ڈیجیٹل دادی جان

616

رابعہ محمد (سڈنی، آسٹریلیا)
’’سیدھے لیٹو میرے مُنے!! سارا کھانا منہ میں آجائے گا… بہت بار سمجھایا ہے ناں!! ‘‘
’’جی جی اچھا …آگے چلیں ناں… میں سیدھا ہو گیا…‘‘
’’اچھا تو سنو؛ بچے کی دادی نے کہا کہ باتھ روم کے اندر بولنا بھی نہیں چائیے اور گنگنانا بھی نہیں چاہیے جبکہ……‘‘
’’اچھا!! بھائی تو بہت زور زور سے نظمیں پرھتا ہے نہاتے ہوئے… پتا ہے آج کیا ہوا؟‘‘
’’اچھا !!بس میں اب نہیں کہانی سنا رہی۔ تم پہلے اپنی ہی باتیں کرلو۔ پھر یہ ہوجائے گاکہ تمہاری رات ہو جائے گی اور ہماری شام۔‘‘
’’پھر دادی جان!! آپ کہانی ہی بھول جائیں گی۔‘‘
’’تو کیا ہوا ؟ کہانیاں تو بہت ہیں ہمارے پاس… اور ہماری تو اپنی بھی ایک کہانی ہے۔ ‘‘
’’ہم سے مشکل باتیں نہ کیا کریں… پتا ہے میں آپ کو کتنا یاد کرتا ہوں۔‘
’’ارے بیٹا !! مشکل میں تو تم نے ہم کو ڈال دیا تھا۔ مگر تمہاری محبت میں تو ہم نے بھی یہ سب سیکھ لیا۔ اب تو یہ ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل بن گیا ہے۔‘‘
’’ارے واہ!! ہماری دادی تو ڈیجیٹل ہوگئیں …‘‘
’’اچھا بھئی!! سارا وقت تو باتوں میں ہی ختم کر دیا۔اب کل سے ہمارے تین اور تمہارے نو کا وقت طے کرلو۔اور سنو !! سونے سے پہلے بستر جھاڑ لینا اور حمام سے فارغ ہو کر لیٹنا۔‘‘
’’جی ضرور دادی !! آپ کی لائٹ تو نہیں چلی جائے گی اُس وقت؟‘‘
’’نہیں مُنے !! اس وقت نہیں جاتی۔ اسی لئے تو کہا ہے۔ چلو بس اللہ حافظ۔‘‘
’’اللہ حافظ دادی جان!!!‘‘
…٭…
جب تک سات سمندر پار اپنے پوتے کو دیکھ نہ لوں دل بے قرار رہتا ہے۔ کیا بات ہے بھئی اِس زمانے کی۔۔۔ ایک وہ وقت تھا کہ جب ہم ہندوستان میں اپنے بڑے سے دالان میں تارے گنتے اور اپنی دادی سے کہانیاں سُنا کرتے تھے۔ اُس وقت کے راجا مہاراجائوں کی، شہزادی اور بادشاہوں کی، بزرگانِ دین اور انبیاء کرام کے واقعات جو ہماری ذہنی صلاحیت کے مطابق ہماری دادی ہم کو آسان کر کے سناتی تھیں۔ پھر جب دالان کے پودے بڑھ کر سایے دینے لگے تو انکی چھائوں میںبیٹھ کر بہت کچھ لکھا ، پڑھا ، سُنااور سنایا۔ تقسیم کے بعد پاکستان آکر جب اپنا آنگن بنایاتو اپنے بچوں کو اپنے بچپن کی کہانیاںسنائیں۔شہزادی اور بادشاہوں کی، شیخ سعدی کی حکایتوں پر مبنی چھوٹی چھوٹی کہانیاں ، انبیائے کرام کے واقعات… ہاں راجا، مہاراجا کی کہانیوں کا دل نہیں چاہتا تھا کہ سنائیں۔ ان کی جگہ پاکستان بننے کی کہانیوں نے لے لی۔
دیکھتے ہی دیکھتے نصف صدی بیت گئی۔ سائنسی ایجادات نے انسانی تمدن میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کر دیں۔ اور آج میں اپنے پوتے پوتیوں کو سات سمندر پار بیٹھ کر ایسے کہانیاں سُنا رہی ہوں جیسے اپنی دادی کے ساتھ تارے گنتے سُنا کرتی تھی ۔ کہا تو جاتا ہے کہ برقی رابطوں کی تیزی نے اپنے پاس بیٹھے انسان کو دور کردیا ہے۔ ٹیکنالوجی نے انسانوں میں جو دوریاں پیداکیں۔ اُن سے صرفِ نظر کر تے ہوئے جو فوائد ہم سمیٹ سکتے ہیں ۔ کیاوہ بھی نہ سمیٹیں؟؟کہانی سننا اور سنانا ایک خوبصورت روایت ہے۔ جو کہ انسانی فطرت میں بھی ہے۔ اسی لیے دنیا کی ہر زبان اور ہر تہذیب میں کہانیاں ہوتیں ہیں اور ان کہانیوں ہی کی بدولت بچے اپنے ماحول اپنی ثقافت سے روشناس ہوتے ہیں۔ اسی لیے جب میرے بچوں کے بچے چاہے میرے بستر پر بیٹھے ہوں یا پر دیس میں آئی پیڈ کے آگے آن لائن کہانی سُن رہے ہوں ،رشتوں میں مضبوطی اپنی پاکیزہ تہذیب و تمدن اور دینی قدروں کی منتقلی کا کام عمدگی سے انجام پارہا ہے۔ دیارِ غیر میں اپنی نئی نسل کو بنیادوں سے جوڑ کر رکھنا بڑا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ مگر مجھے خوشی ہے کہ میں اِ س ٹیکنالوجی کی بدولت بیٹا بہو کے ساتھ ساتھ بچوں کی تربیت میں اپنا حصہ بھی ڈال رہی ہوں اور ان کی معصوم باتوں اور خوشیوں سے لطف اندوز بھی ہو رہی ہوں۔
میری عمر کی خواتین عموماََ گھریلو ذمہ داریوں سے کسی حد تک فارغ ہو چکی ہوتی ہیں۔ اور اکثر اپنوں کی دوری کا گلِہ کرتی ہیں کہ اُنکے بچے اور بچوں کے بچے اُنکے پاس نہیں بیٹھتے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ بچوں کے پاس آج اُنکی دلچسپی کے بہت سے ایسے سامان موجود ہیں کہ جس نے اُنکوبڑوں کی صحبت سے بے نیاز کر دیا ہے۔ ریٹائرڈ قسم کے مرد حضرات کے پاس یہ وقت گزارنے کے نیٹ سمیت بہت سے مشاغل موجود ہوتے ہیں۔لیکن میرا خیال ہے کہ میری عمر کی خواتین بھی تھو ڑی سی محنت سے نیٹ استعمال کرنا سیکھ سکتی ہیں ۔ نئی نسل پر پڑنے والے نیٹ کے منفی رجحانات پر نوحہ کناں رہنے کے بجائے میری طرح بچوں کی تربیت میں حصہ دار بن سکتی ہیں اور اپنیے دل کے ٹکڑوں کو اپنے قریب ہی محسوس کرسکتی ہیں۔ مجھے اُمید ہے کہ میرے اور بیٹا بہو کی اس مشترکہ کوشش کہ نتیجے میں کل کو جب یہ بچے جوان ہونگے تو اُس مغربی ماحول میں اپنی دینی اور تہذیبی بنیادوں سے جُڑے رہیں گے۔تو بس… حسن کا اپنی دادی کو دیا جانے والا خطاب ٹھیک ہی تو ہے۔ ’’ڈیجیٹل دادی جان …‘‘واہ…

میرا قلم بھی ہاتھ سے گر گیا

آسیہ عبد الحمید

میرے درد کو نہ دوا ملی
میرا درد در در بھٹک گیا
میرے زخم کا مرہم پگھل گیا
میرا مسیحا بھی جہاں سے گزر گیا
میں مدت کے بعد جو لکھ بیٹھا
میرا قلم بھی ہاتھ سے گر گیا
کل متاع جان تھا، میری پہچان تھا
وہی شعرمیرے ذہن سے نکل گیا
میں نہیں ہوں پجاری خواہش کا
میرا شوق گداگری بن گیا
جسے راس بھی نہیں مودت کا اک لمحہ
میں ایسا سوالی محبت بن گیا

حصہ