شراب اور پاکستان کے منتخب نمائندے

574

رمیش کمار وانکوانی
پاکستان کے عظیم لیڈر قائداعظم محمد علی جناح سے منسوب قول ’’میری جیب میں جو کھوٹے سکّے ہیں، ان کا کیا کروں؟‘‘ پر علمی حلقوں میں آج بھی یہ بحث جاری ہے کہ انھوں نے یہ الفاظ اداکیے تھے یا نہیں؟ اور اگر ادا کیے تھے تو ان کا اشارہ کن کھوٹے سکوں کی طرف تھا؟ اس بحث سے قطع نظر کہ یہ بات تو غیر متنازع ہے، مگر اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ قائد کی وفات کے بعد پاکستان جس طرح اپنی منزل سے دور ہوتا گیا، کم از کم اس طرزِ عمل نے تو ان الفاظ کو سچ ثابت کر دکھایا۔
مجھے عظیم قائد سے منسوب یہ الفاظ گزشتہ دنوں اس وقت بہت شدت سے یاد آئے، جب میں نے غیرمسلم اقلیتوں کے نام پر شراب کے گھنائونے کاروبار کی روک تھام کے لیے قومی اسمبلی میں بل پیش کرتے ہوئے اپنی تقریر میں واضح کردیا تھا کہ مجھے کسی شخص کے ذاتی قول و فعل سے کوئی سروکار نہیں۔ پاکستان میں شراب کے کاروبار پر پابندی عائد کرنے کے لیے میرا بل پیش کرنے کا واحد مقصد یہ تھا کہ اس غلیظ دھندے، کاروبار یا عمل کو کسی بھی مذہب سے منسلک نہ کیا جائے۔
اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہر مذہب انسانیت کی بھلائی کے لیے خدا کے احکامات پر عمل کرنے کی تلقین کرتا ہے تاکہ انسان خدا کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر ایک مفید اور کارآمد شہری ثابت ہو، جب کہ شراب نوشی کرنے والا فرد، خدا کی نافرمانی کرکے معاشرے میں فساد پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔ ایک پُر امن معاشرے کا دارومدار دیگر تمام مذاہب کے ماننے والوں کا احترام کرنے میں ہے۔
میں نے دنیا کے تمام مذاہب کا مطالعہ کیا ہے اور دلائل کے ساتھ یہ بات کہتا ہوں کہ اُم الخبائث شراب تمام مذاہب میں حرام ہے۔ لیکن یہاں پر نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں شراب کی خرید و فروخت غیر مسلموں کے نام پر کرنے کی اجازت ہے۔ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آرٹیکل۳۷-ح کے مطابق ’’مملکت : نشہ آور مشروبات کے استعمال کی، سوائے اس کے کہ وہ غیر مسلموں کی صورت میں مذہبی اغراض کے لیے ہو، روک تھام کرے گی۔‘‘ ملک بھر میںشراب پر پابندی ہے، ماسوائے غیرمسلموں کے، جو اپنے مذہبی تہواروں پر شراب استعمال کرسکتے ہیں۔
مجھ سمیت پاکستان بھر کے غیر مسلموں کو اس شق کی موجودگی پر شدید تحفظات ہیں۔ میرے اس مؤقف کی تصدیق مذہبی علما، پنڈت، پادری اور محقق حضرات سے بھی کرائی جاسکتی ہے کہ پاکستان کے نمایاں بڑے غیر مسلم مذاہب بشمول ہندومت، سکھ مت، مسیحیت اور بدھ مت وغیرہ میں کسی مذہبی تہوار پر شراب استعمال نہیں کی جاتی، لیکن پاکستان میں سال کے 365 دن شراب کی خرید و فروخت جاری رہتی ہے۔ پھر اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستان میں غیرمسلموں کی اتنی آبادی نہیں جتنی یہاں پر شراب کی کھپت ہے۔
میری نظر میں ہر مذہبی تہوار اپنے اندر ایک مقدس روحانی پیغام سموئے ہوتا ہے اور اس موقع پر خدا کی خوش نودی حاصل کرنے کے بجائے عذابِ الٰہی کو دعوت نہیں دی جا سکتی۔ خدا کے واضح احکامات کے باوجود شراب نوشی ہر دور میں اور ہر جگہ کی جاتی ہے۔ اس لیے شراب پینے والے کو فقط ایک شرابی سمجھا جانا چاہیے کہ جو کسی بھی مذہب کا پیروکار ہوسکتا ہے۔ ان حقائق کی بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں شراب نوشی کو اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب سے نتھی کرنا سراسر ناانصافی اور توہینِ مذہب کے زمرے میں آتا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ دنیا کی وہ تمام قومیں تباہ و برباد ہوئیں، جنھوں نے خدا کے راستے سے بھٹک کر منافقت کا راستہ اختیار کیا۔ ان سارے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے پاکستان سے مذہب کے نام پر شراب پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔ میری یہ جدوجہد کوئی آج کی بات نہیں ہے بلکہ میں گزشتہ پانچ برسوں سے اس عظیم کاز (مقصد) کے لیے مصروفِ عمل ہوں۔ میں نے گزشتہ حکومت میں بھی اس سماجی ناسور کے خلاف بل پیش کیا تھا، مگر افسوس کہ اس پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔
یہ ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ گزشتہ 70 برسوں پر پھیلی تاریخ میں ہر حکومت نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ بنانے کے دعویٰ ضرور کیے، لیکن عملی طور پر پاکستانی معاشرے کو اکثریت اور اقلیت کے مابین تقسیم کر کے مفادات کی سیاست کی۔ وزیر اعظم عمران خان کی زیر قیادت پاکستان تحریک انصاف نے ’’نئے پاکستان‘‘ میں مدینہ ماڈل اپنانے کا واضح اعلان کیا۔ مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست میں جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کو حرام قرار دینے کا اعلان فرمایا تو اس موقع پر بعض لوگوں نے پوچھا کہ ’’ہم غیر مسلموںکو بطور تحفہ کیوں نہ دے دیں؟‘‘ مگر آپؐ نے تحفہ دینے سے بھی منع کر دیا۔ پھر شراب کو ادویات کے استعمال کے حوالے سے فرمایا کہ ’’نہیں، وہ دوا نہیں بلکہ بیماری ہے‘‘ اور یوں شراب مدینہ منورہ کی گلیوں میں بہا دی گئی۔
پاکستان میں شراب کا گھنائونا کاروبار ہم جیسے محب وطن غیر مسلم پاکستانیوں کی نیک نامی کا بھی معاملہ ہے۔ معاشرہ ہماری تمام قابلیت اور صلاحیتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ہمیں شراب کے گھنائونے کاروبار سے نتھی کرتا ہے۔ ہمارے آس پاس ایسے بے شمار نامی گرامی لوگ پائے جاتے ہیں، جنھوں نے غریب غیر مسلم باشندے ملازم رکھے ہوئے ہیں اور ان کے نام پر شراب لے کر وہ خود پیتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر انھیں شراب پینے کا اتنا ہی شوق ہے تو وہ اپنے نام پر خریدیں، خدارا کسی مذہب کو بدنام نہ کریں۔
پارلیمان، عدلیہ اور میڈیا کے پلیٹ فارم پر اپنی پُرامن اور آئینی جدوجہد کو آگے بڑھانا میرا جمہوری اور شہری حق ہے۔ لیکن اس وقت مجھے نہایت دکھ ہوا جب قومی اسمبلی میں میرے پیش کردہ آئینی ترمیمی بل کی حمایت کرنے کے بجائے وہاں اراکین اسمبلی نے روڑے اٹکائے۔ بالخصوص حکومتی ترجمان اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری، ملک بھر میں بسنے والے محب وطن پاکستانیوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کا باعث بنے ہیں۔ یہ کتنی مضحکہ خیزصورتِ حال ہے کہ ہم غیر مسلم کہہ رہے ہیں کہ ’’ہمیں شراب پینا منع ہے۔ ہمارے نام پر شراب کا کاروبار اور شراب نوشی بند کی جائے۔‘‘ لیکن مسلمان وزیر کہہ رہا ہے کہ ’’جس کو شراب پینی ہے وہ پیے۔‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ غیرمسلم اقلیتوں کے خلاف ایسا ناپسندیدہ طرزِعمل ہی امریکا اور عالمی برادری کو مذہبی آزادی کے حوالے سے بنیاد فراہم کرتا ہے کہ وہ ہمارے پیارے وطن کو بلیک لسٹ میں شامل کرے۔
میں قومی اسمبلی میں ایم ایم اے (متحدہ مجلس عمل) کے ارکان، میڈیا کے دوستوں، معزز علمائے کرام، مذہبی رہنمائوں، سول سوسائٹی سمیت ان تمام خواتین و حضرات کا شکرگزار ہوں، جنھوں نے میری اس عظیم جدوجہد کی حمایت کی۔ خدا کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے اس نیک نیتی پرمبنی میرے اقدام نے معاشرے کو جس مثبت انداز میں متحرک کیا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت مثبت انداز سے ملک و قوم کی خدمت کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔
میں جانتا ہوں کہ حق و سچائی کے راستے میں بے شمارمشکلات آتی ہیں، اس لیے میں نے ہمت نہیں ہاری اور ایک بار پھر بل جمع کراتے ہوئے رائے شماری کا مطالبہ کیا ہے تاکہ عوام جان سکیں کہ کون ریاست مدینہ ماڈل نافذکرنے میں سنجیدہ ہے اور کون اسے محض سیاسی نعرہ سمجھتا ہے؟ یہ ایک ایسا اہم ایشو ہے کہ اس پر ریفرنڈم بھی کرایا جاسکتا ہے۔ پاکستانی عوام عمران خان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ بطور وزیر اعظم پاکستان، پارلیمنٹ میں آنے والے غیرضروری بیانات کا بروقت نوٹس لیں گے، ورنہ ’’نئے پاکستان‘‘ کے لیے تحریک انصاف کے بلند عزائم کو، ’’کھوٹے سکّوں‘‘ کی موجودگی کی بنا پر سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

حصہ