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1983ء میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوران ایک امیدوار نے اپنی جیب سے بینک چالان ادا کرکے سیکڑوں گھروں میں پانی کے کنکشن لگوائے، گو کہ وہ امیدوار الیکشن نہ جیت سکا، لیکن وہ 1987ء کے بلدیاتی انتخابات میں ایک بار پھر اسی جذبے کے ساتھ لوگوں کی خدمت کرتا دکھائی دیا، یہ الگ بات کہ جیت اس مرتبہ بھی اُس کا مقدر نہ بن سکی۔ ماضی میں انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار نہ صرف عوامی مسائل حل کرواتے بلکہ ووٹ کے حصول کے لیے لوگوں کی مالی مدد بھی کیا کرتے، جسے ووٹ کی خریداری جیسے القابات دیے جاتے۔ ووٹ کی خریداری ہو یا لوگوں کے گھروں میں لگائے جانے والے پانی کے کنکشن، اُس وقت امیدواروں کی جانب سے ووٹروں کو متاثر کرنے کے لیے جو بھی طریقہ کار اپنایا جاتا اُس میں کسی نہ کسی طرح غریب عوام کا ہی فائدہ ہوتا۔ اُس وقت امیدواروں کی جانب سے ووٹ کے حصول کے لیے کی جانے والی واردات یا طریقہ کار پر غلط اور صحیح کی بحث اپنی جگہ، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اُس زمانے میں دورانِ انتخابات خاصے عوامی مسائل حل ہوجاتے۔ اُس وقت نہ صرف غریبوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل حل ہوجاتے بلکہ اس بہانے ان کی جیبوں میں کچھ نہ کچھ رقم بھی آجایا کرتی۔ جہاں تک ان چھوٹی چھوٹی لی گئی مراعات کے عوض ووٹ دینے کا معاملہ ہوتا، تو اس میں بھی ووٹر اپنی مرضی سے جسے چاہتا ووٹ دیتا اور پیسہ لگانے کے باوجود ناکام ہونے والے امیدوار کے ماتھے پر شکن تک نہ آتی۔
یہاں ماضی میں ہونے والے انتخابات کے دوران امیدواروں کی جانب سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے اپنائے جانے والے طریقہ کار کو تحریر کرنے کا واحد مقصد حکمراں جماعتوں کے بااختیار قائدین کے ضمیر کو جھنجھوڑنا ہے۔
خیر، بات ہورہی ہو مسائل زدہ پی ایس 94 میں ہونے والے ضمنی انتخاب کی، اور عادل کی رائے نہ لی جائے، یہ انتہائی زیادتی ہوگی۔ عادل کا گھرانہ گزشتہ 50 برس سے مستقل لانڈھی میں مقیم ہے۔ اُس نے بتایا کہ پی ایس 94 اور اس سے ملحقہ علاقوں کی ابتر صورت حال نئی نہیں، یہاں کے عوام گزشتہ30 برس سے پانی، گیس، بجلی، صحت و تعلیم جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں، تباہ حال سیوریج سسٹم بھی بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ نہ صرف ان مسائل میں مزید اضافہ ہورہا ہے بلکہ ماضی کی تعمیرات بھی کھنڈرات میں تبدیل ہوتی جارہی ہیں۔ خستہ حال سڑکیں، بوسیدہ سرکاری عمارتیں، تباہ حال انفرااسٹرکچر سمیت ہر سرکاری محکمہ عوام کے لیے دردِ سری کا باعث ہے۔
انتخابی گہما گہمی سے متعلق عادل کا کہنا تھا کہ مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے یہاں ہر روز نیا تماشا لگایا جاتا ہے، سائونڈ سسٹم پر تیز آواز میں پارٹی ترانے بجا کر لوگوں کا چین وسکون غارت کیا جاتا ہے۔ ووٹ حاصل کرنے کے لیے ہر جماعت کے کارکن اپنے اپنے تئیں کرتب دکھانے میں مصروف ہیں۔ ہر جماعت دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کی دعوے دار بنی ہوئی ہے۔ ان کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتخاب کے بعد اس علاقے کی نہ صرف قسمت بدل جائے گی بلکہ خوشحالی کا وہ دور شروع ہونے والا ہے جس کے ثمرات سے ہر غریب مستفید ہوگا۔ عادل نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایک جماعت کے کارکن تو سڑکوں پر جھاڑو تک لگا رہے ہیں، انہیں کیا خبر کہ یہ ڈرامے بازی کراچی والوں کے لیے نئی نہیں، اس طرح کے تماشے وہ گزشتہ تیس برس سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ یہ کوئی عام حلقہ نہیں، اس حلقے سے منتخب ہونے والوں میں زین نورانی سابق وزیر خارجہ، ڈاکٹر فاروق ستار سابق وفاقی وزیر برائے سمندرپار پاکستانی، این ڈی خان سابق وفاقی وزیر قانون،آصف حسنین، اقبال محمد علی، قاضی خالد ایڈووکیٹ صوبائی وزیر تعلیم سندھ جیسے قدآور سیاسی رہنما منتخب ہوچکے ہیں، لیکن اس علاقے کی حالت جوں کی توں رہی۔ نامور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے اس حلقے کے عوام پر کسی قسم کی کوئی توجہ دی گئی اور نہ ہی کسی ترقیاتی منصوبے پر کام شروع کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ لوگ اب ان روایتی سیاسی جماعتوں اور الیکشن کے نام پر کھیلے جانے والے اس کھیل سے بے زار ہوچکے ہیں، اسی لیے 27 جنوری کو ہونے والے ضمنی انتخاب سے عوام نے ایک حد تک لاتعلقی اختیار کرلی ہے، ظاہر ہے جب کمزور نظام انتخاب کے نتیجے میں منتخب ہونے والے نمائندے اسمبلیوں میں جاکر عوامی مسائل پر بات کرنے کے بجائے اپنے اور اپنی جماعتوں کے ذاتی معاملات حل کرانے کے ایجنڈے پر کام کریں گے تو اس قسم کے نتائج ہی برآمد ہوں گے۔‘‘
پی ایس 94 کراچی کی ابتر صورت حال دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عادل کی باتوں میں نہ صرف خاصا وزن ہے بلکہ جمہوریت سے بے زاری بھی پائی جاتی ہے۔ ملک اور جمہوری نظام کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں رائج طریقہ انتخاب پر نظرثانی کی جائے، اور ایسے نظامِ انتخاب کے تحت انتخابات کروائے جائیں جس کے نتیجے میں باصلاحیت، پڑھے لکھے، باکردار اور عوام کے اصل نمائندے ہی ارکانِ پارلیمنٹ منتخب ہوسکیں، بصورتِ دیگر انتخاب ’’الیکشن برائے سلیکشن‘‘ بن کر رہ جائے گا۔

حصہ