اگر تم شکر کروگے

221

مدیحہ صدیقی
’’مما میں بور ہو رہی ہوں۔‘‘ تانیہ نے بے زاری سے جمائی لیتے ہوئے امبر کو پکارا۔ ’’زندگی میں کوئی تھرل‘ کچھ نیا ہی نہیں ہے‘ وہی صبح وہی شام۔‘‘ اس نے موبائل ایک سمت صوفے پر رکھتے ہوئے پائوںسیدھے کیے۔
’’کوئی ایڈونچر ہو‘ کوئی ایکشن ہو۔‘‘ اس نی سر صوفے پر ٹکاتے ہوئے کہا۔
’’مل گئی فرصت ہماری بیٹی کو… جب موبائل اور فیس بک سے تھک جاتی ہو تو زندگی یاد آتی ہے تمہیں۔‘‘ امی نے اس کے برابر میں بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’جب تک موبائل ہاتھ میں ہوتا ہے تب تک ہم بھی نظر نہیں آتے۔‘‘ امی بولیں۔
’’اچھا امی نیند آرہی ہے میں تھک گئی ہوں۔‘‘ تانیہ نے اٹھتے ہوئے کہا۔ وہ گزشتہ تین گھنٹے سے موبائل پکڑے بیٹھی تھی۔
’’ظاہر ہے تھکو گی نہیں کیا‘ تمہاری انگلیاں اور آنکھیں تو ساری دنیا گھوم آئی ہیں۔‘‘ ابھی تانیہ اپنے کمرے گئی ہی تھی کہ ہادی گھر میں داخل ہوا اور صوفے پرہیلمٹ اچھال دیا۔
’’ہادی بیٹا! ہیلمٹ جگہ پر رکھو۔‘‘
’’امی یار ابھی رکھتا ہوں۔‘‘
’’یہ تمہارا ’’ابھی رکھتاہوں‘‘ شام تک پڑا رہے گا۔‘‘ یہ مکالمہ ماں بیٹے کی درمیان چل ہی رہا تھا کہ ابو کی آواز سنائی دی جو اپنی چائے مکمل کرکے چشمے کے پیچھے سے جھانک رہے تھے۔
’’یہ یار امی‘‘ کیا ہوتا ہے؟ اللہ اور رسولؐ کے بعد جس ہستی کا حق اور احترام تم پر فرض ہے‘ تم اسے ’’امی یار‘‘ کہہ کر مخاطب کر رہے ہو۔‘‘ ابو نے ڈانٹا جس پر وہ جلدی سے اپنا ہیلمٹ اٹھا کر کمرے میں چلا گیا۔
’’کیا بورنگ زندگی ہے۔‘‘ تیرہ سالہ سمیر نے ہوم ورک کرکے اپنی کتابیں بیگ میں ڈالتے ہوئے بے زاری سے کہا۔
’’حد ہوتی ہے ناشکرے پن کی۔‘‘ امی نے باورچی خانے سے ہی ڈانٹا۔ ’’کیا ہوگیا ہے آج کل کی نسل کو‘ اللہ نے عافیت سے رکھا ہے‘ آزمائش سے بچایا ہوا ہے تو ان لوگوں کو زندگی بورنگ لگ رہی ہے۔
ارشد کریم صاحب شہر کے اچھے علاقے میں رہائش پزیر تھے۔ تمام سہولیات اور آسودہ حالات میں تینوں بچوں نے آنکھ کھولی۔ اچھے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے‘ تینوں بچوں زندگی کی تلخیوں سے محفوظ تھے۔ اگلے مہینے امتحانات کے اعلان کے جہاں تانیہ اور ہادی کو تو سنجیدہ اور مصروف کیا ہی‘ امبر نے سمیر کو بھی ماہانہ ٹیسٹ کی وجہ سے سارے کھیل کود چھڑوا دیے یہاں تک کہ پورا مہینہ بچوں کا پڑھتے اور امتحانات دیتے گر گیا۔ امیر چونکہ سمیر کو خود پڑھاتی تھی اسی لیے وہ بھی حالت امتحان میں آجاتی۔ اب جو امتحانات سے فرصت ملی تو ٹلتے کاموں کی فہرست بنائی گئی جس میں سرفہرست راحمہ پھوپھو کے گھر جانا تھا جو کہ ارشد صاحب کی بڑی بہن تھیں۔ ان کے شوہر کی طبیعت کچھ دنوں سے ناساز چل رہی تھی۔ آفس سے آتے ہی ارشد صاحب امبر کے ساتھ طے شدہ پروگرام کے مطابق راحمہ پھوپھو کے گھر کے لیے نکل گئے۔ بہن کے گھر یوں بھی انہیں خالی ہاتھ جانا اچھا نہیں لگتا تھا اور اب تو وہ عیادت کے لیے جا رہے تھے لہٰذا راستے میں پھل لینے رک گئے۔ ابھی وہ پلٹے ہی تھے کہ ایک تیز رفتار کار قابو سے باہر ہوتی سیدھا ارشد صاحب کو مارتی نکل گئی۔ چند ثانیے کے اندر اندر وہ پھلوں سمیت زمین پر پڑے تھے۔ بہت تیزی میں کسی ہمدرد نے اسپتال پہنچایا لیکن وہ بچ نہ سکے۔ امبر اور اس کے بچوں پر قیامت ہی ٹوٹ گئی اور اچانک ہی سائے سے دھوپ میں آکھڑے ہوئے۔ دل و دماغ ارشد صاحب کی اچانک موت سے سکتے میں آگیا۔ رفتہ رفتہ تعزیت کے لیے لوگوں کا آناجان کم ہوا تو احساس ہوا کہ مسائل جھیلنے کے لیے خود ہی ہمت کرنی ہوگی۔ بچے تو بچے ابھی تک امبر کو بھی کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ کبھی خالہ اور کبھی پھوپھی دل جوئی کے لیے آجاتیں۔ لیکن کب تک‘ ہر ایک اپنے اپنے مسائل میں مصروف ہوگئے۔ ابھی ماں بچے غم سے نکلے بھی نہ تھے کہ زندگی کی ضروریات نے شور مچانا شروع کردیا۔ چچا اور ماموںچوں کہ خود مالی طور پر زیادہ مستحکم نہ تھے لہٰذا وہ تھوڑا بہت ہی ساتھ دے پائے۔ جلد ہی ماں بچوں کو احساس ہو گیا کہ انہیں مل کر ہاتھ پیرمارنے ہوں گے تاکہ زندگی کی گاڑی چل سکے۔ ہادی دن میں پڑھتا اور شامکی اسکول میں پڑھاتا اور ساتھ ہی رات گئے تک ٹیوشن پڑھاتا۔ تانیہ نے بھی کالج کے بعد امی کے ساتھ مل کر گھر پر ٹیوشن پڑھانے کا سلسلہ شروع کردیا۔ اب سمیر بھی کافی سنجیدہ ہو گیا تھا اور چچا کی ساتھ اسکول کے بعد دکان پر بیٹھنے لگا۔
وقت نے سمجھا دیا عافیت اور سکون کیا چیز ہوتی ہے۔ زندگی میں فرصت اور بے فکری دراصل رب کی رحمت ہے کہ اس نے زندگی کے آزمائشی پہلو سے بچایا ہوا ہے۔
اب نہ ہی تانیہ کو کسی ایڈونچر کی طلب ہوتی ہے نہ ہادی بے فکری کی چال چلتا اور نہ ہی سمیر بور ہوتا۔ ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ کبھی وہ اکٹھے بیٹھتے تو زندگی کے اچھے دنوں کو یاد کرتے اور خیال آتا کہ شکر گزاری کا روّیہ ناشکرے پن سے کتنا اونچا ہے۔

حصہ