حیا کا کلچر عام کرنا۔۔۔

1268

قدسیہ ملک
(قسط نمبر 2)
محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو ہلاک کرنا چاہے تو اُس سے شرم و حیا چھین لیتا ہے‘‘۔
حیا کا مفہوم اس قدر وسیع ہے کہ یہ معاشرتی زندگی کے ہر ہر پہلو کا احاطہ کرسکتا ہے۔ حیا صرف یہ نہیں ہوتی کہ حجاب لے لیا جائے یا ساتر لباس پہن لیا جائے، بلکہ حیا کی وسعت کا اندازہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار، احادیث اور سنت سے بخوبی ہوجاتا ہے۔ تمام انبیاء علیہم السلام باحیا تھے اور حیا کو پسند کرنے والے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک عظیم پیغمبر تھے جو اللہ سے براہِ راست ہم کلام ہوئے۔ ایک مرتبہ سفر میں تھے، گرمی کا موسم تھا، پاؤں ننگے تھے۔ سفر کی تھکاوٹ اور پیدل چل چل کر پاؤں میں چھالے پڑچکے تھے۔ ذرا آرام کرنے کے لیے درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ فاصلے پر کنواں ہے، وہاں سے کچھ نوجوان اپنی بکریوں کو پانی پلا رہے ہیں اور اُن سے کچھ فاصلے پر دو باحیا لڑکیاں کھڑی ہیں۔ جب آپؑ نے ان کو دیکھا تو حیرانی کی انتہا نہ رہی، سوچنے لگے کہ یہ دونوں لڑکیاں جنگل میں کھڑی ہوکر کس کا انتظار کررہی ہیں؟ حضرت موسیٰؑ نے جب وجہ پوچھی تو پتا چلا کہ ان کا کوئی بھائی نہیں ہے، باپ بوڑھا ہے، وہ اس قابل نہیں کہ چل پھر سکے۔ دونوں اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے لیے آئی ہیں کہ جب تمام لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا کر چلے جائیں تو آخر میں یہ اپنی بکریوں کو پانی پلائیں گی۔ حضرت موسیٰؑ ان کی بات سننے کے بعد آگے بڑھے، خود پانی کنویں سے نکالا اور ان کی بکریوں کو پلا دیا۔ لڑکیاں جب خلافِ معمول جلدی گھر پہنچیں تو باپ نے جلدی آنے کی وجہ پوچھی، دونوں نے باپ کو پوری حقیقت سے آگاہ کردیا۔ باپ خود بھی پیغمبر تھے، انہوں نے فرمایا کہ جاؤ اس نوجوان کو بلاکر لاؤ تاکہ ہم اس کو پورا پورا بدلہ دیں۔ جب ایک لڑکی حضرت موسیٰؑ کو بلانے آئی تو وہ کس طرح آئی، اس کا انداز کیا تھا؟ قرآن نے اس کے چلنے کا انداز جو کہ شرم و حیا سے لبریز تھا، اس طرح بیان کیا ہے: (ترجمہ) ’’پھر ان دونوں میں سے ایک، شرم و حیا سے چلتی ہوئی آئی۔ وہ کہنے لگی کہ میرا باپ آپ کو بلاتا ہے تاکہ آپ نے ہمارے جانوروں کو جو پانی پلایا ہے اس کا بدلہ دے۔‘‘ (القصص25)
عملی اعتبار سے حیا کے تین شعبے ہیں:
1۔ اللہ سے حیا
2۔ لوگوں سے حیا
3۔ اپنے نفس سے حیا
1۔ اللہ سے حیا: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ سے اتنی حیا کرو جتنا اس کا حق ہے‘‘۔ ہم نے عرض کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ کا شکر ہے کہ ہم اس سے حیا کرتے ہیں‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ٹھیک ہے، لیکن اس کا حق یہ ہے کہ تم اپنے سر اور جو کچھ اس میں ہے اس کی حفاظت کرو، پھر پیٹ اور اس میں جو کچھ اپنے اندر جمع کیا ہوا ہے اس کی حفاظت کرو، اور پھر موت اور ہڈیوں کے گل سڑجانے کو یاد کیا کرو، اور جو آخرت کی کامیابی چاہے گا وہ دنیا کی زینت کو ترک کردے گا، اور جس نے ایسا کیا اُس نے اللہ سے حیا کرنے کا حق ادا کردیا۔‘‘ (جامع ترمذی)
اس حدیث میں اللہ سے حیا کا مطلب جو بتایا گیا ہے سب سے پہلے اس میں سر کا ذکر کیا گیا ہے جسے خدا نے انسانی تقدس عطا فرمایا ہے۔ سب سے پہلے سر کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے نہ جھکایا جائے، یہ اللہ سے حیا ہوگی، اور نہ سر کو تکبر و غرور میں بلند کیا جائے۔ سر کے ساتھ کئی چیزوں سے مراد زبان، آنکھ، کان ہیں۔ اور ان کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ ان اعضاء کو گناہوں سے بچایا جائے، جیسے زبان سے جھوٹ، غیبت، چغلی، عیب جوئی، زبان درازی نہ کی جائے۔ اسی طرح آنکھ سے گناہ سے بچا جائے، آنکھ سے گناہ کی چیزیں نہ دیکھی جائیں۔ کان سے کسی کی غیبت اور جھوٹ نہ سنا جائے، یا گانے و فحش باتیں نہ سنی جائیں۔ بالکل اسی طرح پیٹ کے ساتھ کی چیزوں سے جسم کے وہ حصے اور اعضاء مراد ہیں جو پیٹ سے ملے ہوئے ہیں جیسے ستر، ہاتھ، پاؤں، دل وغیرہ۔ ان سے یہ مطلب ہے کہ جسم کے اعضاء اور حصوں کو بھی گناہ سے حتی الامکان محفوظ رکھا جائے۔ جیسے ستر کی حفاظت کی جائے، پیروں کو گناہ آلود ہونے سے بچایا جائے، دل کو برے عقائد، برے نظریات، گندے خیالات اور اللہ کے سوا کسی دوسرے کی یاد سے پاک رکھا جائے۔ کیوں کہ یہ فانی جسم خواہ کتنا ہی حسین وجمیل، خوبصورت، کم عمر، لچکدار، محنتی، باعظمت، باعزت کیوں نہ ہو، آخر ایک دن قبر کی آغوش میں سلا دیا جائے گا جہاں گوشت اور ہڈیاں تک بوسیدہ ہوجائیں گی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ سے حیا کرنے کا حکم دیا گیاہے۔
2۔ لوگوں سے حیا: لوگوں سے حیا یہ ہے کہ حقوق العباد ہر ممکن طریقے سے ادا کیے جائیں۔ اس میں والدین کے حقوق، اساتذہ کے حقوق، میاں بیوی کے حقوق، اولاد کے حقوق، دوست، احباب، ساتھ چلنے، اٹھنے بیٹھنے والوں، ہمسایوں کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، بزرگوں کے حقوق شامل ہیں جس سے معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔ اسلام دینِ فطرت ہے، اسلام کے احکامات پر عمل کرنا فطرت کے عین مطابق ہے۔ ان تمام لوگوں کے سامنے جن باتوں کے اظہار کو معیوب اور برا سمجھا جاتا ہے ان کے اظہار سے بچنا دراصل حیا ہے۔ ان تمام معاشرتی افراد کے حقوق ادا کرنا ہی دراصل حیا ہے۔ ان لوگوں کے حقوق میں دست درازی کرنا یا ان کے حقوق ادا نہ کرنا دراصل بے حیائی ہے۔
3۔ اپنے نفس سے حیا: اپنے نفس سے حیا یہ ہے کہ نفس کو ہر برے، قابلِ گناہ، قابلِ مذمت اور قابلِ شرم کاموں سے بچایا جائے۔ معصیت کے ہر کام پر روک تھام کے لیے نفسِ لوامہ کی بات سنی جائے۔ اپنے نفس کو نفسِ امارہ سے روکا جائے اور نفسِ مطمئنہ جیسے نفس کی جانب راغب کیا جائے تاکہ ابدی قیام کی جنتوں میں ہمیشگی کی زندگی ممکن ہوسکے۔
جس طرح پیٹ، دماغ، بدن، زبان اور جسم میں موجود تمام نعمتوں کے استعمال میں اللہ سے حیا کرنی چاہیے، بالکل ایسے ہی دماغ سے اٹھنے والے خیالات کے بارے میں بھی اللہ سے حیا کرنی چاہیے۔ حضرت ابو امامہ ؓنے روایت کیا ہے کہ محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ’’جس مردِ مومن کی کسی عورت کے حسن و جمال پر نظر پڑ جائے پھر وہ اپنی نگاہ نیچی کرلے تو اللہ تعالیٰ اس
کو ایسی عبادت نصیب فرمائے گا جس کی لذت و حلاوت اس مردِ مومن کو محسوس ہوگی۔‘‘ حضرت ام سلمہ ؓبیان کرتی ہیں کہ میں اور حضرت میمونہؓ محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی تھیں کہ ایک نابینا صحابی ابن ام مکتومؓحاضر خدمتِ اقدس ہوئے تو ہمیں حکم ہوا کہ ’’تم (دونوں) ان سے پردہ کرو‘‘۔ ہم نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!کیا وہ نابینا نہیں؟‘‘ پس محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم (دونوں) بھی نابینا ہو؟ کیا تم (دونوں) انہیں نہیں دیکھتیں؟‘‘ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پہلی بار دیکھنا غلطی ہے، دوسری بار دیکھنا جان کر گناہ کرنا ہے، اور تیسری بار دیکھنا ہلاکت ہے، انسان کا عورت کے جسمانی محاسن دیکھنا ابلیس کے تیروں میں سے ایک زہر آلود تیر ہے، جس مسلمان نے اس کو اللہ کے خوف سے اور اللہ کے پاس موجود انعامات کے حاصل کرنے کی امید میں چھوڑ دیا تو اللہ اس کی وجہ سے اُس کو ایسی عبادت نصیب فرمائیں گے، جو اُس کو اپنی عبادت اور نظر کی پاکیزگی کا مزا نصیب کرے گی۔ جہاں ہر طرف بے پردگی، بے حجابی، عریانی اور فحاشی کا بازار گرم ہو، وہاں اپنی نگاہوں کو بچانا مشکل ہوجاتا ہے۔ مگر اللہ کے جن نیک بندوں کو ایمان کی حلاوت حاصل کرنا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق اور محبت ہوتی ہے اور باطن کی صفائی و طہارت جن کے مدنظر ہوتی ہے وہ اس کڑوے گھونٹ کو ہمت کرکے پی جاتے ہیں، اور جب ان کو عادت ہوجاتی ہے تو اس کی حلاوت محسوس کرتے ہیں اور چین و سکون سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر بے انتہا انعامات کی بارش فرماتے ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ یہ نگاہ اور خیالات کی حیا ہے۔
روزِ اوّل سے شیطان کا یہی مقصد ہے کہ وہ انسان کی حیا پر وار کرے۔ اس لیے دشمنانِ اسلام بھی اسلام کو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے مسلمانوں کی حیا ہی پر وار کرتے ہیں۔ دشمنانِ اسلام تحقیق کے ذریعے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسلمان کی حیا کہاں کہاں متاثر ہوسکتی ہے۔ اسی لیے اسمارٹ فون، انڈووژول ڈیوائسز کا تصور آیا۔ اگر اللہ کا خوف نہ ہو تو انسان اکیلے میں اسمارٹ فون میں بآسانی گناہ کی طرح راغب ہوجاتا ہے۔ ہمیں اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا ہے کہ ہمارا رب اور ہمارا خالق و مالک تنہائیوں میں بھی ہمارے اعمال سے پوری طرح واقف ہے۔ آج کے دور میں ایک بندۂ مومن کے لیے پہلے کی نسبت حیا بچانا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ خوف و للہیت کی ضرورت پہلے کی نسبت اب بہت بڑھ گئی ہے، کیونکہ مسلمان کو بھٹکانے کے لیے نت نئے آلات جنم لے رہے ہیں، اس کے علاوہ ڈراموں، فلموں، مارننگ شوز، مختلف ٹی وی پروگراموں کے ذریعے معاشرے میں بے حیائی پھیلائی جارہی ہے تاکہ مسلمانوں کی حیا ختم ہوجائے… اور جب حیا چلی جائے گی تو ایمان خودبخود رخصت ہوجائے گا۔ جمہور صحابہ و تابعین اور عام مفسرین کے نزدیک لہوالحدیث سے مراد گانا بجانا اور اس کا ساز وسامان ہے، اور سازو سامان موسیقی کے آلات ہیں۔ اس کے علاوہ ہر وہ چیز جو انسان کو خیر اور بھلائی سے غافل کردے اور اللہ کی عبادت سے دور کردے، لہوالحدیث ہے۔ لہوالحدیث میں بازاری قصے کہانیاں، افسانے، ڈرامے، ناول اور سنسنی خیز لٹریچر، رسالے اور بے حیائی کا پرچار کرنے والے اخبارات… سبھی آجاتے ہیں۔ اور جدید ترین ایجادات ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، ویڈیو فلمیں، ڈش انٹینا وغیرہ اسی میں شمار ہوتے ہیں۔ آج میڈیا پر دن رات یہی راگ الاپے جاتے ہیں کہ یہی زندگی ہے… کھالے، پی لے، جی لے… جیسے چاہو جیو… زندگی کا مزا لو… وغیرہ۔ ایسی باتوں کی تکرار اور قرآن سے دوری کے سبب آج پاکستانی قوم نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے رب کے پیغام کو بھولتی جارہی ہے۔ اسلام کے نام پراور بیش بہا قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والی مدینہ ثانی ریاست کے باشندے اپنے اصل پیغام کو کیسے بھولتے جارہے ہیں اس کا ایک سبب یہی میڈیا اور بے لگام فحش انٹرنیٹ مواد ہے جو ہر خاص و عام، چھوٹے بڑے، بوڑھے وجوان، عورت و مرد کو بآسانی مہیا کیا جارہا ہے۔ اس کے لیے آپ کو زیادہ محنت بھی نہیں کرنی پڑتی، بس ایک کلک کیجیے اور دنیا آپ کی انگلیوں پہ ہے۔ اور جب حیا ختم ہوجائے تو ایمان آہستہ آہستہ خودبخود رخصت ہوجاتا ہے۔
(جاری ہے)

حصہ