سید فخرالدین بَلّے کی شاعری

3056

شبنم رومانی
سید فخر الدین بلے نے اپنے اندر کا براعظم تو دریافت کر لیا ہے۔ اس براعظم میں کتنے جہان آباد اور کتنے خزائن مخفی ہیں، اس کا سراغ ان کی تخلیقات کے ذریعے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ شاعر، ادیب، اسکالر، دانشور، محقق، مولف، خطیب اور ماہر تعلقات عامہ کی حیثیت سے انہوں نے اپنے جوہر دکھائے۔ شہر شہر محفلیں سجائیں۔ فنون و ثقافت کی ترویج و ترقی کے لیے قابلِ قدر خدمات انجام دیں، جن کے اعتراف میں انہیں محسنِ فن اور مین آف دی اسٹیج کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔
سید فخر الدین بلے کی شخصیت کثیرالجہت اور ان کی شاعری کئی ادوار پر محیط ہے۔ نظموں میں بلا کا زور بیان ہے۔ منظر نگاری کے ساتھ ساتھ حسنِ فطرت کی خوبصورت مصوری بھی کی ہے۔ ان کی غزل کا کینوس بڑا وسیع ہے۔ میں نے ان کی بیاض کے ساتھ سات دن گزارے ہیں۔ وہ کہیں تصوف کے اسرار و رموز کھولتے نظر آئے، کہیں حکمت و دانش کے ساتھ بولتے نظر آئے۔ کہیں اپنی شاعری میں بہت سے سوال اٹھائے اور کہیں کود ہی ان کے جواب دے کر لا جواب کر دیا۔ یہ شاعری دعوتِ فکر دیتی ہے۔ تشنگانِ ادب و معرفت کی پیاس بجھاتی اور ذوق کی تسکین کا سامان بہم پہنچاتی ہے۔ سید فخر الدین بلے کا کلام ان کی وسیع العلمی، قادر الکلامی، ژرف نگاہی، نقاست پسندی، زبان وہ بیان پر استادانہ مہارت اور فکر و خیال کی بلندی کا آئینہ دار ہے۔
ادیبوں اور شاعروں کا قافلہ ان کے گھر پر ہر مہینے کی یکم تاریخ کو پڑائو ڈالتا ہے۔ بڑے بڑے ادبی ستاروں کی کہکشاں ان کے آنگن میں سجی نظر آتی ہے اور قافلے کے سفر اور پڑائو کی بازگشت ہمیں ان کے مجلے آوازِ جرس میں سنائی دیتی ہے۔
انہوں نے قافلے کا خصوصی پڑائو میرے اعزاز میں بھی ڈال کر میری عزت افزائی کی۔
فخر الدین بلے نے جس جس شعبے میں قدم رکھا، وہاں گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ عمر نے وفا کی تو میں نہیں اپنا موضوع ضرور بنائوں گا۔

…٭…٭…

رُتوں کی رِیت یہی ہے ، یہی ہوا کی روش
تپش بڑھے گی تو بادل ضرور برسے گا
……
چمن میں فصلِ بہاراں سہی ، خزاں نہ سہی
مگر حضور یہ موسم ضرور بدلے گا
……
دماغ عرش پہ ہیں اور چڑھی ہوئی آنکھیں
ابھی نوشتئہ دیوار کون دیکھے گا
……
دائرے بنتے بگڑتے دیکھنے والوں نے بھی
کب سنا ہے جھیل میں گرتے ہوئے کنکر کا شور
……
ہے فلسفوں کی گرد نگاہوں کے سامنے
ایسے میں خاک سوچ کو رستہ دکھائی دے
……
دیدہ وروں کے شہر میں ہر ایک پستہ قد
پنچوں کے بل کھڑا ہے کہ اونچا دکھائی دے
……
چمن کے دیدہ وروں سے سوال ہے میرا
بہار کا ہے یہ موسم تو پھر گھٹن کیوں ہے؟
……
شہر یاروں کی جبینیں دیکھو
ان کہی میں نے کہی ہو جیسے
……
ہم شب میں رند بن کے رہے ، دن میں متقی
دنیا میں اِس چلن سے بڑی آبرو رہی
……
میرے گھر میں بھی کہکشاں کی طرح
ربط قائم ہے انتشار کے ساتھ
پیڑ نعمت بدست و سرخم ہیں
ہے تفاخر بھی انکسار کے ساتھ
……
اتنا بڑھا بشر کہ ستارے ہیں گردِ راہ
اتنا گھٹا کہ خاک پہ سایہ سا رہ گیا
……
نہ آئینے کا بھروسہ نہ اعتبارِ نظر
جو روبرو ہے مرے کوئی دوسرا ہی نہ ہو
……
اپنی کتابِ زِیست پہ تنقید کے لئے
آخر میں چند سادہ ورق چھوڑ جاؤں گا
……
تلاشِ رزق ہو یا جستجوئے معرفت بلے
ہماری زندگی شعر و ادب یوں بھی ہے اور یوں بھی
……
مہر بلب ہیں گاؤں کے گیانی ، شہر کے دانشور
بچے سوکھے پیڑوں کی تصویر بناتے ہیں
……
نفس کی آندھیاں چلتی رہیں مگر میں نے
تمام عمر گزاری ہے ریت کے گھر میں
( 26 )
ٹپکتی بوندوں سے ڈرتا ہوں جب سے دیکھا ہے
نشان ڈال دیئے بارشوں نے پتھر میں
( 27 )
ازل کے روز میں نکلا تھا ڈھونڈنے خود کو
ملا ہے آج مجھے آئینے کے پیکر میں
( 28 )
چار آنکھیں چاہئیں اس کی حفاظت کے لئے
آنے جانے کے لئے جس گھر کے ہوں رستے کئی
( 29 )
خود ارادی اور آزادی کی برکت دیکھئے
گھر کے آنگن میں نظر آتے ہیں اب چولہے کئی
( 30 )
جنت میں جانا کیسے گوارا کرے کوئی
رسوا وہاں سے ہو کے نکالے ہوئے ہیں ہم
( 31 )
یہ الگ بات لوگ بہرے ہیں
دل کبھی بے صدا نہیں ہوتا
( 32 )
سر اُٹھا کر زمیں پہ چلتا ہوں
سر چُھپانے کو گھر نہیں ، نہ سہی
( 33 )
پیڑ پودوں کی کچھ کمی تو نہیں
ایک سوکھا شجر نہیں ، نہ سہی

( 34 )
اٹھائے پھرتا ہوں سر اپنے تن کے نیزے پر
ہوئی ہے تنگ زمیں مجھ پہ کربلا کی طرح
( 35 )
کیا چاہتا تھا اور یہ کیا دے گیا مجھے
قاتل بھی زندگی کی دُعا دے گیا مجھے
( 36 )
مٹیِ اُڑی تو اپنی حقیقت ہوئی عیاں
جھونکا ہوا کا میرا پتہ دے گیا مجھے
( 37 )
اب تو مرنا بھی ہو گیا مُشکل
آپ کیوں آ گئے عیادت کو
( 38 )
سر ہی کو جُھکانا ہے تو جب چاہے جُھکا لو
پابندی ء اوقات اذانوں کے لئے ہے
( 39 )
یہی ہے گردشِ لیل و نہار کی تعبیر
کسی کا وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا
( 40 )
اگلی صف میں جو لوگ بیٹھے ہیں
تن کے اُجلے ہیں ، من کے کالے ہیں
( 41 )
ہم نے اے دوست خود کشی کیلئے
آسینوں میں سانپ پالے ہیں
( 42 )
لوحِ تاریخ نے پوچھا ہے قلم سے اکثر
کیا سرِ دار پہنچنے میں بھی سرداری ہے؟
( 43 )
شہر کے مُحتسب مجھے بھی دِکھا
ایسا دامن جو داغ دار نہیں
( 44 )
آگ پانی میں ہے کیا فرق کہ ہم سب کے بدن
کبھی بارش میں ، کبھی دھوپ میں نم ہوتے ہیں
( 45 )
ہیں مجھ کو پسند آپ کی بکھرئی ہوئی زلفیں
بکھری ہوئی زلفوں کو سنوارا نہ کریں آپ
( 46 )
یوں صاف بیانی کی جسارت نہیں ہوتی
ممکن ہے مری بات گوارا نہ کریں آپ
( 47 )
کر دیا دفن مجھے زیرِ زمیں یاروں نے
میں نے جب گردشِ دوراں سے نکلنا چاہا
( 48 )
وہ ایک شخص جو حالات کی پناہ میں ہے
یہ جان لے کہ ہر اِک فرد کی نگاہ میں ہے
( 49 )
عجائبات کی دنیا میں کچھ کمی تو نہیں
یہ ہو بھی سکتا ہے مجھ سا کوئی ہوا ہی نہ ہو
( 50 )
یوں لگی مجھ کو خنکُ تاب سحر کی تنویر
جیسے جبریل نے میرے لئے پر کھولے ہیں
( 51 )
میں تو لے آیا ہوں ایمان فرشتوں پہ مگر
ان کا کیا ہو گا بھلا ، مجھ سے جو کم بھولے ہیں
( 52 )
ہے ردا پوشی مری دنیا دکھاوے کے لئے
ورنہ خلوت میں بدلنے کو کئی چولے ہیں
( 53 )
انا کا علم ضروری ہے بندگی کے لئے
خود آگہی کی ضرورت ہے بے خودی کے لئے
( 54 )
کسی نے توڑ دیا دل کو دل لگی کے لئے
کوئی تڑپتا رہا عمر بھی کسی کے لئے
( 55 )
زمیں پہ اہل نظر ، آسمان پر تارے
تمام رات تڑپتے ہیں روشنی کے لئے
( 56 )
میں کس سے پوچھوں کہ پھولوں نے کس لئے آخر
بسنت رُت کو چُنا چاک دامنی کے لئے
( 57 )
چشمِ تر! تشنہ لبوں تک تو نہ پہنچا پانی
یہ الگ بات رہا خود بھی پیاسا پانی
( 58 )
کبھی سر سے ، کبھی آنکھوں سے ، کبھی بادل سے
عجب انداز سے ہر رنگ میں برسا پانی
( 59 )
عکسِ باطن بھی ہیں ، ناظر بھی ہیں، آئینہ بھی
پر جہاں بینی میں خود بینی کو ترسیں آنکھیں
(60 )
پسِ دیوار ہوئی تھی جو بات
کس طرح آ گئی چوپالوں تک

حصہ