ریل گاڑی

379

روبینہ اعجاز

چھک چھک کر کے چلتی جائے
ریل گاڑی ہمیں گھمائے
شہر شہر یہ ہمیں گھما کر
ہر سو نظارے یہ دکھلائے
منظر سارے کتنے پیارے
کھیت کھلیان۔دریا ہیں نرالے
مالٹے درختوں میں لٹک رہے ہیں
سرسوں کے پودے لہک رہے ہیں
صبح وشام یہ چلتی جائے
اسٹیشن آئے تو رک جائے
رونق کیسی لگی ہوئی ہے
دنیا یہاں کی نئی نئی ہے
گرم پکوان کافی اور چائے
جو دل چاہے یہاں مل جائے
آرام سے سب کو بٹھا کر
چھک چھک کر کے چلتی جائے

حصہ