نفس کی بخیلی

1229

فرزانہ چیمہ
قرآن حکیم کی زبان میں اسے شح نفس کہا گیا ہے۔ ارشاد رب العالمین ہے: ومن یوق شح نفسہ فاولئک ہم المفلحون ’’اور جو لوگ اپنے نفس کی بخیلی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ (سورۂ حشر)
سید مودودیؒ فرماتے ہیں: ’’شح کا لفظ عربی زبان میں کنجوسی اور بخل کے لیے استعمال ہوتا ہے، مگر جب اس لفظ کو نفس کی طرف منسوب کرکے شح نفس کہا جائے تو یہ تنگ نظری، تنگ دلی، کم حوصلگی اور دل کے چھوٹے پن کا ہم معنی ہوجاتا ہے جو بخل سے وسیع تر چیز ہے، بلکہ خود بخل کی بھی اصل جڑ وہی ہے۔ اسی صفت کی وجہ سے آدمی دوسرے کا حق ماننا اور ادا کرنا تو درکنار اس کی خوبی کا اعتراف تک کرنے سے جی چراتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ دنیا میں سب کچھ اسی کو مل جائے اور کسی کو کچھ نہ ملے۔ دوسروںکو خود دینا تو کجا، کوئی دوسرا بھی اگر کسی کو کچھ دے تو اس کا دل دُکھتا ہے۔ اس کی حرص کبھی اپنے حق پر قانع نہیں ہوتی بلکہ وہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرتا ہے، یا کم از کم دل سے یہ چاہتا ہے کہ اس کے گردوپیش دنیا میں جو اچھی چیز بھی ہے اسے اپنے لیے سمیٹ لے، اور کسی کے لیے کچھ نہ چھوڑے۔ اسی بنا پر قرآن میں اس برائی سے بچ جانے کو فلاح کی ضمانت قرار دیا گیا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اُن بدترین انسانی اوصاف میں شمار کیا ہے جو فساد کی جڑ ہیں۔
حضرت جابر بن عبداللہؓ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شح نفس سے بچو، کیوں شح ہی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا۔ اسی نے ان کو ایک دوسرے کا خون بہانے اور دوسروں کی حرمتوں کو اپنے لیے حلال کرلینے پر اکسایا۔‘‘ (بخاری)
حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایمان اور شح نفس کسی کے دل میں جمع نہیں ہوسکتے۔‘‘ (نسائی) (تفہیم القرآن، جلد پنجم، ص 397-396)
فی الحقیقت نفس کی بخیلی امراضِ قلب میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور نفسِ امارہ کی ذیل میں آتی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں نفسِ انسانی کی تین اقسام کا ذکر ملتا ہے:
نفسِ امارہ: جو انسان کو برائیوں پر اکساتا ہے۔
نفسِ لوامہ: جو انسان کو غلط کام کرنے یا غلط سوچنے یا بری نیت رکھنے پر ملامت کرتا ہے۔ اس کا دوسرا نام ضمیر بھی ہے۔
نفسِ مطمئنہ: جو صحیح راہ پر چلنے اور غلط راہ چھوڑ دینے میں اطمینان محسوس کرتا ہے۔
ایک مسلمان کی زندگی حقوق اللہ اور حقوق العباد سے عبارت ہے۔ سوچا جائے تو نفس کی بخیلی ان دونوں شعبوںکو محیط ہے۔ حقوق اللہ میں یا اس طرح کی عبادات میں سستی یا کمی پر یہی نفس اکساتا ہے، اور حقوق العباد میں تو نفس کی بخیلی ہر جگہ، ہر معاملے میں آڑے آتی ہے۔ تجارت، معاشرت، سیاست غرض کہ ہر کہیں شح نفس حائل ہوسکتا ہے، اسی لیے اس سے بچا لیے جانے والوں کو فلاح کی نوید دی گئی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ نفسِ امارہ سے نفسِ مطمئنہ تک سفر کرنے میں بہ توفیقِ الٰہی کوئی بھی مشکل پیش نہیں آتی اگر دنیا کو آخرت کی کھیتی پورے یقین سے سمجھ لیا جائے، اور دنیا کو مومن کے لیے دراصل ایک قید خانہ مان لیا جائے۔ یہاں اپنے افعال و اعمال سے جو فصل بھی بوئیں گے آخرت میں لازماً وہی کاٹیں گے تو پھر شح نفس کرنے کو طبیعت کہاں آمادہ ہوگی! اور اگر اس مقرر زندگی کو قید خانے کی طرز پر کاٹنا ہے تو پھر یہاں آرام و آسائش کی خواہشات کو پورا کرنے کی ساری دوڑ دھوپ عبث ہے۔ تنگی، ترشی پر صبر و برداشت… حالات پر قناعت… آپس میں بہترین معاملات پر خود ہی نفس تقاضا کرے گا اگر اسے یقین ہے کہ یہ دنیا چند روزہ ہے۔ یہاں عمدہ اخلاق مطلوب ہے۔ رذائلِ اخلاق سے اپنی ہی منزل کھوٹی کرنی ہے۔ کسی بزرگ کا قول ہے کہ دنیا کے لیے اتنی محنت کر جتنا یہاں رہنا ہے، اور آخرت کے لیے اتنی محنت کر جتنا وہاں رہنا ہے۔
ہمارے خیال میں شح نفس کی بیماری میں ہم خواتین کچھ زیادہ ہی مبتلا نظر آتی ہیں۔ سسرالی تعلقات میں تو یہ بیماری کچھ اور بڑھ جاتی ہے، جب کہ میکے کی طرف سے کالا کوّا بھی آجائے تو اس کی کائیں کائیں ایک نغمہ محسوس ہوتی ہے۔ اسی پر باقی معاملات کو محمول کرلیجیے، یہ شح نفس ہر کہیں آڑے آجائے گا۔ ہاں سوائے اُن لوگوں کے، جنہیںآخرت پر یقین ہے، جو میزان کو یقین کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، جنہیں پلِِ صراط سامنے کی بات لگتا ہے، اور جو جنت الفردوس کو اپنے رئوف و رحیم اللہ سے مانگتے رہتے ہیں ایک امید کے ساتھ… ایک خوف کے ساتھ۔
ایک خاتون کی عزیز ہوسٹل سے ان کے گھر آئیں۔ ایک سہیلی بھی ساتھ تھی۔ سخت گرمی کا موسم، خاتون نے شیشے کے ایک بڑے سے گلاس میں مشروب پیش کیا۔ کوئی آدھا لیٹر کا گلاس ہوگا۔ کوئٹہ سے منگوائے گئے تھے۔ وہ عزیز گلاس کو دیکھ کر، مشروب سے سیر ہوکر کھل اٹھی۔ ’’کتنا زبردست گلاس ہے، ایک پیو اور شادکام ہوجائو۔‘‘ اس خاتون نے لمحے بھر کو سوچا، پھر ایک فیصلہ کرلیا۔ وہ عزیزہ جانے لگیں تو ایک گلاس بڑے اصرار سے اس کے پرس میں ڈال دیا کہ ہوسٹل میں یہ بہت کام آئے گا، اور ویسا ہی ایک گلاس اس کی سہیلی کو دے دیا۔ بعد میں ایک موقع پر بتانے لگیں کہ اس کی سہیلی کو یہ گلاس دیتے ہوئے نفسِ امارہ مجھ پر غالب آرہا تھا کہ اچانک سورۂ حشر کی شح نفس والی آیت میری نظروں میں گھوم گئی اور پھر میں نفسِ مطمئنہ کی لذت کو پا گئی کہ جس کا لطف ہی وکھرا ہے، علیحدہ ہے، اپنی مثال آپ ہے، فلاح کا پیغامبر ہے۔
سو قارئین محترم! اس نفس کی بخیلی سے ہمیں نجات حاصل کرنی ہے۔ معاملات میں بھی اور عبادات میں بھی جیسے ہی نفس بخیلی کا تقاضا کرنے لگے شح نفس کی آیت کو یاد کرکے فلاح پانے والوں میں اپنا نام لکھوانے کی کوشش کریں۔
فرصت کے اوقات کو تعمیری کاموں میں لگایئے، قرآن اور نفلی عبادات میں دل لگایئے (فرائض کی پابندی تو فرض ہے)، کم خرچ بالا نشیں کا ایک آسان سا نسخہ، ایک درخشاں راستہ ہم بتائے دیتے ہیں۔ ہر نماز پڑھتے وقت فرض ادا کرتے ہوئے دونوں رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد تین تین بار سورۂ اخلاص پڑھ لیا کریں۔ صحیح حدیث کے مطابق ایک قرآن پاک پڑھنے کا ثواب ملے گا۔ اندازہ لگائیں یوں آپ پانچ نمازوں میں دس قرآن کریم پڑھنے کا ثواب لے سکتے ہیں۔
قرآن مجید فرقانِ حمید محبت سے پڑھیے، تلاوت کیجیے، بلا ناغہ پڑھیے۔ تعلق باللہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جائے گا۔ ان شاء اللہ العزیز۔

خدا کے نام سے ہر ابتدائے کار کریں
اسی کی راہ میں ہر چیز کو نثار کریں
یہی تو دل کی سعادت ہے نطق کی معراج
خدا کی حمد کریں اور بار بار کریں
مسرتیں ہوں تو شکرِ خدا بجا لائیں
مصیبتیں ہوں تو ہم صبر اختیار کریں
یہ کیا کہا کہ نگاہِ کرم نہیں ہوتی
گناہ گار گناہوں کا بھی شمار کریں
اسی میں دل کا سکوں ہے، یہی ہے عقل کی بات
خدا، رسولؐ کی باتوں پہ اعتبار کریں
ہر ایک پھل چمن کا خدا کی آیت ہے
اسی نگاہ سے نظارۂ بہار کریں

(ماہرالقادری)

حصہ