برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

481

قسط نمبر173
( حصہ اول)
( بنگلہ دیش بن جانے کے بعد وہاں کے رہنے والے محب وطن پاکستانیوں پر کیا ابتلا و آزمائش ٹوٹی اس کا تذکرہ بھی کرنا ہے اور یہ بھی کہ کس طرح وہاں پر موجود جماعت اسلامی نے اپنے آپ کو ازسر نو منظم کیا مگر اس سے پیشتر بہت ضروری ہے کہ ہم بقیہ رہ جانے والے پاکستان کی سیاست اور اس وقت کے حالا ت پر گفتگو کریں۔ )
پاکستان توڑنے کی دو طرفہ سازشیں کامیاب ہوچکی تھیں اور اسطرح سقوط مشرقی پاکستان کے بعد دونوں حصوں میں سیاست کا ایک نیا باب شروع ہوگیا۔
20دسمبر 1971 کو ماتحت فوجی افسروں اور عوامی رد عمل نے ایک نیا رخ اختیار کیا اور اس وجہ سے مجبورا یحییٰ خان کو اقتدار سے الگ ہوکر گوشہ نشین ہونا پڑا۔ مارشل لاء اور اس کے نتیجے میں پاکستان کی علیحدگی کوئی معمولی حادثہ نہیں تھا ، یحییٰ خان کسی کو منہ دکھانے کے لائق ہی نہیں رہے تھے اس لئے پر اسرار گوشہ نشینی کے سوا ان کے پاس کوئی اور راستہ تھا بھی نہیں۔
انھوں نے جاتے جاتے اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کیا اور صدر پاکستان اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کرتے ہوئے امور سلطنت بھٹو صاحب کے حوالے کئے۔ اگلے ایک ہفتے کے اندر اندر ذوالفقار علی بھٹو نے کو یحییٰ خان کو نظر بند کرنے کے احکامات جاری کئے۔
پاکستان کی تاریخ کا یہ سیاہ کردار نظر بندی کی حالت میں9اگست 1980کو انتقال کرگیا۔ستم ظریفی دیکھیں کہ جس نے پاکستان توڑا اس پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا جبکہ حمود الرحمن کمیشن کی تحقیقات کے نتیجے میں اس پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلا کر فرد جرم عائد کی جانی چاہیے تھی، مگر پاکستانیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام اس طرح کیا گیا کہ اس سیاہ کردار کو پاکستان کے قومی پرچم میں لپیٹ کر مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا جس پاکستان کے اس نے دو ٹکڑے کئے۔
یحییٰ خان کی عیاش پسند طبیعت ، کثرت شرا ب نوشی اور غیر دانشمندانہ فیصلوں کی بدولت اسے پاکستان توڑنے کا اہم ترین مجرم گردانا جاتا ہے۔
بلا شبہ یحییٰ خان پروفیشنل سپاہی اور عمدہ فوجی افسر تھا لیکن سیاست اور حکمرانی ایک الگ چیز ہے جس میں کچھ اور صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ سیاست اور حکمرانی کو بندوق کے زور پر چلانے کا تجربہ ہی پاکستان کو دولخت کرنے کا سبب بنا۔
یحییٰ خان جنرل ایوب خان کا معتمد خاص تھے اسی بنیاد پرجنرل ایوب خان کی سرپرستی میں پروموٹ ہوکر جلد ہی جنرل کے عہدے پر پہنچ گئے۔”جنرل یحییٰ خان نے 1958 میں مارشل لا لگانے اور اقتدار سنبھالنے میں جنرل ایوب خان کی بہت مدد کی۔شاید اسی نے انکے دل میں سیاسی جراثیم کو جنم دیا اور حکمرانی کی خواہش پیدا کی۔ عام طورپر کسی کوحکمران بنانے والے اکثر تنہائی کے لمحات میں سوچتے ہیں کہ اگر وہ کسی کو اقتدار کی کرسی پر بٹھا سکتے ہیں تو خود کیوں نہیں بیٹھ سکتے۔”
حوالہ کتاب” اے نیشن ان میکنگ‘‘ شاہد جاوید برکی
1959 میں صدر پاکستا ن جنرل محمد ایوب خان نے اپنے معتمد خاص یحییٰ خان کو دارالحکومت اسلام آباد بنا تے وقت اس ہی کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا۔اسلام آباد کا چنائواور اسے بحیثیت دارالحکومت بنانے کی بنیاد رکھنا یحییٰ خان کا ہی تحفہ تھا۔اسی نسبت سے یحییٰ خان سی ڈی اے (کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کے پہلے چیئر مین بنے۔ یحییٰ خان نے 1965 کی جنگ میں بھی خدمات سرانجام دیں اور انہیں عین جنگ کے دوران میجر جنرل اختر حسین ملک کی جگہ چھمب جوڑیاں سیکٹر کی کمان سونپی گئی۔ یحییٰ خان کی کارکردگی اور تقرری اور اس تبدیلی کے پس پردہ کیا محرکات تھے؟ ان پر شجاع نواز اور شاہد جاوید برکی دونوں نے اپنی اپنی کتابوں میں خاصی روشنی ڈالی ہے۔’’ہلال جرات‘‘ پا کر یحییٰ خان1966 میں موسیٰ خان کی جگہ پاکستانی افواج کے کمانڈر انچیف بن گئے اور جلد ہی اپنے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کیلئے سوچنے لگے۔
1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد حالات بگڑنا شروع ہوئے اور پاکستان سے بدلہ لینے کا ہندوستانی منصوبہ سامنے لیا گیا۔ اس منصوبے پر عمل کرتے ہوئے ایوب خان سے اقتدار چھینا گیا (حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کا یہی(Findings)کہنا ہے۔
ایوب خان کو مجبور کیا گیا کہ وہ دستور کو منسوخ کرکے اقتدار فوج کے حوالے کردے، اور اسی طرح ہوا بھی۔
25مارچ 1969 کو ایوب خان نے اقتدار یحییٰ خان کے حوالے کردیا اور اگلے ہی دن یحییٰ خان نے قوم سے خطاب میں کہا کہ میں جلد از جلد انتخابات کروا کر اقتدار’’آئینی حکومت کے حوالے کرکے سپاہیانہ زندگی کی جانب لوٹ جائوں گا‘‘ اقتدار سنبھالنے اور تقریر ریکارڈ کروانے کے بعد یحییٰ خان نے جس طرح جشن منایا اور مے نوشی کی محفل جمائی اس کی تفصیل الطاف گوہر کی کتاب میں ملتی ہے۔اقتدار سنبھالنے کے بعد یحییٰ خان نے سیاستدانوں سے ملاقاتیں کرنا شروع کیں اور نتیجے کے طورپر اس نے 20مارچ1970 کو لیگل فریم ورک آرڈر جاری کیا جس میں مستقبل کے دستور کے بنیادی اصول طے کئے گئے تھے۔
یحییٰ خان نے ون یونٹ توڑ کر مغربی پاکستان کے چاروں صوبے بحال کردئیے۔ ون مین ون ووٹ کا اصول نافذ کرکے مشرقی پاکستان کو قومی اسمبلی میں 162 سیٹیں جبکہ مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کو 138 نشستیں دے دیں۔ مورخین اور تجزیہ نگار یہ لکھنے میں حق بجانب ہیں کہ دراصل یحییٰ خان نے ایل ایف او کے ذریعے شیخ مجیب الرحمن کو خوش کرنے کی کوشش میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھی پہلی’’ہمالیہ‘‘ غلطی ایوب خان نے کی جس نے قوم کا متفقہ طورپر منظور کردہ 1956 کا آئین منسوخ کیا تھا جس کے بعد دونوں صوبوں کیلئے متفقہ دستور بنانے کے امکانات ختم ہوگئے۔دوسری غلطی یحییٰ خان نے کرکے اپنی سیاسی بصیرت کے فقدان کا ثبوت دیدیا اور یہ ثابت کردیا کہ وہ سیاسی پیچیدگیوں اور آئینی مسائل کا ادراک نہیں رکھتے کیونکہ دونوں صوبوں کے درمیان برابری یا پیرٹی کا اصول طے شدہ تھا جس کا پنڈورو بکس کھولنا ایک فاش غلطی تھی۔آئین کیسا بنے گا اس کا فیصلہ انتخابات کے بعد معرض وجود میں آنے والی قومی اسمبلی نے کرنا تھا اس لئے بنیادی فیصلے بھی اسی اسمبلی پر چھوڑ دینے چاہیے تھے۔ اگرچہ ایل ایف او کے مطابق اسمبلی 120دنوں میں آئین بنانے کی پابند تھی لیکن یحییٰ خان کی فوجی نگاہیں یہ نہ دیکھ کر سکیں کہ جب ایک بار اسمبلی منتخب ہوجائے تو غیر سیاسی حکمرانوں کے کنٹرول سے آزاد ہوجاتی ہے اور فوجی بندوق کی تابع نہیں رہتی۔انتخابات کا اعلان ہوا تو یحییٰ خان کو ایجنسیوں نے بتایا کہ مخلوط حکومت بنے گی اور مجیب الرحمن اکثریت حاصل نہیں کرسکے گا۔
یحییٰ خان نے سیاسی مسئلے کو سیاست سے حل کرنے کی بجائے فوجی طریقہ استعمال کیا اور آرمی ایکشن کا حکم دیدیا۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ دراصل مارچ1971 کے آرمی ایکشن نے ہی پاکستان توڑ دیا تھا، باقی ساری رسمی کارروائی تھی۔آرمی ایکشن کے نتیجے کے طورپر مجیب الرحمن گرفتار ہوگیا،عوامی لیگ کی قیادت ہندوستان جاکر پناہ گزین ہوگئی اور ان گنت لوگ مارے گئے اور ساتھ ہی کچھ فوجی چھائونیوں میں بھی بغاوت ہوگئی۔یہ ہندوستان کیلئے ایک تاریخی اور سنہری موقع تھا جس کا اسے ہمیشہ سے انتظار تھاچنانچہ ہندوستانی حکومت کے زیر سایہ عوامی لیگ کے لیڈروں نے کلکتہ میں جلا وطن بنگلہ دیش حکومت قائم کرلی اور وہ آرمی ایکشن کے دوران قتل و غارت کو مبالغہ آمیز انداز سے عالمی سطح پر پیش کرکے دنیا کی ہمدردیاں جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔یحییٰ خان اس چیلنج کا جواب نہ دے سکا کیونکہ عالمی رائے عامہ فوجی اقدام کے خلاف اور منتخب لیڈروں کے حق میںتھی۔
یحی خان اکیلا اس سانحے کا ذ مے دار نہیں تھا۔ شیخ مجیب الرحمن، ذوالفقار علی بھٹو اور ہندوستان کی وزیر اعظم اندرا گاندھی سب ہی اس بین الا قوامی سازش کا حصہ تھے۔
حوالہ : کتاب ’’پاکستان کیوں ٹوٹا؟‘‘ تصنیف،ڈاکٹر صفدر محمود
حوالہ کتاب” اے نیشن ان میکنگ‘‘ شاہد جاوید برکی
جماعت اسلامی کی دستوری جدوجہد: از میاں طفیل محمد
(جاری ہے)

حصہ