سوشل میڈیا اور منہ بولے رشتے

837

ابن نیاز
پہلے بھی کئی بار بہت سے مقامات پر اپنے آرٹیکلز پر لکھا تھا اور آج بھی وہی خیال ہے کہ فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر جو بھی رشتے بنائے جائیں، وہ کسی صورت اصل رشتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ آپ سگی بہن، بیٹی کو بہت کچھ کہہ دو، وہ پھر اپنا خون ہوتا ہے۔ وقتی ناراضگی ہوتی ہے لیکن پھر آپ کے ساتھ ہر دکھ درد میں شریک۔ دل میں بات نہیں رکھتے۔ فیس بک ہو یا کوئی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم، سب جھوٹے رشتے۔ کوئی کتنی سچائی سے، دل سے یا قسمیں کھا کر کہے کہ وہ آپ کو بہن سمجھتا ہے یا وہ بھائی سمجھتی ہے، بے شک ان کی نیت صاف ہو گی لیکن جب اللہ اور اس کے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے کہہ دیا اور ان کا حکم پتھر پر لکیر ہوا تو اس کے بعد ہم ایسے رشتے بنانے پر کیوں اصرار کرتے ہیں جن کا مذہب اسلام میں سرے سے کوئی تصور ہی نہیں۔
شاید اس لیے کہ ہماری نیت صاف ہوتی ہے تو ہمیں مخالف پر بھی اعتماد ہوتا ہے لیکن ولی اللہ تو کوئی نہیں۔ نیتیں بدلتے دیر نہیں لگتی، میں نے ذاتی طور پر بڑے بڑے پھنے خانوں کو پل میں بدلتے دیکھا ہے جو کہتے تھے کہ کچھ بھی ہو جائے انھوں نے جو رشتہ بنایا ہے اس کو قائم رکھیں گے چاہے دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے لیکن دنیا تو ادھر ہی رہی۔ وہ چادر کی دوسری طرف ہو گئے اور اس کے بعد کیا ہوا۔ ایک کی زندگی خراب، دوسرے نے پٹڑی بدل لی۔
خاص طور پر لڑکیاں بہت نازک مانند آبگینہ ہوتی ہیں۔ بہت جلد بھائی بنا لیتی ہیں۔ بھیا بھی اللہ کی قسمیں کھاتا ہے، ہر طرح سے یقین دلاتا ہے کہ بھیا ہونے کی لاج نبھائے گا۔ ان لڑکیوں کو کیوں سمجھ نہیں آتی کہ یہ بھیا جب تم سے اعتماد کی پہلی قسط کے طور پر نمبر مانگے تو گڑبڑ کا احساس کیوں نہیں کرتیں۔ اس کے بعد بہن کو تحفہ بھیجنا ہوتا ہے تو پتہ مانگا جاتا ہے۔ پھر میری بہن ہے کیسی، دیکھیں تو سہی اور بہن جی اپنی تصویر بھیج دیتی ہے۔ اس تصویر کو یہ بھیا دس دوستوں کو بتاتا پھرتا ہے کہ نئی گرل فرینڈ ہے۔ ابھی تو بھائی کہتی ہے لیکن جلد ہی محبوب کہے گی۔ بھولی لڑکی، میری اس بات پر بہت سے لوگ کہیں گے کہ قصور تو لڑکی کا ہے کہ وہ کیوں مردوں کو فرینڈ لسٹ میں شامل کرتی ہے اور خواتین فرمائیں گی کہ مرد کیوں خواتین کو ورغلاتے ہیں۔
یاد رہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ دونوں برابر کے قصور وار ہیں۔ سب سے پہلے تو دونوں کی دین کی تعلیمات سے دوری ایک بنیادی وجہ ہے یا تو دونوں جانتے نہیں کہ منہ بولے رشتے کی کوئی اصل نہیں اور یا پھر ان کے گھر کا ماحول ہی اس طرح کا ہے جہاں ان کو بس کھانے پینے، نشوونما پانے اور رہنے سہنے کے مواقع ہی دیے جاتے ہیں۔ رشتوں کی حقیقت کیا ہے؟ دوسروں سے کس طرح پیش آنا ہے، سب ان کے ماحول پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ وہ جیسا چاہیں ماحول سے اثر لے لیں۔ بھلے وہ اسکول، کالج یونیورسٹی ہو یا پھر دوستوں کی محفل۔ ایسا ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جن کے والدین ان کو وہ توجہ نہیں دے پاتے جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں اور والدین کی یہی لاپرواہی و بے توجہی انہیں راہ راست سے بھٹکانے کا سبب بنتی ہے۔ خدرا ہوش کے ناخن لیں اور سوشل میڈیا پر دوست اور رشتے ڈھونڈنے کے بجائے جو آپ کے قریبی عزیز آپ کی توجہ اور محبت کے محتاج ہیں ان کے ساتھ وقت گزاریں ہم سب نے ان کے حقوق کے بارے میں روز محشر جواب دینا ہے۔

حصہ