خواجہ آصف کا شکریہ

288

تنویر اللہ خان
منافقت، ریاکاری، بڑبولاپن ہماری قومی عادت بن چکی ہے۔ کلرکہار کے قریب عزت مآب گورنر سندھ جناب عمران اسماعیل کا موٹروے پولیس نے تیز رفتاری پر چالان کردیا۔ تفصیل کے مطابق گورنر صاحب موٹروے پر 136 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلارہے تھے، جب کہ موٹروے پر چھوٹی گاڑیوں کی حد رفتار 130 کلومیٹر ہے۔ حدرفتار سے 6 کلومیٹر اوپر جانے پر گورنر صاحب 750 روپے جرمانے کے دین دار قرار پائے۔ قانون کی حکمرانی کا بول بالا کرنے پر گورنر صاحب نے موٹروے پولیس کو’’تمغہِ شاباشی‘‘ سے نوازا۔
ویسے تو ساڑھے سات سو کا چالان گورنر صاحب کے شایانِ شان بھی نہیں تھا، دوسرے یہ کہ گورنر صاحب کے یہ ساڑھے سات سو روپے حکومتِ پاکستان کے خزانے میں اضافے کے بجائے چند روپوں کی کمی کا سبب ہی بنیں گے، وہ اس طرح کہ عام سرکاری افسر بھی گھر سے نکلتے ہوئے جیب جھاڑ کر نکلتا ہے، پھر گورنر تو گورنر ہے، لہٰذا یقینی ہے کہ جرمانے کی رقم سرکاری خزانے سے ہی ادا کی گئی ہوگی۔ چالان کے کاغذ اور رقم کی وصولی کے لیے مشین کا استعمال بذمہ سرکار علحیدہ سے آیا، جو ایٹ دی اینڈ سرکاری خزانے میں خسارے کا سبب بنا۔
عام حالات میں گورنر صاحب لاہور سے چلتے اور اسلام آباد پہنچ جاتے۔ راستے میں چند سو گاڑی والے ہی جھنڈے والی گاڑی کو دیکھتے، اور ان میں سے بھی کسی کو معلوم ہی نہ ہوتا کہ جھنڈے والی شان دار کالی گاڑی میں شائیں سے کون گزر گیا! لیکن 750 روپے کے چالان کے عوض قومی اخبارات کے صفحہ اول کی پیشانی پر سب نے پڑھا کہ گورنر صاحب کا چالان ہوگیا اور انھوں نے اس چالان کا بُرا بھی نہیں منایا۔ گورنر صاحب کی قانون پسندی، موٹروے پولیس کی فرض شناسی، ہر بڑے چھوٹے پر قانون کے یکساں نفاذ کا ڈھنڈورا بھی خوب پِٹ گیا۔ یہ ریا کاری نہیں توکیا ہے؟
آج ہمارے رشتے دار، دوست، پیٹی بند بھائی منصوراحمد بھی گورنر صاحب کے برابر ہوگئے ہیں، وہ اس طرح کہ 2007ء میں معمولی تیز رفتاری کی وجہ سے وہ بھی موٹروے پولیس سے اپنا چالان کروا چکے ہیں، لہٰذا ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے منصور و عمران۔
پنجابیوں نے اردو کو خوب اپنایا ہے، مثلاً چالیس سال سے کم عمر کوئی بھی پنجابی عورت آپ کو پنجابی بولتی سُنائی نہیں دے گی، سب نے اردو کو اختیار کیا ہوا ہے۔ ممکن ہے خاص طور پر وہ اپنے بچوں سے خالص اردو لہجے میں بات کرتی ہوں۔ اور اردو نے بھی پنجابیوں کی محبت کا خوب جواب دیا ہے۔ اشفاق احمد، ممتازمفتی، صوفی غلام مصطفیٰ، امرتا پریتم، امتیاز علی تاج، ضیا محی الدین، ساحر لدھیانوی، ابن انشا، فیض احمد فیض، شورش کاشمیری، امجد اسلام امجد، احمد ندیم قاسمی، منیرنیازی، مجید امجد، پطرس بخاری، منٹو، قتیل شفائی… ان میں سے کسی کی بھی مادری زبان اردو نہیں ہے، ان سب نے اردو کو اپنایا اور اردو نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔
سیاست دانوں میں جناب خواجہ آصف نے اردو کو ایک نئی ترکیب دی ہے ’’کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے‘‘۔
جب تک پی ٹی آئی کی حکومت ہے، اس جملے کی باربار ضرورت پڑتی رہے گی۔
بادشاہ سلامت کی حجامت بنانے ایک نائی محل میں آتا تھا۔ اس نے دیکھا کہ میں گھنٹوں بادشاہ سلامت کی کٹائی اور ملائی کرتا ہوں اور عوض میں بہت تھوڑے پیسے ملتے ہیں، اور وزیر ہیں کہ صرف باتیں بناتے ہیں اور انھیں ہر طرح کا عیش و آرام میسر ہے، لہٰذا اُس نے جی کڑا کرکے بادشاہ سے مطالبہ کیا کہ مجھے بھی وزیر بنادیا جائے۔ بادشاہ نے نائی کو بہت سمجھایا کہ یہ تمہارے بس کا کام نہیں ہے، لیکن نائی اپنی ضد پر اڑ گیا، لہٰذا بادشاہ نے نائی سے وعدہ کرلیا کہ چند دنوں میں تمہاری خواہش پوری کردوں گا۔ ایک دن بادشاہ نے نائی کو طلب کیا اور حکم دیا کہ بندرگاہ پر جو جہاز آیا ہے اُس کے بارے میں معلومات لے کر آئو۔ نائی دوڑا دوڑا گیا اور واپس آکر بادشاہ کو بتایا کہ جہاز فلاں ملک سے آیا ہے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ پھر جائو اور معلوم کرو اس میں کتنے مسافر ہیں۔ نائی پھر گیا اور جہاز کے مسافر گن کر بادشاہ کو بتادیا۔ صبح سے شام ہوگئی، نائی محل اور جہاز کے چکر لگاتا رہا اور بادشاہ کو بتاتا رہا۔ شام تک وہ ہلکان ہوگیا، لیکن اس کا کام مکمل نہیں ہوا۔ پھر بادشاہ نے اپنے وزیر کو بلایا اور کہا کہ سنا ہے بندرگاہ پر کوئی جہاز کھڑا ہے۔ وزیر نے فرفر بتانا شروع کیا ’’جی عالی جاہ، فلاں ملک سے جہاز آیا ہے، اس کے عملے کی تعداد اتنی ہے، کپتان کا نام یہ ہے، اتنے مسافر سوار ہیں، ان کی تفصیل یہ ہے، جہاز میں اِس طرح کا سامان لدا ہوا ہے، یہ جہاز ہماری بندرگاہ پر ایک ہفتے ٹھیر کر فلاں ملک کو جائے گا اور اتنے دن بعد پھر ہماری بندرگاہ پر واپس آئے گا، لہٰذا اگر ہم جہازوں کے لنگرانداز ہونے پر ٹیکس لگادیں تو ہمیں سالانہ اتنی آمدنی ہوسکتی ہے۔ بادشاہ نے وزیر کے جواب کے بعد نائی کی طرف دیکھا تو نائی نے خجالت بھرے لہجے میں پوچھا کہ حضورآئندہ حجامت بنانے کب حاضر ہوں۔
نائی کی طرح پی ٹی آئی نے بھی پاکستان کو سر پر اٹھا لیا: پاکستان کو لوٹا جارہا ہے، پاکستان کو برباد کیا جارہا ہے، پیٹرول پر ٹیکس لگا کر حکمران اپنی جیبیں بھر رہے ہیں، دوستوں، رشتے داروں کو نوازا جارہا ہے۔ جس طرح نائی کو بادشاہ سلامت نے وزیر کا کام دے دیا تھا بالکل اسی طرح پاکستان کے حقیقی حکمرانوں نے پی ٹی آئی کے لیے اقتدار کا راستہ ہموار کردیا۔ اور یہ بھی نائی کی طرح ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ وعدہ کیا تھا کہ ایک کروڑ ملازمتیں دیں گے، پچاس لاکھ گھر بنائیں گے، کاروبار آسان کریں گے، لوٹا ہوا پیسا واپس لائیں گے، پیٹرول سستا کریں گے، مدینے جیسی ریاست بنائیں گے، ڈالر کو اُس کی اوقات پر لے آئیں گے۔ الیکشن کی حد تک یہ نعرے اور بڑبولاپن برداشت تھا، کیوں کہ انتخابی فضا یا لہر سہانے خواب، رومانس اور نسیم حجازی کے ناول کے مکالمے بول کر ہی بنائی جاسکتی ہے۔ عوام تو حکومت بننے کے ایک ماہ بعد سے ہی رومانس سے باہر آگئے ہیں، جزبز کی کیفیت میں مبتلا ہوگئے ہیں، لیکن پی ٹی آئی اب بھی اُسی کیفیت میں مبتلا ہے۔ جناب عمران خان ٹی وی پر عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتی دیکھ کر اپنی زوجہ محترمہ سے کہتے ہیں: دیکھو کتنا ظلم ہورہا ہے، تو ان کی بیگم صاحبہ بتاتی ہیں کہ آپ پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔
اب ہو کیا رہا ہے… جناب وسیم اختر جو گزشتہ تیس برس سے کراچی کی زمینوں پر قبصہ کررہے تھے، تاجروں سے بھتہ وصول کررہے تھے، بلاجواز لوگوں کو قتل کررہے تھے، وہ اچانک کراچی کے نجات دہندہ، مسیحا بن کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ وہ شہر میں موجود دکانوں کو اس طرح گرا رہے ہیں جیسے یہ اُن کے دشمنوں نے بنائی تھیں۔ وسیم اختر کی بے غیرتی کو یہ جملہ واضح نہیں کرسکتا لیکن شرفاء کی زبان میں ابھی کوئی ایسی ترکیب ایجاد نہیں ہوئی ہے جو وسیم اختر کے کردار کو واضح کرسکے۔ اگر اس توڑپھوڑ کے پیچھے کوئی عظیم مقصد چھپا ہوا ہے تو وہ بتادیں، آپ تو عوام کے ووٹ سے منتخب ہوئے ہیں اور جمہوری لوگ ہیں، عوام کا اتنا تو حق ہے کہ وہ جان سکیں کہ اس خرابی میں کون سا عظیم مقصد چھپا ہوا ہے۔ سردست تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں ’’کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے‘‘۔
روزگار جانے کب ملے گا لیکن ایمپریس مارکیٹ، لائٹ ہائوس، چڑیا گھر اور کورنگی میں دکانوں کو مسمار کرکے سیکڑوں کو بے روزگار کردیا گیا۔ کوئی یہ نہیں پوچھ رہا کہ یہ دکانیں بنیں کیسے، کس کی حکمرانی میں بنیں، کس نے ان سے پیسے وصول کیے، اُس وقت پولیس، کے ڈی اے، کے ایم سی، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کہاں مرے ہوئے تھے؟ کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔
گزشتہ دنوں میرا ایک ایسی جگہ سے گزر ہوا جہاں الطاف حسین بھگوان کی طرح سے پوجے جاتے تھے، آج ان گلیوں میں الطاف حسین کو گالیاں دینے والے مصطفی کمال، انیس قائم خانی کی بڑی بڑی تصاویر لگی ہوئی ہیں۔ پھر خواجہ آصف یاد آئے۔
مفادات کا ٹکرائو(Conflict of interest) کی تکرار کرنے والوں نے اپنے پہلے ہی بڑے کام کا ٹھیکہ وزیراعظم کے مشیر کے بیٹے کی کمپنی کو دے دیا، اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے دعوے دار فیصل واڈا سطان راہی کی طرح گنڈاسا لے کر کھڑے ہوگئے کہ میں کسی صورت ٹھیکہ کسی اور کو نہیں دوں گا۔ لوگ کہتے ہیں فیصل واڈا کا ڈیم کا ٹھیکہ لینے والی کمپنی ڈیسکون سے ساجھا ہے، دروغ برگردنِ راوی، لیکن خواجہ آصف کی پھر یاد آئی۔
ویسے تو منی ٹریل بکواس کے سوا کچھ نہیں، کوئی آپ کو سرِراہ روک لے اور پوچھے: آپ کے ہاتھ میں جو موبائل فون ہے کہاں سے خریدا، اس کی رسید دکھائیں، اسے خریدنے کے پیسے کہاں سے آئے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسے سوالات ننانوے فیصد لوگوں کو چکرا کر رکھ دیں گے اور کوئی بھی درست معلومات نہیں دے سکے گا۔ لہٰذا تاجروں سے یہ پوچھنا کہ پیسا کہاں سے آیا؟ کیسے آیا؟ اس کا حساب دیں… تو ایسا کرنا خوف پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ لیکن پی ٹی آئی کو تو یقیناً اپنی پائی پائی کا حساب دینا چاہیے۔ جناب عمران خان کی بہن علیمہ منی ٹریل پوچھنے پر نوازشریف سے زیادہ آئیں بائیں شائیں کررہی ہیں، پھر خواجہ آصف کا شکریہ۔
اسی لیے میرا خیال ہے کہ منافقت، ریاکاری، بڑبولاپن ہماری قومی عادت بن چکی ہے اور پی ٹی آئی کو ان خصائل میں کمال حاصل ہے۔

حصہ