مشکلات جینے کی راہیں دکھاتی ہیں

476

افروز عنایت
بینش: مما یہ بھی کوئی زندگی ہے، گھٹ گھٹ کر اپنی خواہشات کا گلا گھونٹنا! صارم سے کوئی فرمائش کرو تو دس دوسرے اخراجات کی بات کرتا ہے… بھائی کی فیس دینی ہے، اماں کی دوائی لینی ہے۔ میرے ارمان تو گھٹ کر اندر ہی اندر رہ گئے ہیں۔ اب اُس کے ہاتھ ایک نیا بہانہ آگیا ہے، کہتا ہے بچے کے اخراجات بڑھ جائیں گے، اس لیے اپنی ضرورتوں کو کچھ باندھ کر رکھو۔
مما (سحر): بیٹا وہ کوئی غلط نہیں کہتا، ظاہر ہے اُس کے اوپر ذمہ داریاں ہیں، انہیں پورا کرنے کے لیے وہ محنت و مشقت کررہا ہے، پھر اللہ نے چاہا تو تمہارے حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔
بینش: نہیں ممااب میں اس گھر میں نہیں جائوں گی۔ سب گھر والوں کی خدمت اور پھر سب کے ناز نخرے، اور اوپر سے صارم کی کنجوسی۔
سحر: نہیں… نہیں ایسی بات زبان سے نہ نکالنا۔ عورت کا مقام، اس کی عزت… سب کچھ اس کے شوہر کے دم سے ہی قائم ہے، ورنہ تو یہ معاشرہ اسے جینے نہیں دیتا… اور یہ کوئی اتنا بڑا ایشو نہیں ہے کہ تم اس پر بلاوجہ انتہائی سخت قدم اٹھائو۔ کاش… کاش کہ میری ماں نے… خیر بیٹا آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہوجائے گا، اتنی لالچ اور ناشکری صحیح نہیں۔ تمہارا شوہر تم سے اور بچے سے پیار کرتا ہے… اور تمہارے سسرال والے… وہ بھی بُرے نہیں ہیں۔ آئندہ کوئی ایسی بات زبان پر پھر نہ لانا۔ اپنی خواہشات کو اعتدال کے مطابق پورا کرنے کی کوشش کرو۔
بینش ماں کے سمجھانے پر بہت حد تک بہل گئی اور سسرال چلی گئی۔
٭٭٭
سحر بانو بستر پر لیٹی تو نیند اُس سے کوسوں دور تھی۔ کروٹیں بدلتی رہی۔ اس کی آنکھیں ماضی کو یاد کرکے آبدیدہ ہوگئیں۔ کاش اماں نے اُس وقت مجھے بھی اسی طرح سمجھانے کی کوشش کی ہوتی تو آج یوں تنہائی کے عذاب نہ جھیل رہی ہوتی۔ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی… آہ… میری ناشکری، بے صبرا پن جس نے میرا اپنا گھر ڈھا دیا، مٹی کے گھروندوں کی طرح۔ پھر وہ ماضی کو کھرچتے کھرچتے بہت دور نکل گئی، جہاں نفسانی خواہشات نے اس کی زندگی کی خوشیاں چھین لی تھیں۔
٭٭٭
سحر چار بھائیوں کی اکلوتی بہن اور والدین کی لاڈلی بیٹی تھی۔ نازو نعم میں پل کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو وقت آگے کی طرف سرکنے لگا، لیکن کوئی رشتہ ڈھنگ کا نظر نہ آیا یا دل کو نہ بھایا۔ اختر، سحر کا ہم عمر خوبرو جوان تھا جس کے رشتے پر والدین سوچنے پر مجبور ہوگئے۔ گوکہ اختر کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا اور اُس کی ملازمت کو ایک سال ہی ہوا تھا، آمدنی زیادہ نہ تھی۔ اختر کے گھر والوں نے ہر بات واضح کردی تاکہ آگے چل کر کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ اگرچہ سحر کا تعلق بھی بہت زیادہ امیر گھرانے سے نہ تھا لیکن خوشحال گھرانہ تھا، والد کے ساتھ بھائی بھی برسرروزگار ہوگئے تھے، اس لیے گھر میں خوشحالی آگئی تھی۔ رشتہ طے پایا۔ بیٹی کو والدہ نے سنہرے سپنوں کے سہارے بیاہ دیا۔ وہ بچی جو سنہرے سپنوں کو لے کر سسرال پہنچی تو اسے سخت مایوسی ہوئی۔ اس نازک موقع پر اگر والدہ اسے کچھ صبر و شکر کی تلقین کرتیں تو شاید معاملہ نبٹ سکتا تھا، یا کچھ سمجھوتے کی صورت نکل سکتی تھی۔ شادی کے اگلے ہی دن اُسے، شوہر کی طرف سے منہ دکھائی میں ملنے والے تحفے پر اعتراض تھا۔ وہ سنہرے سپنوں میں جینے والی لڑکی تھی، شوہر کے کم قیمت تحفے پر تلملا اُٹھی بلکہ اعتراض بھی کرڈالا اور کھلے عام لوگوں میں اس بات کا اظہار بھی کرنے لگی کہ اختر فرمائش پوری کرنے سے قاصر ہے، میرے دل میں جو خواہشات ہیں وہ پوری نہیں ہوتی ہیں، میں ایک ایک چیز کے لیے ترس ترس کر زندگی گزارنا نہیں چاہتی۔ کچھ دوستوں، عزیزوں نے اسے سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہوجائے گا، ظاہر ہے ابھی اس کے شوہر کی نئی نئی ملازمت ہے، آئندہ ترقی کے چانسز ہیں۔ لیکن وہ ان باتوں کو ایک کان سے سنتی اور دوسرے سے نکال دیتی، کہ یہ صرف سسرالیوں کی رائے ہے جسے وہ کوئی اہمیت دینے کو تیار نہ تھی۔ گھر میں صرف ساس اور سسر تھے، نند جو خوشحال گھرانے میں بیاہی ہوئی تھی اُس کی خوشحالی اور آسودگی سحر کو ایک آنکھ نہ بھاتی۔ اس کی سوچ یہ تھی کہ یہ نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور لگژری زندگی گزار رہی ہے، یہ سب مجھے بھی حاصل ہونا چاہیے۔ اس کا ردعمل یہ سامنے آیا کہ شوہر سے جھک جھک شروع ہوگئی، ساس کے ساتھ بے رخی برتنے لگی۔ اس طرح گھر میں ایک خاموش سرد جنگ کا آغاز ہوچکا تھا جس نے اس گھر میں بسنے والے چاروں افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جب سحر حاملہ ہوئی تو گھر والوں نے سکون کا سانس لیا کہ شاید اب وہ سمجھوتا کرلے۔ لیکن اس کے رویّے میں نرمی آنے کے بجائے تلخی بڑھتی گئی۔ اس نازک موقع پر ایک ہی ایسی ہستی تھی جو اسے رام کرسکتی تھی، وہ تھی اس کی ماں، جن کے وہ بہت قریب تھی۔ لیکن بجائے بیٹی کو صبر و شکر کی تلقین کرنے کے، وہ بیٹی کے سامنے لمبی، ٹھنڈی سانسیں بھرتیں کہ ہائے میری بیٹی زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے لیے ترس کر رہ گئی ہے، خاندان کی ساری لڑکیاں سُکھ کی زندگی گزار رہی ہیں، اسے بھی یہ سب حاصل ہونا چاہیے۔ دوسری طرف اختر اس پوزیشن میں نہ تھا کہ وہ اسے لگژری لائف مہیا کرے، لیکن وہ اسے تسلی ضرور دیتا کہ وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہوجائے گا، ہم بے شک لگژری زندگی نہیں گزار رہے لیکن بُری بھی نہیں گزار رہے، عزت کی روٹی کھارہے ہیں، بچہ آئے گا تو اپنا نصیب لائے گا، رب العزت کے حکم سے بہتری آئے گی۔ لیکن سحر کی من کی خواہشات نے اس کے دل میں شوہر کی محبت کو گھر کرنے نہ دیا، نہ ہی اسے سسرال والوں سے کوئی لگائو تھا۔ بیٹی کی پیدائش کے بعد اس نے شوہر سے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ نہ خود سسک سسک کر زندگی گزارے گی اور نہ بیٹی پر یہ ظلم کرے گی۔ لہٰذا خلع لے کر والدین کے گھر جا بیٹھی۔ اختر اور اُس کے گھر والے ہاتھ مَلتے رہ گئے۔
ماں باپ کے گھر میں روپے پیسے کی ریل پیل تھی۔ ماں نے سحر اور اس کی بیٹی کے ناز اٹھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ سحر کی ماں نے پہلے تو بہت کوشش کی کہ بیٹی کا کہیں اچھی جگہ رشتہ ہوجائے۔ لیکن جو بھی رشتہ آتا بال بچوں والے، رنڈوے یا عمر رسیدہ کا آتا۔ سحر نے ماں کے گھر میں ہی رہنا پسند کیا، کیونکہ وہ اپنی نومولود بیٹی کو بھی نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔ بھائیوں نے بھی بھانجی کے خوب لاڈ اٹھائے، لیکن جب ان کی شادیاں ہوتی گئیں وہ اپنی اپنی ذمہ داریوں میں مصروف ہوتے گئے۔ ان کی اولادیں ہوئیں تو انہوں نے ہر بات پر فوقیت اپنی اولادوں کو دینا شروع کردی۔ اس وقت سحر کو پہلی مرتبہ محسوس ہوا کہ بچی کے ساتھ کچھ غلط ہورہا ہے۔ سحر کو یہ بھی خدشہ تھا کہ والدین کے بعد بھائیوں پر اس کی ذمہ داری آجائے گی تو نہ جانے آگے ان سب کا میرے ساتھ اور بچی کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ گوکہ اماں اب بھی بھابھیوں پر اس کو ہی فوقیت دے رہی تھیں، جس کی وجہ سے بھابھیاں بھی اس سے اکھڑی اکھڑی رہنے لگیں، بلکہ اکثر آپس میں چپکے چپکے کچھ باتیں کررہی ہوتیں اور جیسے ہی سحر کو آتے دیکھتیں، موضوع بدل دیتیں۔ یہ صورت حال سحر کے لیے سخت اذیت ناک تھی، اسے پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ اس نے غلطی کردی ہے۔ شوہر دولت مند نہ تھا لیکن اسے عزت اور وقار حاصل تھا۔ اب وہ کہیں جاتی اور لوگ اسے دیکھتے تو وہ خیال کرتی کہ اسے شاید ہمدردی یا تحقیر آمیز نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں، اسی لیے اس نے لوگوں سے زیادہ ملنا جلنا بھی چھوڑ دیا۔ ابا نے اس تبدیلی کو نوٹ کیا تو سوچ سمجھ کر گھر کا اوپر کا حصہ اس کے نام کردیا تاکہ ان کے بعد اسے پریشانی نہ ہو۔ لیکن جیسے جیسے زندگی آگے کی طرف سرک رہی تھی اسے اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوتا جارہا تھا کہ کاش کچھ عرصہ مَیں صبر کے ساتھ اختر کے حالات کو برداشت کرلیتی۔ اب بچی بھی بڑی ہورہی تھی، وہ باپ کی کمی محسوس کرنے لگی تھی، خاص طور پر اسکول میں فادر ڈے آتا تو وہ ماں سے ضرور کہتی کہ مما باقی بچوں کے تو ابو ضرور آتے ہیں، میرے ساتھ صرف آپ اور نانا ہوتے ہیں! اس کے پاس بچی کے ان سوالوں کے جواب نہ تھے۔ رفتہ رفتہ بچی بھی حالات سے واقف ہوتی گئی، اس نے باپ کے بارے میں سوال کرنا ہی چھوڑ دیا۔ ابا کے بعد تو سحر کو لگا جیسے اس کے سر سے رہی سہی چھت بھی اُٹھ گئی ہے۔ بچی نے جوانی میں قدم رکھا تو سحر کو اُس کی فکر کھا گئی کہ اب وہ آئندہ کس طرح لوگوں کا سامنا کرے گی۔ اماں بھی بیمار رہنے لگی تھیں۔ اس نے سوچا ابھی اماں کا سہارا ہے، ان کی زندگی میں ہی بچی کو بیاہ دوں، نہ جانے آگے کیا حالات ہوں۔ صارم کا تعلق متوسط طبقے سے تھا، سحر نے بیٹی کو باور کروایا کہ وہ آنے والے حالات میں صبر و شکر کا مظاہرہ کرے گی، جو کچھ اس کے نصیب میں ہوگا رب العزت اس سے اسے ضرور نوازے گا۔ جبکہ صارم کی آمدنی معقول ہے لیکن اس پر گھر کی کچھ ذمہ داریاں عائد ہیں جس کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ کچھ وقت پریشانی میں گزرے۔ بس تم اپنی خواہشات کو قابو میں رکھنا۔
آج بیٹی کی بات سن کر اس نے عہد کیا کہ وہ اپنی بیٹی کو کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے روکے گی، اسے سمجھائے گی اور اپنی زندگی کے تلخ اوراق اس سے ضرور شیئر کرے گی۔ کاش… کاش کہ میری ماں بھی مجھے روکتیں، دنیا کی حقیقتوں سے آشکار کرتیں کہ بن شوہر کے بیوی اور بن باپ کے بیٹی کو کن دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے، بڑے بڑے ایشوز سے نجات کے لیے طلاق کا راستہ ہے، لیکن معمولی ایشوز پر اس انتہائی راستے کو منتخب کرنا نادانی ہے جو تمام زندگی عورت کا پیچھا کرسکتی ہے۔
٭٭٭
سحر کے حالاتِ زندگی معلوم کرکے یہ احساس راسخ ہوگیا کہ دین اسلام نے صبر و شکر کی تلقین کیوں فرمائی ہے۔ نہ صرف دنیاوی مفاد بلکہ اس میں رب کی رضا بھی ہے۔ رب العزت اپنے بندوں سے مائوں سے بھی ستّر گنا زیادہ محبت کرتا ہے، وہ اپنے بندوں سے ناانصافی کر ہی نہیں کرسکتا، ہاں آزمائشیں ضرور آتی ہیں زندگی میں، لیکن اس کی رحمتوں کے راستے تو بندوں پر کھلے ہوئے ہیں۔ میں اپنے آس پاس نوبیاہتا بچیوں سے یہی کہتی ہوں کہ 30۔35 فیصد بچیاں بھی ایسی نہیں ہوتیں کہ انہیں شادی کے بعد تمام آسائشیں ’’بغیر ہلے‘‘ مل جائیں، ان آسائشوں کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، محنت کام آتی ہے۔ اور ضروری نہیں کہ ہر آسائشِ زندگی کسی لڑکی کو دنیا کا ہر سکون اور ہر خوشی مہیا کرے۔ دل کی خوشی اور سکون کے لیے سازگار ماحول اور محبت کرنے والے لوگوں کا ساتھ ہونا لازمی ہے۔
٭٭٭
دوسری اہم اور ضروری بات جو قارئین نے اس واقعے سے نوٹ کی ہوگی کہ طلاق ایک انتہائی قدم ہے، جب سارے راستے بند ہوجائیں اور سمجھوتے کی کوئی صورت نظر نہ آئے تو یہ راستہ اختیار کیا جائے۔ رب العزت کے نزدیک بھی یہ جائز لیکن ناپسندیدہ فعل ہے، کیونکہ طلاق کے بعد بہت سے تلخ حقائق سامنے آتے ہیں جو عورت، اور اگر اس کی اولاد بھی ہے تو اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ چند فیصد ہی ایسے واقعات ہمارے اردگرد نظر آتے ہیں جن میں ملوث یا متاثر خواتین و بچوں کو کسی بھی پریشانی یا تکلیف سے دوچار نہیں ہونا پڑتا، لیکن ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے۔ زیادہ تر ایسی صورت حال عورت اور اس کی اولاد کو ہی نہیں بلکہ اس سے وابستہ محبت کرنے والے رشتوں کو بھی اپنی جکڑ میں لے لیتی ہے۔ اسی لیے مائوں کو اپنی بیٹیوں کو میکے کی دہلیز پار کرنے سے پہلے صبر و شکر، سمجھوتے اور رشتوں کو ایمان داری سے نبھانے کی تلقین بھی کرنی چاہیے۔ یہ میرا تجزیہ ہے کہ بعض لڑکیاں شادی کے بعد معاشی دشواریوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں، لیکن اپنے سلیقے، سگھڑ پن، محنت، ایمان داری، خلوص، صبر و شکر کی خصلتوں کی بدولت مشکل راستوں سے بھی بآسانی گزر جاتی ہیں، بلکہ یہ مشکل راہیں انہیں صحیح طریقے سے جینے کا سلیقہ سکھادیتی ہیں۔

وہ راہیں وہ پگڈنڈیاں ان لمحوں میں گراں تھیں
پر جینے کی نئی راہیں سکھا گئیں…
nn

حصہ