شریک ِ مطالعہ

460

نعیم الرحمٰن
برصغیرکے عوام کے لیے ریل گاڑی کے بعد ریڈیوکی آمد ایک بہت بڑی اور حیران کن ایجاد تھی۔ ایک مدت تک لوگ اس عجوبۂ روزگار بولتے ڈبے کو دیکھ کر متحیر رہ جاتے تھے۔ اکثر اس ڈبے کے پیچھے جھانک کر یہ دیکھنے کی بھی کوشش کرتے تھے کہ اس میں بولنے والے گھسے کیسے ہیں۔ پھر عرصۂ دراز تک ریڈیو برصغیر کی ثقافت کا اہم حصہ رہا۔ ابتدا ہی سے شعر و ادب کی دنیا کے نامور لوگ ریڈیو سے وابستہ رہے اور یہ زبان، تلفظ اور صدا کاری سکھانے کا اہم ترین میڈیم تھا۔ مصطفی علی ہمدانی نے ریڈیو پر ہی نصف شب کو اعلان کیا کہ ’’یہ ریڈیو پاکستان ہے‘‘۔ پاکستان میں صبح سویرے لوگ ’’کلام پاک‘‘ کی تلاوت کے بعد ’’قرآنِ حکیم اور ہماری زندگی‘‘ کی تقاریر ذوق و شوق سے سنتے۔ ملک کے نامور علمائے کرام نے بے شمار موضوعات پر اہم تقاریر کیں اور عوام کے شعور اور علم میں اضافہ کیا۔ رات کو گھر کے تمام افراد دن بھر کے کام کاج سے نمٹ کر ریڈیو کے گرد ’’اسٹوڈیو نمبرنو‘‘ کے ڈرامے سننے کے لیے جمع ہوجاتے۔ اکثر جشنِ تمثیل منعقد ہوتا تو لوگوں کو روز ڈراما سننے کو ملتا۔ دن میں بچے اسکول براڈ کاسٹ سے محظوظ ہونے کے ساتھ علم بھی حاصل کرتے۔ اتوار کی صبح تمام اہلِ خانہ ’’حامد میاں کے ہاں‘‘ پہنچ جاتے۔ کمرشل سروس کے آغاز کے بعد دن میں فلمی گیت اور گیتوں بھری کہانی، اتوار کے دن پروفیسر محمد شائق علم وادب کی باتوں اور گیتوں سے آراستہ ’’صبح دم دروازہ خاورکھلا‘‘ لے کر آجاتے۔ علی ظفر جعفری کی ’’جاسوسی کہانی‘‘ اور نٹ کھٹ ٹائنی ٹوٹ کی شرارتوں سے بھری دلچسپیاں بھی لطف فراہم کرتیں۔ غرض ریڈیو نے عوام کوکئی دہائیوں تک اپنی نشریات سے مسحور کیے رکھا۔ نیوز ریڈرز شکیل احمد، انور بہزاد، وراثت مرزا، شائستہ زید، ارجمند شاہین، ثریا شہاب کی آواز میں خبریں لوگ مل جل کر سنتے۔ ہوٹلوں میں بڑے ریڈیو اس کے لیے موجود ہوتے۔
ریڈیو کے قیام اور اس کے فروغ کی کوششوں کا احوال زیڈ اے بخاری نے اپنی دل چسپ آپ بیتی ’’سرگزشت‘‘ میں بہت عمدگی سے بیان کیا ہے۔ یہ آپ بیتی اب تک بار بار شائع ہوتی ہے اور یہ ہر دور کی بیسٹ سیلرز میں شامل رہی ہے۔ اردو کے معروف ادیب اور دانشور اخلاق احمد دہلوی کی آپ بیتی ’’یادوں کا سفر‘‘ بھی ریڈیو کی یادوں پرمبنی ہے۔ یہ کتاب طویل مدت تک نایاب رہنے کے بعد ’’زندہ کتابیں‘‘ کے تحت دوبارہ شائع کی گئی ہے۔ معروف مصنف عشرت رحمانی کی خودنوشت ’’عشرتِ فانی‘‘ بھی ریڈیو کے دور کے بارے میں ہی ہے۔ یہ کتاب بہت عرصے سے نایاب ہے۔ عشرت رحمانی کے اہلِ خانہ کو اس آپ بیتی کی اشاعتِ نو کی جانب توجہ دینی چاہیے۔ مزاح نگار صبیح محسن نے ریڈیو پاکستان کی یادوں کو ’’داستاں کہتے کہتے‘‘ میں تازہ کیا ہے، جبکہ درجنوں کتب کے مصنف قمر علی عباسی نے ریڈیو سے اپنی طویل وابستگی کو ’’32 ناٹ آؤٹ‘‘ کا نام دیا ہے۔ قمر علی عباسی نے اپنے شگفتہ انداز اور اسلوب میں ریڈیو کے بتیس سالہ دور کا ذکر کیا۔ جمیل زبیری نے ’’یادِ خزانہ‘‘ کا نام دیا۔ مشہور ادیب ابوالحسن نغمی نے ریڈیو پاکستان لاہور کی یادوں اور احباب کا ذکر اپنی دل چسپ کتاب ’’یہ لاہور ہے‘‘ میں کیا ہے۔ نغمی صاحب نے ریڈیو سے وابستہ بے شمار افراد سے قارئین کو متعارف کرایا ہے۔ اس کے علاوہ بھی ریڈیو کے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد نے ریڈیو کے بارے میں یادداشتیں تحریر کی ہیں جو دلچسپ اور معلومات افزا ہیں۔
پاکستان میں ٹیلی ویژن کی آمد 1964ء میں ہوئی۔ 1970ء کی دہائی ختم ہونے سے پہلے ٹی وی رنگین ہوگیا۔ نئے ملینیئم میں ایک چینل سے بے شمار چینل ناظرین کے ذوق کی تسکین کے لیے دستیاب ہوگئے۔ ٹی وی سے وابستہ شخصیات نے بھی اس یادنگر کو اپنی آپ بیتیوں میں بیان کیا۔ لیکن ان میں سے اکثر کتب انگریزی میں ہیں۔ مشہور براڈ کاسٹر برہان الدین حسن نے انگریزی میں کتاب لکھی، جس کا ترجمہ ’’پسِ پردہ‘‘ کے عنوان سے کیا گیا، جس میں ٹی وی اسکرین کے پیچھے ہونے والی کہی اَن کہی کو موضوع بنایا گیا۔ لیکن ان کی کتاب ادبی سے زیادہ سیاسی ہوگئی۔ پی ٹی وی کے دو منیجنگ ڈائریکٹر آغا ناصر اور اختر وقار عظیم نے ٹیلی ویژن کی یادوں پر اچھی کتب لکھیں اور اپنے تجربات میں قارئین کو بھی شریک کیا۔ اختر وقار عظیم نے ’’ہم بھی وہاں موجود تھے‘‘ کے نام سے ٹی وی کے دور پر بہت دل چسپ کتاب لکھی ہے، تاہم برہان الدین حسن، آغا ناصر اور اختر وقار عظیم انتظامی امور سے وابستہ رہے اور انہوں نے اسی حوالے سے یادداشتیں لکھیں۔ ٹی وی نیوز کے نام سے الگ چینل کے قیام اور میڈیا کے پھیلاؤ کے بعد خبروں اور حالات ِ حاضرہ کی کہانی بھی ریکارڈ پر آنا ضروری تھا، اور اس اہم ضرورت کو پی ٹی وی کے سینئر پروڈیوسر عبدالخالق سرگانہ نے ’’پی ٹی وی میں ماہ و سال‘‘ کے نام سے اپنی کتاب میں پوری کیا ہے۔ 145 صفحات کی قدرے مختصر کتاب کو ایمل پبلشرز نے اپنے روایتی صوری ومعنوی حسن کے ساتھ شائع کیا ہے۔کتاب میں موجود تصاویر نے اس کی دلچسپی میں اضافہ کیا ہے ۔
عرضِ ناشر میں شاہد اعوان کا کہنا ہے کہ ’’پی ٹی وی ایک زمانے تک ملک سے باہر پاکستان کی واحد نمائندہ آواز اور ملک میں عوام کی تفریح کا واحد ذریعہ بنارہا۔ پچھلی دہائی میں پرائیویٹ چینلز کی آمد اور شور شرابے میں پی ٹی وی نے بھی اپنا نیوزچینل لانچ کیا اور اپنے سکڑتے کردار کو سنبھالنے کی عمدہ کوشش کی۔ گزشتہ صدی کے آخر تک واحد ٹی وی چینل ہونے کی بنا پر پی ٹی وی نے اپنا کردار خوب نبھایا اور غیر مسابقتی ماحول سے فائدہ بھی اٹھاتا رہا۔ سرگانہ صاحب پی ٹی وی میں خبروں اور حالاتِ حاضرہ کے شعبے سے طویل تعلق کی بنا پر ایسی جگہ کھڑے ہیں جہاں اُن سے کچھ پوشیدہ نہیں۔ ایسے طویل تجربے اور اعلیٰ انتظامی عہدے تک خدمات سرانجام دینے کی بنا پر یہ کتاب لکھنا اُن کے لیے فرضِ منصبی نہیں تو اس سے کم بھی نہیں تھا۔ ساری عمر فرض کی ادائیگی کرنے والا اس فرض سے بھی سبک دوش ہوا اور خوب ہوا۔ خبر جیسے خشک اور غیر دلچسپ موضوع کو جس طرح سرگانہ صاحب نے داستان کی شکل میں بیان کیا ہے وہ ان کی انشاء پردازی کا کمال ہے۔ یہ کتاب عام قاری کے لیے دل چسپ داستان، مصنف کے دوستوں کے لیے ان کی پیشہ ورانہ سوانح، پی ٹی وی کے اربابِ اختیارکے لیے راہنمائی، اور اس ادارے کے سابقین کے لیے ماضی کی حکایتِ دل پذیر ہے۔‘‘
معروف صحافی مجیب الرحمن شامی نے کتاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’عبدالخالق سرگانہ کا پاکستان ٹیلی ویژن سے عمر بھر کا ساتھ ہے۔ ان کی پیشہ ورانہ زندگی یہیں سے شروع ہوئی اور یہیں انہوں نے ریٹائرمنٹ کا مزا چکھا۔ پی ٹی وی ان کی پہلی اور آخری محبت ہے۔ وہ جونیئر رپورٹر کے طور پر یہاں آئے اور پھر خبری شعبے کے انتہائی اعلیٰ منصب تک پہنچے۔ انہوں نے پی ٹی وی کے اندر گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا، ایک ایک اسٹیشن پرکام کیا، ایک ایک شعبے کو جلا بخشی۔ اب انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کی تفصیلات کو قلم بند کیا ہے۔ خبرکے شعبے سے تعلق رکھنے والے کسی کارکن کی شاید یہ پہلی جسارت ہے۔ انہوں نے قلم یوں اٹھایا ہے کہ ایک دستاویزی فلم بنا ڈالی۔ دل چسپ، تحیر خیز اور حیرت انگیز۔ پی ٹی وی کے اندر کیا ہوتا رہا؟ کس کس نے اس کے ساتھ کیا کیاکچھ کیا؟ اس بہتی گنگا میں کیسے کیسے لوگوں نے ہاتھ دھوئے اور اس کو گدلا کیا؟ پیشہ ورانہ تقاضوں پر سیاسی مصلحتیں کیسے کیسے غالب آئیں؟ نشیب و فرازکی یہ کہانی میڈیا کارکنوں کے لیے بھی دل چسپی کا سامان رکھتی ہے اور پاکستانی سیاست کے طالب علم بھی اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‘‘
مشہور صحافی اور ڈان، دی نیوز اور ایکسپریس ٹریبیون کے سابق ایگزیکٹو ایڈیٹر ایم ضیا الدین نے پیش لفظ میں ایک ایسی حقیقت کو بیان کیا ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ کہتے ہیں کہ ’’پی ٹی وی کا خیال آتے ہی میرے سامنے ادارے کے ہمیشہ دو متضاد چہرے ابھرتے ہیں، ایک سے میں محبت کرتا ہوں اور دوسرے سے نفرت۔ پسندیدہ چہرے کے سلسلے میں میرے اور اس ملک کے کروڑوں لوگوں کے سامنے پی ٹی وی کا وہ کردار ہے جس میں بہترین پروگراموں کے ذریعے پاکستان کی ثقافتی شناخت اجاگر ہوئی ہے۔ آرٹ، لٹریچر، میوزک اور ڈانس… ان پروگراموں کے ذریعے عام لوگوں کے ڈرائنگ رومز تک پہنچا، لیکن دوسری طرف قابلِ نفرت وہ حصہ ہے جس میں اچھے الفاظ میں جھوٹ بولا جاتا ہے۔ نجی شعبے میں الیکٹرانک میڈیا کے آغاز سے پہلے پرنٹ میڈیا میں میری طرح بہت سے لوگ پی ٹی وی نیوز اور کرنٹ افیئرز میں کام کرنے والے پروفیشنلز کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتے تھے۔ جب خبروں میں صرف حکومتی عمّال کی کارروائی ہی دکھائی جائے اور یہ بتایا جائے کہ معاشرے پر اُن کے بہت اچھے اثرات پڑ رہے ہیں تو انسان اس صورتِ حال پر کیا مثبت رائے رکھ سکتا ہے؟ میرے دوست عبدالخالق سرگانہ نے اس کتاب میں پی ٹی وی کے اسی حصے یعنی نیوز اور کرنٹ افیئرزکو موضوع بنایا ہے۔ کتاب ایک لحاظ سے اُن کی ذات اورکیریئر سے متعلق خودنوشت ہے، کتاب کے بغور مطالعے سے نیوز اور کرنٹ افیئرز کے پروگراموں کی پیشہ ورانہ کمزوریوں کے بارے میں میرے خیالات کو تقویت ملی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ پی ٹی وی کے بنیادی مسئلے کو سمجھنے کے لیے اس کتاب سے بڑی مدد ملی ہے۔‘‘ (جاری ہے)

حصہ