اللہ اور اُس کے رسول ﷺکی پکار پر لبیک کہو

847

سید مہرالدین افضل
سورۃ الانفال کے مضامین کا خلاصہ
از تفہیم القرآن(چودھواںحصہ)
(تفصیل کے لیے دیکھیے سورۃ الانفال حاشیہ نمبر:16،17، 18، 19)
منافقت کا ظہور: اسلام کی دعوت سب کے لیے ہے، لیکن اس کی چوٹ صاحبانِ اقتدار پر پڑتی ہے، اسلام ان سے مطالبہ کرتا ہے کہ بندوں پر اپنا حکم قائم کرنے کے بجائے اللہ کا حکم قائم کرو۔ اس طرح ان کا اقتدار ہی چیلنج ہوجاتا ہے۔ ایسا کم ہی ہوا ہے کہ یہ طبقہ اسلام کو قبول کرنے میں پہل کرے۔ اس کے برعکس یہ اسلام کے اوّلین دشمن بن جاتے ہیں، اسی لیے مکہ مکرمہ میں ایمان لانا اپنی جان پر کھیلنا تھا، اور ڈرنے والے تو ایمان لا ہی نہیں سکتے تھے۔ لیکن مدینہ طیبہ میں حکومت و اقتدار اسلام کے پاس آگیا، اب ایمان لانا آسان بھی ہوگیا، اور بہت سے لوگوں کی معاشی، معاشرتی اور سیاسی ضرورت بھی بن گیا… سو، وہ ایمان لے آئے، لیکن ایمان کی پکار پر لبیک کہنے کے لیے تیار نہ تھے۔ پہلے تو ان کا خیال یہ تھا کہ جلد ہی قریش اپنے باغیوں پر قابو پا لیں گے۔ اور جب مسلمان غزوۂ بدر کے لیے جانے لگے تو انہیں یقین تھا کہ یہ موت کے منہ میں جارہے ہیں، اور اس طرح ان سے ہماری جان چھوٹ جائے گی۔ غزوۂ بدر میں کامیابی کے بعد بھی یہ لوگ یہی سوچتے تھے کہ قریش جلد ہی اس کا بدلہ لیں گے… اور یہود اپنی معاشی طاقت اور سازشوں سے انہیں کامیاب نہ ہونے دیں گے۔ اور یہ تو آپس کی جنگ تھی، ابھی تو روم و ایران جیسی سپر پاورز نے ان کی طرف توجہ نہیں کی! وہ جب اس طرف دیکھیں گے تو لگ پتا جائے گا… منافقین کے اس مائنڈسیٹ کے بیان کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ یہ بات واضح رہے کہ منافقت کا ظہور حکومت اور طاقت کے حصول کے بعد ہوتا ہے۔
نفاق کی حقیقت:
سورۃ الانفال آیت نمبر 21 تا23 میں ارشاد ہوا: ’’اے ایمان لانے والو، اللہ اور اُس کے رسول ؐ کی اطاعت کرو اور حکم سُننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو۔ اُن لوگوں کی طرح نہ ہوجائو جنہوں نے کہا کہ ہم نے سنا، حالانکہ وہ نہیں سنتے۔ یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ اگر اللہ کو معلوم ہوتا کہ ان میں کچھ بھی بھلائی ہے تو وہ ضرور اُنہیں سننے کی توفیق دیتا (لیکن بھلائی کے بغیر) اگر وہ اُن کو سُنواتا تو وہ بے رُخی کے ساتھ منہ پھیر جاتے۔‘‘ (یہاں سننے سے مراد وہ سننا ہے جو ماننے اور قبول کرنے کے معنی میں ہوتا ہے۔ ہم اپنی عام گفتگو میں جب کسی سے کوئی کام کہتے ہیں، اور وہ، کام نہیں کرتا، تو یہی کہتے ہیں کہ، کیا تم سنتے نہیں ہو؟ قرآن مجید بھی اللہ تعالیٰ کے احکام ہمارے سامنے پیش کرتا ہے، کچھ کرنے کے کام بتاتا ہے، اور کچھ کاموں سے منع کرتا ہے۔ ان پر عمل نہ کرنا نفاق کی سب سے واضح اور قطعی الثبوت علامت ہے… اور اس کا سبب یقین کی کمی ہوتا ہے۔ مدینہ طیبہ کے نافرمان منافقین کو اس بات کا یقین بھی نہیں تھا کہ یہ کلام اللہ کا کلام ہے… اور یہ یقین بھی نہیں تھا کہ یہ نئی قائم ہونے والی حکومت زیادہ عرصے چل سکے گی۔ اس آیت میں ان ہی منافقین کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جو ایمان کا اقرار تو کرتے تھے، مگر احکام کی اطاعت سے منہ موڑ جاتے تھے، اور جنگِ بدر میں مسلمانوں کے ساتھ نہیں گئے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حق سنتے ہیں، نہ حق بولتے ہیں۔ جن کے کان حق سننے کے لیے بہرے ہیں… اور جن کے منہ حق بولنے کے لیے گونگے ہیں۔ انہیں حق کی پکار پر لبیک کہنے کی توفیق اللہ کی جانب سے اس لیے نہیں ملی کہ ان لوگوں کے اندر خود حق پرستی اور حق کے لیے کام کرنے کا جذبہ نہیں تھا، اگر انہیں جنگ میں شریک ہونے کی توفیق دے بھی دی جاتی تو یہ خطرے کا موقع دیکھتے ہی بھاگ جانے میں کوئی شرم محسوس نہ کرتے، اور ان کا ساتھ جانا اہلِ ایمان کے لیے فائدہ مند ہونے کے بجائے نقصان کا سبب ہوتا۔ توفیقِ الٰہی کا یہ مستقل قانون ہے کہ وہ ان ہی لوگوں کو ملتی ہے جو خود اپنے اندر حق پرست ہوتے ہیں، اور حق کے لیے کام کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ منافقین کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ عقل سے کام نہیں لیتے… یہ کہہ کر انہیں عقل کو کام میں لانے کی دعوت دی جارہی ہے، اگر یہ عقل سے کام لیں، اور اس کائنات پر غور فکر کریں، اس کے حسنِ انتظام کو دیکھیں، تو اللہ کے خالقِ کائنات اور قادرِ مطلق ہونے کا یقین ان کے دل میں جگہ پائے گا… اگر یہ عقل کو استعمال کرتے ہوئے بغیر کسی تعصب کے قرآن کو پڑھیں، تو انہیں اس کے کلام الٰہی ہونے میں کوئی شک نہ رہے گا… اور اگر یہ ان تبدیلیوں کو عقل کی آنکھوں سے دیکھیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرنے سے انسانوں میں انفرادی طور پر، اور سیاست، ریاست، معیشت اور سماج میں اجتماعی طور پر آرہی ہیں، تو یہ شک ان کے دل سے نکل جائے گاکہ کوئی ہوا کا جھونکا اسلام کو اکھاڑ پھینکے گا، یا کوئی پانی کا طوفان اسے بہا لے جائے گا۔ عقل سے کام لینے کی دعوت آج بھی عام ہے، جو کوئی بھی بغیر تعصب کے ان تبدیلیوں کو دیکھے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے اور جس کا فیض آج تک جاری ہے، وہ پکار اٹھے گا کہ انسانیت کے لیے فلاح اور کامیابی صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر عمل کرنے میں ہے… اور ایک دن ضرور آئے گا کہ انسان اس سچائی کو تسلیم کرے گا اور وہیں سے اس کے عروج کا آغاز ہوگا۔
نفاق سے بچنے کے لوازم:
آیت نمبر 24 میں ارشاد ہوا: ’’اے ایمان لانے والو، اللہ اور اُس کے رسول کی پکار پر لبیّک کہو جبکہ رسولؐ تمہیں اُس چیز کی طرف بُلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے، اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اُسی کی طرف تم سمیٹے جائو گے۔‘‘ (نفاق سے بچنے کے لیے دو باتوں کا تعلق عقیدے سے ہے، جبکہ ایک کا تعلق عمل سے… اگر دو عقیدے انسان کے دل و دماغ میں بیٹھ جائیں تو وہ نفاق کے راستے پر چلنے سے بچ سکتا ہے۔ ایک یہ کہ اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے جو دلوں کے حال تک جانتا ہے… اور وہ ایسا رازدان ہے، کہ انسان اپنے دل میں جو نیتیں، جو خواہشیں، جو اغراض و مقاصد اور جو خیالات چھپا کر رکھتا ہے، وہ بھی اس پر کھلے ہوئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ جانا بہرحال اللہ کے سامنے ہے۔ اس سے بچ کر کہیں بھاگ نہیں سکتے۔ یہ دو عقیدے جتنے زیادہ پختہ ہوں گے، اتنا ہی انسان نفاق سے دور رہے گا۔ اسی لیے منافقت کے خلاف وعظ و نصیحت اور تلقین کے سلسلے میں قرآن ان دو عقیدوں کا ذکر بار بار کرتا ہے۔ یہ عقیدہ درست ہوجائے تو اس کا اظہار عمل سے ہوتا ہے، اور بندۂ مومن اللہ اور رسولؐ کی پکار پر لبیک کہتا ہے۔ آج ہمارا ایمان کس حال میں ہے؟ انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر ہم اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم عقلی دلائل سے اللہ کی وحدانیت و ربوبیت، اور اسلام کی حقانیت و آخرت کی جواب دہی کو اپنے دل میں بھی بٹھائیں اور لوگوں کو بھی عقلی دلائل سے مطمئن کریں۔ دوسرے یہ کہ عملی طور پر اللہ اور رسولؐ کی پکار پر لبیک کہیں… جب یہ آیات نازل ہورہی تھیں اُس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفسِ نفیس موجود تھے… احکام کی وضاحت ہوجاتی تھی۔ آج اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار کیا ہے؟ اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ غور و فکر کا یہ دائرہ جتنا وسیع ہوگا، بحث کے دوران آراء میں جتنا تنوع ہوگا، فیصلہ اتنا ہی جامع اور قابلِ عمل ہوگا، اور راہِ عمل میں اتنی ہی یکسوئی ہوگی۔ یہ دائرہ اتنا وسیع ہونا چاہیے کہ دنیا بھر کے مسلمان ایک پیج پر آجائیں۔ یہی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اور اُس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے، اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

حصہ