بچاؤ اپنے نظریے

235

ایمن احمد
پچھلے بیس سالوں سے وطن عزیز کو جن مسائل کا سامنا ہے وہ اب اس قدر بڑھ چکے ہیںکہ ان پر قابو پانا از حد مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یہ مسائل روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ خیر یہ سب باتیں تو اپنی جگہ پر درست ہیںلیکن پچھلے دس سالوں سے ملک کی اساس کوجو ٹھیس پہنچ رہی ہے وہ الاماں الحفیظ۔ ہم نے 71 سال پہلے لا الٰہ الا اللہ کے نام پر پاکستان حاصل کیا تھا۔ ہم اپنے آباء کی قربانیوں کا قرض نہیں چکا سکتے مگر ہمیں ان کا اعتراف ضرور ہے۔ نظریہء پاکستان دنیا کے تمام نظریات میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہ وہ واحد نظریہ ہے جس کی جڑ لا الٰہ الا اللہ ہے۔ یہ وہ واحد نظریہ ہے جو آج بھی قائم ہے۔ دنیا میں پاکستان کی طرح پاکستان سے پہلے بھی اور پاکستان کے بعد بھی بہت ساری ریاستیں معرض وجود میں آئیں۔ لیکن یہ ریاستیں جن نظریات کی بنا پر معرض وجود میں آئیں وہ عارضی تھے۔ جو بس وقتی طور پر اختلافات کی وجہ بنے اور پھر اپنی شناخت کھو بیٹھے لیکن نظریہ پاکستان وہ واحد نظریہ ہے جو آج تک پوری دنیا میں پاکستان اور اہل پاکستان کی پہچان ہے۔ یہ نظریہ پچھلی اڑھائی صدیوں سے قائم ہے اور اس نظریے کے بانیوں کے نام آج تک زندہ ہیں۔
لیکن 9/11 کے واقعے کے بعد نظریہء پاکستان کو جو چوٹیں لگیںوہ اب گہرے زخموں کی صورت اختیار کر چکی ہیں۔ اس نظریے کی بقا کی خاطر ہمارے اسلاف نے قربانیاں دیں اور یہ سرزمین بھی آج نظریہ پاکستان کی وجہ سے قائم ہے۔ شاید اللہ کو یہی بات پسند ہے کہ مملکت خداداد کی اساس لا الٰہ الا اللہ ہے جو آج تک ان گنت مسائل کے حصا ر میں بھی یہ ملک قائم و دائم ہے مگر اب حالات دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی تما م ترسازشیںمکمل ہو چکی ہیں۔ بظاہرپاکستان پرویسے حالات مسلط نہیں کیے جا رہے جیسے عراق، مصر، فلسطین اور شام پر کیے گئے کیوں کہ یہ بات ساری دنیا سمیت تمام بیرونی قوتوں کو معلوم ہے کہ پاکستان کا وجود نظریہء پاکستان کی بقا کے ساتھ ہے۔ جس دن یہ نظریہ ختم ہو گیا، اس دن پاکستان فنا ہو گیا۔
پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں پر نوجوان سب سے زیادہ تعداد میں ہیں۔ پاکستان کی آبادی کے کل حصے کا 60%نوجوانوں پر مشتمل ہے اور کسی بھی قوم کا سرمایہ اس کے نوجوان ہوتے ہیں۔ تحریک ِپاکستان اورنظریہ پاکستان کی حمایت کرنے والوں میں سے ایک خاطر خواہ حصہ نوجوانوں پر مشتمل تھا۔ جس طرح ایک نوجوان اپنے عمل اور کردار سے دنیا کو متاثر کر سکتا ہے اس طرح کوئی بھی نہیںکر سکتا لیکن آج اس پاک سر زمین کی زرخیز مٹی سے پھوٹنے والے پودے جب تنا ور درخت بنے تواپنی شاخوں کو طاغوت کے جال میں الجھا بیٹھے۔

اس دو رنگی کے سائے سے تو اللہ بچائے
رابطہ اسلام سے ہے، کفر سے بھی یاری ہے

اس کے علاوہ پردے کی اوٹ میںچھپ کردیکھنے والے دشمن کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ملک میں فرقہ واریت اور خانہ جنگی کو ہوا دی جائے اور جنگل میں بھڑکنے والی آگ کی طرح پھیلایا جائے تاکہ نظریہء پاکستان کو کسی گہری کھائی میں دفن کیا جا سکے۔ اس کے لیے تعصب انگیز عناصر ملک میں ہرطرف اور ہر طرح سے رائج کر رہے ہیں۔ پھر اس تمام صورتحال میں میڈیا کیا کردار ادا کر رہا ہے وہ بھی آپ کے سامنے واضح ہے۔ آج پوری دنیا میڈیا وار کی بھینٹ چڑھی ہوئی ہے۔ نظریہ پاکستان کو ضم کرنے کی رہی سہی کسر میڈیا پر چلنے والے ڈرامے، فلمیں اور مارننگ شوز پوری کر رہے ہیں۔ ان سب میں جو کچھ چلتا ہے، میرا خیال ہے کہ وہ وضاحت کے مطلوب نہیں۔
میرے محترم قارئین! ذرا سوچیے، جو قائد اعظمؒ ہمیں اتحاد، ایمان اور تنظیم کا اصول عمل دے کر گئے، جواسلاف اسلام کے انہی دشمنو ں کے شکنجے سے آزاد ہونے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا گئے، اپنے خون سے اس پاک سرزمین کو سیراب کر گئے۔ کیا یہ سب ان قائد اعظمؒ اور ان اسلاف کی ارواح کے ساتھ مذاق نہیں؟ کیا یہ ان کی قربانیوں کی تضحیک نہیں؟ اب ہمیں کیا کرنا ہے؟ ہمیں اپنے نظریے کو بچانا کس طرح ہے؟ آغاز میں میں نے بات کی ہے کہ کسی بھی قوم کا سرمایہ اس کے نوجوان ہیں۔ اول تو یہ کہ ہمیں ایک بار پھر اپنے نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم دینا ہے، ایک بار پھر انہیںعزم و استقلال کا درس دینا ہے۔
دوم یہ کہ ہمیں ایک بات ہر صورت ذہن نشین کرنی ہے کہ ہم وہابی، سنی، شیعہ، بریلوی‘ پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان سے قطعی بالا تر ہو کر صرف مسلمان اور پھر پاکستانی ہیں۔ یہی ہماری پہچان ہے، ہمارا اعزاز اور ہمارا سب سے بڑا سرٹیفکیٹ ہے۔ تیسرا یہ کہ ہمیں قرآن سے اپنا تعلق مضبوط کرنا ہے۔ اس لیے کہ نجات کا واحد راستہ یہی ہے۔ اسی سلسلے میں قائد اعظم کا یہ قول یاد رکھیے کہ،’’ وہ کو ن سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں، وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے، وہ کون سا لنگر ہے جس پر امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے۔ وہ رشتہ، وہ چٹان، وہ لنگر اللہ کی کتاب قرآن کریم ہے۔ مجھے امید ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے، قرآن مجید کی برکت سے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا، ایک کتاب، ایک رسول، ایک امت‘‘۔ (۶، دسمبر، ۱۹۴۳ کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اکتیسویں اجلاس سے خطاب)
ہمیں دشمنان اسلام و پاکستان سے پاکستان کی حفاظت کرنے کے لیے نظریہ پاکستان کی حفاظت کی حفاظت کرنی ہوگی اور نظریہ پاکستان کی حفاظت کے لیے ایک بار پھر ایک علم کے سائے تلے جمع ہوکر نظریہ پاکستان پر غورو خوض کرنا ہوگا۔

حصہ