مایوسی کفر ہے

676

سیدہ امبرین عالم
سعدیہ بیگم فقط 27 سال کی تھیں جب انہیں بیوگی کا غم سہنا پڑا۔ بڑی بچی ہما چار سال کی تھی اور چھوٹا بیٹا معاذ محض تین ماہ کا تھا۔ جیسا کہ زمانے کا دستور ہے سب نے ہی نگاہیں پھیر لیں۔ اللہ کا کرم تھا کہ گھر اپنا تھا اور اچھا خاصا بڑا تھا، گھر میں ہی ٹیوشن کلاسیں رکھ لیں۔ ماشاء اللہ سعدیہ بیگم ریاضی کی ماہر تھیں، سو اللہ نے برکت دی اور گاڑی چل پڑی۔ بس ایسا تھا کہ ضروریات سب پوری ہوجاتی تھیں لیکن خواہشات کے لیے تنگی تھی۔ میٹرک کرتے ہی ہما بھی بچوں کو پڑھانے لگی، مگر مہنگائی اتنی تھی کہ سال میں کبھی عید اور بقرعید کے سوا جوڑا نہ بنا سکی، نہ اپنی سالگرہ کے سوا زنگر برگر کھانے کو ملتا۔ اور ہما کا حال یہ تھا کہ دل میں خواہشات کی ایک دنیا آباد تھی، ہر نئی خواہش کی عدم تکمیل پر اللہ تعالیٰ سے کچھ اور ناراض ہوجاتی… کچھ اور شکوے، کچھ اور تلخی۔ اب تو یہ حال تھا کہ غصے میں نماز بھی نہ پڑھتی، قرآن بھی نہ پڑھتی۔
ہما: امی! کیا آپ واقعی مانتی ہیں کہ اللہ ہے؟
سعدیہ بیگم: بیٹا! تم مسلم گھر میں پیدا ہوئی ہو، کیسی باتیں کررہی ہو!
ہما: امی اگر اللہ ہے تو انصاف کیوں نہیں کرتا؟ کسی کو اتنا نواز دیا کہ اُن کے کتے بھی پانچ کلو گوشت روز کھا جاتے ہیں، اور کوئی صرف بقرعید کے بقرعید گوشت کھاتا ہے، وہ بھی لوگوں کا دیا ہوا۔ کوئی محل میں رہتا ہے، کوئی جھونپڑی میں… کوئی توازن نہیں۔
سعدیہ بیگم: بیٹا! اللہ نے انسانوں کو امتحان کے لیے بھیجا ہے۔ دنیا انصاف کی جگہ نہیں ہے، یہاں کسی کو دے کر آزمایا جاتا ہے، کسی سے لے کر۔ ہر ایک کا الگ الگ امتحان ہے، بلکہ جنہیں نعمتوں سے نوازا گیا ہے وہ زیادہ مشکل میں ہیں، کیوں کہ اُن سے ایک ایک نعمت کا سوال ہوگا۔ جسے کچھ دیا ہی نہیں اُس سے حساب کاہے کا!
ہما: اگر امتحان ہے تو امتحان کے لیے پنسل، ربر، بیٹھنے کی کرسی، پنکھا، کمرہ، سب چاہیے ہوتا ہے، یعنی جو بنیادی چیزیں ہیں اُن کی فراہمی کے بعد ہی امتحان لیا جا سکتا ہے، مگر اللہ تو امتحان میں بنیادی چیز یعنی جسم کو ہی ناکارہ کردیتا ہے۔ کوئی اندھا، کوئی لنگڑا، کوئی کینسر کا مریض، کوئی فالج کا مریض۔ اللہ نے تو انسان کو امتحان کے لیے واحد چیز جسم دے کر بھیجا ہے، وہی ساتھ نہ دے تو کیسا امتحان؟
سعدیہ بیگم: بیٹا! یہ بھی ایک طرح کا امتحان ہے، اور ہر ایک کا حساب کتاب اُس کے امتحان کے مطابق ہی ہوگا۔ جو لنگڑا ہے اُس سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تم روز پانچ وقت مسجد کیوں نہیں جاتے تھے، جو کینسر کا مریض ہے اُس سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تم نے اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہیںکیا۔ اللہ تعالیٰ بڑا منصف ہے بیٹا۔
ہما: مجھے تو بہت تکلیف ہوتی ہے یہ دیکھ کر کہ کوئی تو کچرے سے چُن کر کھا رہا ہے اور کوئی ایک وقت میں تین ہزار کا پیزا کھا جاتا ہے۔
سعدیہ بیگم: اس ظلم میں کچھ ہم انسانوں کی بھی کوتاہی ہے، اگر ہم اللہ کا بھیجا ہوا نظام نافذ کرتے تو حالات خاصے بہتر ہوتے۔
ہما: نہیں، پھر بھی معاذ گورا اور سب کا چہیتا ہوتا، اور میں کالی اور قابلِ نفرت رہتی۔
سعدیہ بیگم: بے شک اسلامی نظام نافذ ہوجانے کی صورت میں بھی انسانوں میں کئی چیزوں میں اونچ نیچ ہوگی۔ کوئی کالا، کوئی گورا، کوئی موٹا، کوئی پتلا، کوئی ذہین، کوئی بے وقوف… لیکن اس اونچ نیچ کو عدم توازن قرار نہں دیا جاسکتا، بلکہ یہ بھی امتحان ہے۔ حضرت بلالؓ کالے ہونے کے باوجود اللہ اور امت کے محبوب ہوسکتے ہیں، حضرت مکتومؓ کے لیے اُن کے نابینا ہونے کے باوجود قرآن میں آیت اتر سکتی ہے، حضرت ابوہریرہؓ بہادر نہیں تھے مگر احادیث یاد رکھ کر اللہ کے محبوب بن گئے، حضرت خالد بن ولیدؓ یادداشت کے معاملے میں حضرت ابوہریرہؓ جیسے نہیں تھے مگر وہ میرے اللہ کی بارگاہ میں اسلامی فتوحات کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور میرے اللہ کے چہیتے بن جاتے ہیں۔ آپ کے پاس اللہ کی جو عطا ہے اسی کے مطابق آپ سے سوال ہوگا، آپ سے زیادتی نہیں ہوگی، آپ جو ہو ویسے ہی اللہ کو راضی کرو۔
ہما: کیا اللہ کو نظر نہیں آتا کہ کشمیر میں کتنا ظلم ہورہا ہے، وہ مدد کیوں نہیں کرتا؟
سعدیہ بیگم: میرے اللہ کو سب نظر آتا ہے، کشمیریوں کا بہتا ہوا خون بھی اور ان کے اجڑے ہوئے گھر بھی۔ اور تم دیکھنا کہ ایک دن یہی کشمیری ساری دنیا پر راج کریں گے۔ یہ لوگ میرے اللہ سے بہت پیار کرتے ہیں، اور جو لوگ میرے اللہ سے بہت پیار کرتے ہیں میرا اللہ انہیں کچھ زیادہ ہی سختی سے آزماتا ہے، کیوں کہ جتنا بڑا مرتبہ نوازنا ہوتا ہے اتنا ہی بڑا امتحان ہوتا ہے۔ ابھی یہ لوگ امتحان سے گزر رہے ہیں اور انتہائی شان دار طریقے سے گزر رہے ہیں، جلد ہی اللہ انہیں انعامات سے بھی نوازے گا۔
ہما: یعنی آپ پر جو سختی آئی، وہ بھی امتحان تھی؟ اب اللہ ہمیں نوازے گا؟
سعدیہ بیگم: بے شک یہ سختی امتحان تھی، میرا پیارا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ اللہ ہمیں اس امتحان میں سرخرو کرے۔ جہاں تک نوازنے کا تعلق ہے تو صرف بنگلے، دولت، گاڑیاں ہی اللہ کے انعامات شمار نہیں ہوتے، بلکہ ایسی چیزیں تو زیادہ تر مبغوض لوگوں کو دی جاتی ہیں۔ انعام تو یہ ہے کہ ہماری روح نور بن جائے، ہمیں دوسرا جہاں نوازا جائے۔ انعام یہ ہے کہ ہم اللہ کے قوانین اللہ کی زمین پر نافذ کرسکیں۔
ہما: (اداس ہوکر) یعنی ہم ہمیشہ مصیبتوں میں ہی رہیں گے؟
سعدیہ ہیگم: (ناراض ہوکر) کون سی مصیبت؟ کیا کوئی ایک دن بھی تم نے خالی پیٹ گزارا ہے زندگی میں؟ ہاں یہ ہے کہ تمہیں پیزا اور برگر کھلانے کی میری اوقات نہیں ہے۔ کوئی ایک رات بھی تم نے فٹ پاتھ پر سو کر گزاری ہے؟ تمہیں چھینک بھی آجائے تو تمہارے ماں اور بھائی کتنی بھاگ دوڑ کرتے ہیں تمہارے لیے۔ تم لاوارث ہونے کا دکھ کیا جانو۔ میرے رب نے تو کبھی کوئی مصیبت پڑنے ہی نہیں دی تم پر۔ ہاں اگر تمہیں یہ شکوہ ہے کہ تم عیاشی نہیں کرسکتیں، تو دنیا کے 80 فیصد لوگ ایسی ہی زندگی گزارتے ہیں، بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو غیر ضروری خواہشات پر پیسہ لٹا سکتے ہیں۔ یہ مصیبت نہیں ہوتی، اسے صبر اور قناعت کہتے ہیں، اور اللہ رب العزت اس کا بیش بہا اجر عطا فرماتے ہیں۔ بتائو کیا چاہیے، ایک پیزا یا پوری جنت؟
ہما: (طنزیہ مسکرا کر) جو لوگ دنیا میں کچھ حاصل نہیں کرپاتے، وہ ایسے ہی جنت کو سوچ سوچ کر خوش ہوتے رہتے ہیں۔ بے فکر رہیے، اللہ تعالیٰ ہمیں جنت بھی نہیں دے گا۔ دنیا میں بھی وہی رب ہے، آخرت میں بھی وہی رب ہے۔ جس نے یہاں کچھ نہیں دیا وہ وہاں کیا دے گا!
سعدیہ بیگم: اللہ اکبر… اللہ اکبر۔ کیسی بکواس کررہی ہو تم! تم نے تو کفارِ مکہ جیسی بات کردی، وہ کہتے تھے کہ اللہ نے ہمیں یہاں ڈھیروں ڈھیر نوازا ہے تو آخرت میں بھی ہمیں ہی نوازے گا۔ اور تم کہہ رہی ہو یہاں نہیں نوازا تو وہاں بھی نہیں نوازے گا… اللہ منصف ہے، وہ انصاف کرے گا، تم کو اللہ کے انصاف پر شک ہے؟
ہما: تو اللہ نے دنیا میں کون سا انصاف کیا ہ!؟ آخرت میں کیسے انصاف کرے گا؟
سعدیہ بیگم: فرض کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں 10 کروڑ دے دے اور تمہاری آنکھیں چھین لے۔ پھر کیا دنیا کی کوئی دولت تمہیں آنکھیں واپس دلا سکتی ہے؟ کیا اس سے بڑی کوئی نعمت ہے؟ فرض کرو تمہارے گردے فیل ہوجائیں تو کروڑوں روپے بھی گردے واپس نہیں دلاسکتے۔ جو لوگ نئے گردے لگواتے ہیں وہ بھی چھ، سات سال سے زیادہ نہیں چلتے۔ تم ایک ایک چیز کو دیکھو، اللہ نے کتنا نوازا ہے۔ تم کسی کی محتاج نہیں ہو، کیا اس سے بڑی بھی اللہ کی کوئی عطا ہوسکتی ہے؟
ہما (سوچتے ہوئے): ہاں یہ تو آپ نے ٹھیک کہا، مگر آپ یہ دیکھیں کہ اللہ کسی کو زندہ جلا کر مار دیتا ہے، کسی کو ایسا بھیانک حادثہ پیش آتا ہے کہ پوری کھوپڑی پھٹ جاتی ہے، کہیں چھت گر جانے سے پورا خاندان ہلاک… اللہ کو کیا کبھی رحم نہیں آتا؟
سعدیہ بیگم: ( افسردگی سے سر ہلاتے ہوئے) میرا اللہ تمہیں ہدایت دے، میرا رب اپنے بندوں سے ستّر مائوں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ ہر ایک کی موت کا وقت اور اس کی موت کا طریقہ اس کی پیدائش کے وقت ہی لکھ دیا جاتا ہے۔ اس کا ظلم اور رحم سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تقدیر ہے۔ کیا تم نے سورۃ البروج نہیں پڑھی، ایمان والوں کو آگ کی خندقوں میں پھینک کر مارا گیا۔ کیا اللہ تعالیٰ اپنے ہی چہیتے مومنوں پر ظلم کررہا تھا؟ نہیں… ان کی موت ایسے ہی لکھی تھی، لیکن جن لوگوں نے یہ کیا، انہیں سزا ملے گی، کیوں کہ انصاف تو ہونا ہی ہونا ہے۔ بیٹا! تم اللہ کی ہر مصلحت نہیں سمجھ سکتیں، ہم اللہ کے کام کا طریقہ نہیں سمجھ سکتے۔ ہم بندے، وہ خدا۔ ہر بات میں ٹانگ مت اَڑائو۔
ہما: میرے ابو کو مار دینے میں اللہ کی کیا مصلحت تھی، کیا گناہ کیا تھا میرے ابو نے؟
سعدیہ بیگم: میرا رب تمہیں ایک مضبوط لڑکی بنانا چاہتا تھا۔ جن لڑکیوں کے باپ ہوتے ہیں، وہ باپ ایک چٹان کی طرح اپنی بیٹیوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں اور بیٹیاں ہمیشہ اپنے باپ کے بھروسے پر رہتی ہیں۔ جب کہ جن لڑکیوں کے باپ نہیں ہوتے، وہ زمانے کا ہر سردو گرم سہتے سہتے اتنی مضبوط ہوجاتی ہیں کہ دنیا میں کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا جیسا کہ تم ہو۔ بعض مواقع پر میں ڈر جاتی ہوں، تمہارا بھائی ڈر جاتا ہے، مگر تم ہمت سے ہر مسئلہ حل کرلیتی ہو۔ غور کرو، تم گھر کی سربراہ بن گئی ہو۔ اللہ تمہیں سربراہ بنانا چاہتا تھا اس لیے تمہارے ابو چلے گئے۔
ہما: باتیں بنانا بھی کوئی آپ سے سیکھے۔ آپ اپنے رب کے خلاف کچھ نہیں سن پاتیں۔
سعدیہ بیگم: ہاں تو کیوں سنوں! میں اپنے رب سے عشق کرتی ہوں، بس افسوس اس بات کا ہے کہ یہ عشق میں اپنی اولاد کی روح میں نہ اتار پائی… ہما! تم دعا کیوں نہیں کرتیِں؟ قرآن میں لکھا ہے کہ مایوسی کفر ہے، تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اللہ تم پر رحم فرمائے گا۔
ہما: (آنکھوں میں نمی لیے) کیا کروں امی، میرا دل بھی چاہتا ہے کہ کوئی چٹان کی طرح میری حفاظت کرے، میں زمانے کے سرد و گرم سہتے سہتے تھک گئی ہوں۔
سعدیہ بیگم: بیٹا کیا تم نے سورۃ النشرح نہیں پڑھی، میرا رب فرماتا ہے کہ مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے، میرا رب جب کسی محبوب بندے سے سخت امتحان لیتا ہے تو اُس کے لیے بہت سی آسانیاں پیدا کردیتا ہے۔ تم غور تو کرو، کس کس موقع پر اللہ تبارک تعالیٰ نے تمہاری غیب سے مدد فرما دی، کیا تمہاری اوقات تھی کہ انجینئرنگ یونیورسٹی کا خرچا اٹھا سکو! مگر اللہ تعالیٰ نے تمہارا وظیفہ لگوا دیا۔
ہما: (کچھ دیر خاموش رہی) مگر میں تو ہر وقت اللہ کے خلاف بولتی ہوں تو اللہ مجھے سزا دینے کے بجائے میری مدد کیوں کرتا ہے؟ مگر میری دعائیں رد کردیتا ہے۔
سعدیہ بیگم: کیوں کہ وہ صرف میرا اللہ نہیں ہے، وہ تمہارا بھی اللہ ہے۔ بچہ کتنا ہی شرارتی ہو، ماں اسے کھانا کھلانا نہیں چھوڑتی۔ میرا رب تم سے بہت پیار کرتا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہر انسان کے لیے ایک امتحان منتخب کیا جا چکا ہے، کسی کا امتحان بیوہ ہونا ہے، کسی کا یتیم ہونا… کسی کا امتحان غریب ہونا ہے، کسی کا امتحان امیر ہونا۔ جس کا جو امتحان ہے وہ اس کی تقدیر ہے۔ ہر انسان کی فرمائش پر اس کا امتحان تبدیل کردیا جائے تو یہ امتحان تو نہ ہوا، فرمائشی پروگرام ہوگیا۔ اس لیے امتحان وہی رہتا ہے لیکن دعا کے نتیجے میں امتحان میں سہولتیں دے دی جاتی ہیں۔ تم امتحان کے تبدیل ہوجانے کی دعا مت مانگو، تم امتحان کو پاس کرنے کے لیے اللہ کی مدد مانگو۔ بیٹا! میرے اللہ نے کائنات ایک منصوبہ بندی کے تحت بنائی ہے، اس منصوبہ بندی کو تقدیر کہتے ہیں۔ ہم تو مخلوق ہیں، ہمارا علم بھی کم ہے اور ہماری سمجھ بھی کم ہے۔ ہمارے کہنے پر اللہ تعالیٰ اپنی پلاننگ تو تبدیل نہیں کرسکتا۔
ہما: تو پھر وہ کیوں کہتا ہے کہ مانگو میں دوں گا؟
سعدیہ بیگم: کیا میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹوں کی زندگیاں نہیں مانگی ہوں گی، مگر یہ دعا میرے رب کی بنائی ہوئی تقدیر سے ٹکرا رہی ہے۔ تقدیر بڑی مصلحتوں کو سامنے رکھ کر بنائی جاتی ہے، اگر اس سے ٹکرانے والی دعائیں قبول کرلی جائیں تو کائنات کا نظام تباہ ہوجائے گا۔
ہما: شکریہ امی! آج میری بہت سی غلط فہمیاں دور ہوگئیں۔

حصہ