ادارۂ فکر نو کا تعزیتی ریفرنس بنام رسا چغتائی اور مشاعرہ

634

ڈاکٹر نثار احمد نثار
ادارۂ فکر نو کراچی کے زیر اہتمام 19 جنوری 2019ء بمقام گورنمنٹ گرلز کالج کورنگی نمبر 4 پروفیسر جاذب قریشی کی زیر صدارت نشان امتیاز پاکستان حاصل کرنے والے شاعر حضرت رسا چغتائی کے لیے تعزیتی ریفرنس اور مشاعرہ ترتیب دیا گیا۔ اس تقریب میں توقیر اے خان ایڈووکیٹ مہمان خصوصی جب کہ حامد اسلام خان مہمان اعزازی تھے۔ رشید خان رشید نے نظامت کی۔ تلاوتِ کلام مجید کی سعادت علی کوثر نے حاصل کی‘ راقم الحروف نثار احمد نے رسول مقبولؐ پیش کی۔ تعزیتی ریفرنس کے مقررین میں پروفیسر جاذب قریشی‘ حامد اسلام خان‘ انورانصاری‘ توقیر اے خان ایڈووکیٹ اور اختر سعیدی شامل تھے۔ پروگرام کے دوسرے دور میں پروفیسر جاذب قریشی‘ توقیر اے خان ایڈووکیٹ‘ غلام علی وفا‘ سید آصف رضا رضوی‘ فیاض علی خان‘ اختر سعیدی‘ انور انصاری‘ محمد علی گوہر‘ رشید خان رشید‘ راقم الحروف‘ سحر تاب رومانی‘ سیف الرحمن سیفی‘ یوسف چشتی‘ مقبول زیدی‘ شبیر نازش‘ احمد سعید خان‘ شاہد اقبال شاہد‘ اسد قریشی‘ گلِ انور‘ سخاوت علی نادر‘ خلیل ایڈووکیٹ زائر‘ خالد محمود رانا‘ سلیم شہزاد‘ محسن سلیم‘ تنویر سخن‘ عارف شیخ عارف‘ شجاع الزماں خان‘ عارف نظیر‘ کامران طابش‘ یاسر سعید صدیقی‘ تاج علی رانا‘ عاشق شوقی ا ور علی کوثر نے اپنے اشعار نذر سامعین کیے۔ رسا چغتائی کی نواسی مہک نے رسا چغتائی کی غزل ترنم سے سنائی جس پر توقیر اے خان ایڈووکیٹ نے انہیں نقد انعام پیش کیا۔ اجلاس میں قرارداد پیش کی گئی کہ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ پروفیسر جاذب قریشی کی علمی و ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں ستارۂ امتیاز یا نشان امتیاز سے نوازے۔ محمد علی گوہر نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ادارۂ فکرِ نو گزشتہ سات برسوں سے اختر سعیدی کی نگرانی میں شعر و ادب کی ترویج و اشاعت میں مصروف عمل ہے‘ ہم نے عہدِ رفتگاں کے حوالے سے بھی کئی شان دار پروگرام ترتیب دیے ہیں جب کہ آج یہاں رسا چغتائی کے اہلِ خانہ موجود ہیں جس سے تقریب میں چار چاند لگ گئے ہیں۔ اختر سعیدی نے کلمات تشکر پیش کرتے ہوئے کہا کہ اپنے اکابرین و محسنوں کو یاد کرنا ہمارے ادارے کے منشور کا حصہ ہے اسی تناظر میں آج ہم اور آپ اس بزم میں موجود ہیں‘ ہم نے رسا چغتائی کی پہلی برسی پر تعزیتی ریفرنس منعقد کرکے اپنا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے ہم اس میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں اس کا فیصلہ آپ کریں گے۔ ادارۂ فکر نو کی جانب سے پہلا ’’رسا چغتائی یادگاری ایوارڈ‘‘ پروفیسر جاذب قریشی کو پیش کیا گیا۔ انور انصاری نے رسا چغتائی کے بارے میں کہا کہ وہ درویش صفت انسان تھے انہوں نے صوفیانہ طرزِ عمل اپنایا اور کامیاب زندگی گزاری۔ حامد اسلام خان نے کہا کہ لانڈھی‘ کورنگی ایک مردم خیز علاقہ ہے‘ ایک زمانے میں یہاں علم و ادب کی قد آور شخصیات رہائش پزیر تھیں ان میں رسا چغتائی بھی بڑی اہمیت کے حامل تھے ان کے لیے تقریبات کا انعقاد کرنا ہمارا فرض ہے اس سلسلے میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کو چاہیے تھا کہ وہ رسا چغتائی کی پہلی برسی کے موقع پر کوئی یادگاری پروگرام منعقد کرتی۔ توقیر اے خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ رسا چغتائی نے اردو غزل کو نکھارا‘ ترقی دی‘ وہ سہل ممتنع کے شاعروں میں اہم مقام کے حامل تھے۔ حکومتی اداروں کا فرض ہے کہ وہ ان جیسے بڑے شعرا کے لیے پروگرام منعقد کریں تاکہ نوجوان نسل بھی اکابرینِ ادب سے روشناس ہو سکے۔ صاحب صدر نے رسا چغتائی پر کلیدی مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ کوئی 56 برس پہلے جب انہوں نے کراچی کے تخلیق کاروں سے ملنا جلنا سروع کیا تو 1964ء میں انہیں ایک شعر کی ایسی گونج سنائی دی جو پورے ادبی شہر کو اپنی جھنکار سے آباد کیے ہوئے تھی وہ ایک ایسی آواز تھی جو ہجرت و غربت کی پہچان بن کر جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ بے حسی کے خلاف بلند کی گئی تھی وہ شعر ہے:

کچھ خانماں برباد تو سایے میں کھڑے ہیں
اس دور کے انسان سے یہ پیڑ بڑے ہیں

رسا چغتائی اپنے تجربوں کو تروتازہ آواز میں پیش کرتے تھے‘ وہ شعر و ادب کے اوراق پر رنگ و خوشبو‘ روشنی کی منفرد تصویریں اتارتے تھے‘ وہ کہتے تھے کہ:

میں ہوا کی طرح اکیلا ہوں
وقت کی اس کھلے سمندر میں
یہ اور بات اجالا نہ کر سکے لیکن
چراغ چھوڑ چلے ہم جلا کے رستے میں

رسا چغتائی جانتے تھے کہ پتھر کو بولنا سکھانے والے ایک دن خود پتھر بن جاتے ہیں۔ رسا صاحب شیشے کی طرح ٹوٹتے رہے لیکن وہ پتھر کی چٹان کی طرف سے آنکھیں نہیں ہٹاتے تھے‘ وہ ویرانے کو باغ اور شہر کو صحرا کہتے تھے‘ وہ بولتے کم تھے سوچتے زیادہ تھے۔ رسا صاحب کے تجربوں کو تلاش کیا جائے تو بہت سے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اظہاریے سامنے آ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ حالات کے انگاروں پر چلتے رہے مگر وہ جانتے تھے کہ کوئی آنچل سایا کرنے نہیں آئے گا‘ شہر انہیں آشوب زدہ لگتا تھا۔ ان کی شاعری کی امیجری سے ان کے اسلوب کا اندازہ کیا جاسکتا ہے بنیادی اعتبار سے تو وہ کلاسیکی روایت کے بہت مضبوط و توانا اور خوب صورت شاعر تھے لیکن ان کی شاعری میں اساطیری‘ تمثیلوں کی حیرتی رویے کثرت سے تخلیق کیے گئے ہیں۔ رسا چغتائی کے اس اساطیری رویے کو روایتی نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں تخلیقی حیرت اپنی تازہ اسلوبیاتی تصویروں میں نئے انداز سے ظاہر ہو رہی ہے۔ ان کی شاعری میں محبوبیت‘ محبت اور محبوبہ کے تجربے کم ہیں لیکن جسم و جان کے زندہ پن اور انسانی خواہشات کی بلوغت کے ساتھ اپنے اظہار میں آئے ہیں اور اپنی سچائیوں کی یادگار تماثیل بنتے چلے گئے ہیں۔ ان کی شاعری میں اعلیٰ اقدار کی پاسداری کو اور انسان کے شکستہ پن کو شدید حسی تجربہ بنایا گیا ہے جس کو ہر عہد کی بنیادی ضرورت سمجھا جاتا رہے گا۔ چھوٹی بحروں اور سہل ممتنع کے جو دو نمائندہ اہمیت و شہرت رکھنے والے شاعر ہیں وہ جون ایلیا اور رسا چغتائی ہیں‘ رسا صاحب کی لفظیات سادہ‘ منفرد و بامعنی عربی اور فارسی تراکیبوں کے بوجھل پن سے آزاد‘ اپنے ایک گہرے تاثر کا ہنر رکھتی ہیں۔ انہوں نے ہائیکو اور نثری نظمیں لکھ کر اس بات کا اعتبار بھی پیدا کرلیا ہے کہ وہ کسی ایک دائرۂ فکر تک محدود نہیں ہیں وہ اپنے عہد کے منفرد نمائندہ شاعر تھے‘ ان کے اساطیری امیجیز اور ان کے شائستہ و نازک لب و لہجے کے درمیان ماضی‘ حال اور مستقبل تینوں زمانوں کی مہذب روح دھڑک رہی ہے جو اپنے امکانات کے ساتھ آگے بڑھتے رہنے کا نامیاتی ہنر رکھتی ہے۔ اسی سچے اور اعتماد پر رسا صاحب نے لکھا ہے کہ:

ہمارے شعر دہرائے گی دنیا
ہم اپنے عہد کی پہچان ہوں گے

نگارِ ادب کا تعزیتی اجلاس برائے سعید وارثی اور مشاعرہ بیاد خالد حمیدی

دبستان کراچی کی فعال ادبی تنظیم بزمِ نگار ادب پاکستان کے زیر اہتمام گلشن اقبال‘ سینئر شاعر انور شعور اور عباس حیدر زیدی کی مجلس صدارت میں یادرفتگاں کے سلسلے کا چھٹا پروگرام تعزیتی اجلاس برائے ڈاکٹر سعید وارثی اور مشاعرہ بیاد خالد حمیدی کا انعقاد کیا گیا۔ پروگرام کے مہمانانِ خصوصی ڈاکٹر شاداب احسانی اور سعید الظفر صدیقی جب کہ مہمانان اعزازی اختر سعیدی اور فیروز ناطق خسرو تھے۔ تعزیتی اجلاس کا آغاز یوسف چشتی کی آواز میں تلاوت کلام پاک سے کیا گیا جب کہ تاج علی رانا کے حصے میں نعت رسول مقبولؐ پیش کرنے کی سعادت آئی بعدازاں مرحومین کی روح کے ایصالِ ثواب کے لیے فاتحہ خوانی اور دعائے مغفرت کی گئی۔ پروگرام کے ابتدائی حصے میں ڈاکٹر جمیل ادیب سید نے معروف سماجی رہنما و شاعر سعید وارثی کی سماجی خدمات اور شخصیت پر گفتگو کی انہوں نے کہا کہ سعید وارثی سے ان کا تعلق اس وقت کا ہے جب وہ اور مرحوم ایک نجی ائر لائن میں ساتھ کام کرتے تھے۔ وہ انتہائی‘ خدا ترس‘ نیک اور ملنسار طبیعت کے انسان تھے بعدازاں ڈاکٹر شاداب احسانی نے مجلس سماجی کارکنان کے حوالے سے سعید وارثی کی خدمات پر سیر حاصل گفتگو کی انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر سعید وارثی سے میرا تعلق اس وقت کا ہے جب شاہ فیصل کالونی ڈرگ کالونی ہوا کرتی تھی اور ہم ان کے ادارے میں مشاعرہ پڑھنے جایا کرتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سعید وارثی جتنے اچھے سماجی رہنما تھے اتنے ہی اچھے شاعر بھی تھے‘ ان کے دل میں جذبہ انسانیت کوٹ کوٹ کر بھرا تھا‘ وہ سچے عاشق رسول اور اہلِبیت کی مودّت پر جان دینے والے انسان تھے اور یہی رنگ ان کی شاعری میں نمایاں ہے۔ مجلس کے صدر عباس حیدر زیدی نے کہا کہ بعض لوگ انسانیت کی خدمت کے لیے پیدا ہوتے ہیں سعید وارثی کا شمار ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے وہ خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے۔ خالد حمیدی کے صاحبزادے نعمان حمیدی نے گفتگو کرتے ہوئے اپنے والد کی یادوںکو شیئر کیا۔ انہوں نے کہا کہ بابا جان ہم سب سے بہت محبت کرتے تھے‘ وہ بہت حساس طبیعت کے مالک تھے اور معاشرتی ناہمواریوں پر ان کا دل خون کے آنسو روتا تھا۔ نعمان حمیدی نے مزید کہا کہ یہ ہماری کوتاہی ہے کہ ہم ان کی کتاب لوگوں تک نہیں پہنچا سکے تاہم اس پر کام ہو رہا ہے اور ان شاء اللہ جلد ان کی کتاب منظر عام پر آجائے گی۔ انہوں نے بزمِ نگار ادب پاکستان اور سخاوت علی نادر کو زبردست خراج تحسین پیش کیا کہ وہ یاد رفتگاں کے سلسلے میں ایسی محافل کا انعقاد کرتے ہیں۔
پروگرام کا دوسرا حصہ بیاد خالد حمیدی مشاعرے کے انعقاد کا تھا جس میں سندھ ‘ پنجاب‘ کوئٹہ اور دبستان کراچی کے کم و بیش 35 شعرا نے اپنا کلام نذر سامعین کیا اس موقع پر عباس حیدر زیدی نے کہا کہ وہ 1963ء میں بھی ادبی جرائد میں چھپتے رہے ہیں وہ اور انور شعور ابتدا میں ایک ہی کشتی کے سوار تھے اور دونوں نے شاعری کی ابتدا کے لیے نعت اور سلام کو چنا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ اس دشت کی سیاحی میں انور شعور ان سے یقینا سینئر ہیں۔
انورشعور نے اپنے صدارتی کلمات میں عباس حیدر زیدی کی تعریف کی اور کہا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ مجلس صدارت میں عباس حیدر زیدی بھی ہیں تو میں ان کے حق میں دست بردار ہو جاتا انہوں نے مزید کہا کہ سخاوت علی نادر بڑا کام کر رہے ہیں اور آج انہی کی بدولت زیدی صاحب سے برسوں بعد ملاقات بھی ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ بزمِ نگار ادب پاکستان ادبی محافل مشاعرے اور یاد رفتگان میں تقریبات کرکے مسلسل کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہے اور انتہائی معیاری مشاعروں کا انعقاد کر رہی ہے انہوں نے بزمِ نگار ادب کے روح رواں سخاوت علی نادر کو مبارک باد پیش کی اور ان کی مزید کامیابی کے لیے کلمات خیر ادا کیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نادر اور ان کی تنظیم بلا کسی گروہ بندی اقربا پروری اور بنا ستائش کے ادب کی بے لوث خدمت کر رہی ہے۔ اس موقع پر بزم نگار ادب نے معروف سینئر شاعر ڈاکٹر جمیل ادیب سید کی 55 سالہ پیش بہا ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں ’’کمالِ فن ایوارڈ‘‘ بتوسط صدور مجلس انور شعور اور عباس حیدر زیدی عطا کیا گیا اس موقع پر مزید ایک ایوارڈ معروف شاعر و موسیقار و گیت نگار تاج علی رعنا کو فنون لطیفہ پر ان کی 35 سالہ گراں بہا خدمات پر عطا کیا گیا۔ پروگرام کے آخری حصے میں بزمِ نگار ادب کے بانی و صدر سخاوت علی نادر نے اظہار تشکر کے کلمات اور ادارے کا پس منظر بیان کیا انہوں نے کہا بزم نگار ادب کا قیام 1990ء میں معرض وجود میں آیا تھا بعدازاں اس میں کئی نامی گرامی شعرا شامل ہوئے ادارے نے اب تک لاتعداد ادبی پروگراموں کا انعقاد کیا ہے اور آج ایک دبستان کراچی کی بڑی ادبی تنظیم کی شکل میں موجود ہے۔ مشاعرے کی نظامت کے فرائض سینئر شاعر حامد علی سید نے اپنے منفرد لب و لہجے میں انجام دیے۔ مشاعرے میں جن شعرا نے کلام نذر سامعین کیا ان میں انور شعور‘ عباس حیدر زیدی‘ ڈاکٹر شاداب احسانی‘ سعیدالظفر صدیقی‘ فیروز ناطق خسرو‘ اختر سعیدی‘ غلام علی وفا‘ ڈاکٹر جمیل ادیب سید‘ یوسف چشتی‘ سحر تاب رومانی‘ سخاوت علی نادر‘ حامد علی سید‘ عظیم حیدر سید‘ اسد قریشی‘ احمد جہانگیر‘ ریحانہ احسان‘ افضل ہزاروی‘ تاج علی رعنا‘ علی کوثر‘ عاشق شوکی‘ تنویر حسین سخن‘ ڈاکٹر اسحاق خان اسحاق‘ آزاد حسین آزاد‘ ذوالفقار حیدر پرواز‘ یاسر سعید صدیقی‘ ذوالفقار بلوچ‘ مہر جمالی‘ کامران تابش‘ شیخ ریحان اثر اور محسن مقصود شامل ہیں۔

رانا خالد محمود قیصر کی نثری کتاب ’’ادبی جمالیات‘‘ شائع ہوگئی

رانا خالد محمود قیصر کا پہلا شعری مجموعہ ’’ہندسوں کے درمیان‘‘ حال ہی میں شائع ہو چکا ہے جس کی ادبی حلقوں میں پزیرائی کی گئی اب ان کا نثری مجموعہ ادبی جمالیات منظر عام پر آرہا ہے جوکہ ان کے جہانِ فکر و دانش کا نمائندہ ہے۔ زیر نظر کتاب ان کی مختلف جہتوں میں مطالعات کا ترجمان ہے ان کی شاعری کی طرح ان کے مضامین میں بھی کوئی ابہام نہیں پایا جاتا ان کے اظہار و ابلاغ میں کہیں کسی بُعد‘ تضاد اور فقدان کا احساس نہیں ہوتا اس کتاب میں زیادہ تر مضامین مختلف شخصیات کے حوالے سے ہیں موضوعاتی اعتبار سے اس کتاب کے مندرجہ ذیل باب سامنے آئے ہیں اردو کی چند شخصیات اور ان کی شعری کاشوں پر تبصرے‘ معاشرتی و سماجی مسائل پر لکھے گئے اخباری کالم‘ تاریخی معلومات ہندو ازم اور ذات پات سے متعلق‘ راجپوت برادری کی تاریخ‘ اس کے اہم افراد۔ انہوں نے اپنی تنقیدی رویوں میں آسان الفاظ استعمال کیے ہیں تاکہ باآسانی ابلاغ ہو سکے۔ اس کتاب کے عنوانات میں دھنک رتجگوں کی‘ لفظوں کے تقاضے‘ سخن افروز‘ گفتگو ہونے کے بعد‘ سخن افروز کا مطالعہ‘ چاند میرا صنم‘ ابھی کچھ پھول تازہ ہیں‘ ڈاکٹر محمد ایوب قادری‘ فرید جاوید‘ پروفیسر ڈاکٹر نعیم نقوی‘ استاد اظفر زیدی‘ کنور اطہر علی‘ قسمت کے دھنی‘ خوابیدہ لمحے‘ فیض احمد فیض کا شعوری آدرش‘ علم و فن کی اہمیت‘ ہندوستان میں ذات پات‘ صوفی ازم‘ رانا پھول محمد‘ بابر‘ رانا سانگا‘ کھشتری تاریخ کے آئینے میں‘ تاریخ کے جھروکوں سے‘ نواب زادہ راحت سعید چھتاروی‘ رائو بشیر احمد‘ احمد خان راجپوت‘ رائو جاوید علی خان‘ جام امان اللہ جوکھیو شامل ہیں۔ یہ معلوماتی کتاب ہے جو کہ رانا قیصر کی پہلی نثری کاوش ہے۔

حصہ