قصہ دعا کی قبولیت کا

831

بچو جیسے آپ بچے ہیں کبھی میں بھی آپ کی طرح بچہ ہوتا تھا۔ جیسے اب آپ اتنے بڑے ہو گئے ہیں کہ کہانیاں اور قصے پڑھنے اور سنانے لگے ہیں بالکل اسی طرح میں بھی آپ کی عمر کا ہوا کرتا تھا۔ کیونکہ میرے زمانے میں آج کل کی طرح انٹرنیٹ نہیں ہوا کرتا اس لیے یاتو کرکٹ، فٹبال اور ہاکی کھیلتا تھا یا پھر کہانیوں، لطیفوں اور قصوں کی کتابیں پڑھا کرتا تھا۔ اگر کوئی ایسی چیز میسر نہیں ہوتی تھی تو پھر ایک ہماری باجی ہوتی تھیں ان کو گھیر کر مجبور کیا کرتا تھا کہ وہ کہانیاں سنائیں۔ باجیاں بھی ماں جیسی ہی ہوتی ہیں اس لیے وہ تمام کاموں سے ہاتھ کھینچ کر کہانیاں سنانے بیٹھ جایا کرتی تھیں۔
ان ہی دنوں کی بات ہے کہ مجھے اچھا بننے اور کہلانے کا شوق سمایا۔ ویسے اچھا کہلانے کا شوق کس کو نہیں ہوتا۔ آپ کو بھی ضرور اچھا کہلانے کا شوق ہوگا۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ اچھا کہلانے کا شوق تو سب کو ہی ہوتا ہے لیکن اچھا بننے کیلیے جو جو کام کرنے ہوتے ہیں وہ کم کم بچے کیا کرتے ہیں۔ یہ بات بچوں پر ہی موقوف نہیں بڑے بھی چاہتے تو یہی ہیں کہ ان کو کوئی برا نہ کہے۔ وہ جہاں جہاں سے بھی گزریں، جن سے ملیں، جہاں جائیں اور جس جگہ بیٹھیں سب ان کو اچھا کہیں لیکن جو جو کام اچھا بننے اور کہلانے کیلیے ضروری ہوتے ہیں وہ عام طور پر نہ تو بڑے کرتے ہیں اور نہ ہی بچے۔
اچھا بننے کیلیے بہت مشقت کی ضرورت نہیں ہوتی البتہ ہمت کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً کبھی جھوٹ نہ بولنا۔ کیا جھوٹ بولنے کیلیے محنت کرنی پڑتی ہے؟، نہیں کبھی نہیں اس لیے کہ نہ تو اس کیلیے کدال چلانا ہوتا ہے اور نہ ہی پہاڑ توڑنے ہوتے ہیں۔ جس زبان سے ہم جھوٹ بولتے ہیں اسی زبان سے سچ بولا جاتا ہے۔ بس ذرا ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً گھر میں کئی چھوٹے بڑے بھائی بہن ہیں اورآپ سے گھر کی کوئی قیمتی شے ٹوٹ گئی۔ جب کوئی قیمتی چیز ٹوٹی اس وقت آپ کو کوئی بھی نہیں دیکھ رہا تھا۔ بس ایک اللہ تھا جو دیکھ رہا تھا۔ یہ بات بہت اچھی طرح عیاں تھی کہ اگر گھر میں بڑوں کو علم ہوجاتا تو گوشمالی ہوتی اس لیے دل پر گھبراہٹ سوار ہوجانا فطری بات تھی۔ بس اسی ڈر سے راہ فرار اختیا کرلی۔ گھر میں کچھ دیر کے بعد ہنگامہ برپا ہوگیا۔ گھر کے بڑے ایک ایک بچے سے پوچھتے پھرتے رہے کہ یہ حرکت کس نے کی لیکن کیا مجال کہ آپ بڑھ کر کہیں کہ ایسا میں نے کیا ہے۔نتیجہ یہ ہوا کہ آپ سے جو بچے چھوٹے تھے زد میں آگئے۔ ڈانٹ بھی پڑی اور ایک آدھ دھپ بھی کھانا پڑی۔ یہ خاموشی یا ایک طرح کا جھوٹ دوسروں کے سر پڑگیا۔ اگر آپ جرات سے کام لیتے اور اپنے آپ کو پیش کردیتے اور معافی طلب کر لیتے تو شاید ہر قسم کی غضبناکی سے بچ رہتے یا ڈانٹ اور مار دونوں کھاتے۔ آپ خاموش رہے یا پوچھنے پر انکاری ہوگئے تو سزا بے قصوروں کو ملی۔ یہ دہرا جرم ہوا۔ ایک جانب جھوٹ بولنا، خاموش رہنا یا انکار کرنا اور دوسرا جرم یہ ہوا کہ اپنی خطا پر دوسروں کو سزا ملتے دیکھ کر دکھ بھی نہیں ہونا۔ اسی لیے میں نے کہا کہ اچھا بننے کیلیے محنت یا مشقت کی نہیں بلکہ ہمت اور جرات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب آپ سوچ رہے ہونگے جھوٹ بولنے سے تو جان پھنس جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہے بلکہ اگر آپ لوگوں پر ثابت کردیں کہ آپ کسی بھی حال میں جھوٹ نہیں بولتے تو لوگوں میں آپ کا قد کاٹھ بڑھ جائے گا اور آپ کی ہر گواہی معتبر مانی جائے گی۔
ایک آدھ مرتبہ کی سختی برداشت کرنے کا صلہ عمر بھر ملتا رہے گا۔ جھوٹ سے اجتناب، دوسروں کی خدمت، بڑوں کا ادب، ان کا کہنا ماننا جیسے کام وہ ہیں جن کو اختیار کرکے ہم ہر چھوٹے بڑے کی آنکھوں کا تارا بن سکتے ہیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ ہم ایسا کچھ کئے بغیر اور اچھے کاموں کو اختیار کئے بغیر ہی یہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کی آنکھوں کا تارا کہلائیں اور دنیا میں ہماری دھوم ہو۔
میں بھی جب آپ ہی کی عمر کا تھا تو یہی چاہتا تھا کہ ہر فرد مجھے دیکھے تو میری تعریف کرے۔ مجھ سے ایک بھائی ذرا ہی بڑے تھے جب ان کی تعریف ہر آنے والا اور خود گھروالے کیا کرتے تھے تو مجھے بہت حسد ہوتا تھا۔ مجھ سے بڑے بھائی کی تعریف ان ہی خصوصیات کی وجہ سے تھی جن کا میں ذکر کرچکا ہوں یعنی سچ بولنا، ہر بڑے کا ادب اور چھوٹے کا لحاظ کرنا، سب کے کام آنا اور بڑوں کا کہنا ماننا جبکہ مجھ میں ایسی کوئی ایک خوبی بھی نہیں تھی۔ خطا کرکے اڑجانا، غلطی نہیں مان کے دینا۔ جھٹ جھوٹ بول دینا۔ بڑوں کا کوئی کہانہ ماننا وغیرہ۔ ساری خرابیوں کے باوجود خواہش یہی تھی کہ جس طرح سب آنے جانے والے اور گھر کے چھوٹے بڑے، بڑے بھائی کی تعریف کرتے ہیں، میری بھی کریں لیکن ایسا کیسے ممکن ہو سکتا تھا۔
ایک دن میں نے سوچا کہ کیوں نہ آج نہادھوکے اور اچھے اچھے کپڑے بدل کر مسجد نماز پڑھنے جایا جائے اور اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعا کی جائے کہ مجھ میں ایسی خوبی پیدا ہوجائے کہ میں جہاں جہاں سے گزروں سب میری تعریف کریں یہاں تک کہ جب گھر میں داخل ہوں تو سب اٹھ اٹھ کر مجھے سلام کریں۔ بس پھر کیا تھا دھوبی کے دھلے کپڑیالماری سے نکالے۔ براق کرتے اور شلوار کی تو شان ہی الگ ہوتی ہے۔ نہادھوکے زیب تن کیا۔ ادھر میں واش روم سے باہر نکلا ادھر مغرب کی اذان کی آواز مسجد سے بلند ہوئی۔ گھر والے بڑے حیران کہ یہ کونسا انقلاب آگیا ہے۔ کہاں جانے کا ارادہ ہے لیکن بس سب کو حیران چھوڑ کر مسجد کی راہ لی۔ مسجد پہنچے تو جماعت کھڑی ہوچکی تھی اس لیے جلدی سے اگلی صف میں کودنے کی کوشش کی جو ناکام ہوگئی اس لیے کہ ایک بزرگوار نے پچھلی صف میں کھڑا کردیا اور خود میری جگہ قابض ہو گئے۔ دوران نماز مزید دوبار ایسا ہوا۔ اسی دوران ایک صاحب نے ننگا سر دیکھ کر سر پر مسجد کی تنکوں والی ٹوپی دھردی جس کو چھونے پر پتہ چلا کہ اس کے تنکے چاروں جانب سے نکلے پڑ رہے ہیں لیکن کچھ ہی دیر کے بعد ٹوپی کا خیال ذہن سے محو ہوگیا۔ ہمارے زمانے میں مساجد میں دھول مٹی بہت ہوا کرتی تھی اس لیے کہ نہ تو گلیاں پختہ ہوا کرتی تھیں نہ محلے اس لیے براق کپڑے گرد آلود ہوتے رہے لیکن کس کو پرواہ تھی۔ نماز ختم ہوئی تو دونوں ہاتھ بلند کرکے اللہ سے دل کی گہرائیوں سے دعا کی کہ اللہ مجھے ایسا بنادے کہ جو بھی دیکھے وہ سلام کرے۔ دعا سے فارغ ہوکر جب میں مسجد سے نکلا تو یہ جان کر حیران رہ گیا کہ راستے میں جو بھی چھوٹا بڑا ملتا وہ یوں دیکھتا جیسے میرے چہرے سے نور کا سیلاب نکل پڑا ہو۔ ہر جانب ایک ہی صدا آتی کہ مولوی صاحب سلام۔ یہ تحسین آموز آوازیں سن کر دل بلیوں اچھلنے لگا اور یہ سوچنے لگا کہ اللہ نے میری دعا سن لی ہے اور فوراً ہی قبول بھی کر لی ہے۔ خوشی سے رواں رواں کانپنے لگا اور دل اللہ کے شکرانے ادا کرنے لگا۔ ساتھ ہی ساتھ جب بڑے بھائی کا خیال آیا تو ایک دم بڑائی پیدا ہوگئی۔ بھائی کیا تمہیں کبھی ایسی عزت ملی؟۔ یہ خیال آتے ہی اور بھی اکڑپیدا ہوگی۔ گھر کا دروازہ کھٹکھٹا یا پوچھا کون ہے تو نام بتایا۔ دروازہ کھولنے والے بڑے بھائی تھے۔ انھوں نے نیچے سے اوپر تک دیکھا، مسکرائے اور کہا سلام مولوی صاحب۔ واہ بھئی ان کے منھ سے یہ سب سن کر اور بھی اکڑ پیدا ہوگئی۔ بنا جواب دیئے خوش خوش گھر میں داخل ہوا تو سب چھوٹے کیا بڑے مجھے دیکھنے اور اٹھ اٹھ کر سلام کرنے لگے۔ امی کے لبوں کی مسکراہٹ تو لبوں پر ہی جم کر رہ گئی تھی۔ سب ہی مسکرارہے تھے اور میں آنکھ بند کرکے اللہ کا شکر ادا کررہا تھا کہ واہ غفورالرحیم تونے میری دعا قبول فرمائی۔ گلی سے لیکر گھر کے ہر فرد کی تعریفی نظریں اور اٹھ اٹھ کر سلام پر سلام کرنے کا خیال آکر میرے دل میں خیال آیا کہ آئینے میں جاکر تو دیکھوں کہ وہ کون سا نور ہے جس کو دیکھ دیکھ کر ہرچھوٹا بڑا سلام پر سلام کر رہا ہے۔ بھاگ کر آئینہ میز کے سامنے پہنچا اور اپنے حلیہ پر نظر پڑتے ہی ساری اکڑ ایسی خاک میں ملی کہ چکرا کر گرہی پڑتا اگر امی پکڑ نہ لیتیں۔ سر پر مسجد کی وہی ٹوپی تھی جس کو ایک محترم نے پہنایا تھا جس کے تنکے چاروں جانب سے یوں نکلے ہوئے تھی جیسے ـجھائیںـ یعنی وہ چوہانما جانور جو اپنے پورے بدن کو اپنے ہی کانٹوں میں چھپا کر اپنے آپ کو خطرے کی صورت میں محفوظ کر لیتا ہے۔ ناک اور پیشانی پر لگی وہ مٹی جو سجدے کرتے ہوئے پوری ناک اور ماتھے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھی۔ یہ منظر دیکھ کر بس اتنا یاد ہے کہ امی کے پیچھے سب چھوٹے بڑے بھائی بہن بری طرح ہنس رہے تھے لیکن میری ٓنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا چکا تھا۔

حصہ