علیمہ خالہ اور بنی گالہ

828

نون۔الف
اس ہفتے لکھنے کو تو بہت کچھ ہے، مثلاً پاکستان کے متنازع اور جانب دارانہ فیصلوں کے ماہر چیف جسٹس ثاقب نثار کی ملازمت کا آخری دن، حمزہ شہباز کی بیماری اور ملک سے باہر جانے کی استدعا، عسکری اداروں کو عسکری زمینوں پر سے اپنی تجارتی سرگرمیاں لپیٹنے کا حکم نامہ، بنی گالہ کی تجاوزات کو ریگولرائز کروانے کے احکامات، وغیرہ وغیرہ… لیکن اصل مسئلہ ہے کالم کے لیے ایک پھڑکتے موضوع کا انتخاب… اس الجھن سے نمٹنے کا طریقہ یہ نکالا کہ علیمہ خالہ سے بات شروع کی جائے اور پھر علیمہ خالہ پر ہی چھوڑ دیا جائے کہ وہ اس بات کو لے کر کہاں سے کہاں جاتی ہیں۔ ویسے بھی علیمہ خالہ کی داستانِ رنج و غم، اور حوصلے و ہمت سے حالات کا تن تنہا مقابلہ کرتی علیمہ خالہ! ان کی یہ کہانی اخبارات و میڈیا کی بدولت جب مجھ ناچیز تک پہنچی تو حقیققت یہ ہے کہ بے اختیار میری آنکھیں بھیگ گئیں۔
ان کی داستان میں کیا کچھ نہیں ہے؟ ایک اکیلی تنہا عورت ذات اور اس پر خاندان کی کل متروکہ جائداد میں سے صرف ایک ’’سلائی مشین‘‘!
اور پھر اسی جذباتی موڑ سے علیمہ خالہ کی دردناک مگر حوصلہ افزا کہانی کا آغاز ہوتا ہے، جس میں سبق لینے والوں اور عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے بہت کچھ موجود ہے۔جب سپریم کورٹ نے خالہ سے پوچھا کہ ’’آپ نے اتنی دولت کہاں سے حاصل کی؟‘‘ بس یہیں سے وہ کہانی شروع ہوتی ہے جس نے مجھے آبدیدہ کردیا۔کہا کہ ’’میرے شوہر نے مجھے اچھے وقتوں میں ایک سلائی مشین لے کر دی تھی، اسی مشین سے دن اور رات ایک کرکے کچھ رقم پس انداز کی، اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس محنت مزدوری کی کمائی میں برکت ڈالی جو بڑھتے بڑھتے اتنی ہوچکی ہے کہ آپ جیسوں کی نگاہ میں آرہی ہے۔‘‘ (ایسا گمان ہوا کہ وہ ’کھٹکنا‘ کہنا چاہ رہی تھیں)
چیف جسٹس (سابق) بھی آبدیدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور جیب سے رومال نکالا، آنسو پونچھے اور گلوگیر آواز میں بولے ’’بی بی! اللہ کی رحمت اور برکت سے کسے انکار ہے؟ آپ کی کہانی سن کر مجھے اپنے آپ پر شرمندگی ہورہی ہے کہ میں نے آپ جیسی معتبر اور برگزیدہ خاتون کو کچہری بلوایا… مگر اس ظالم سماج کا کیا کروں جو مجھ سے پوچھے گا کہ تم نے بناء￿ جرمانے کے بغیر کیسے چھوڑ دیا؟ چنانچہ بس اتنا کرو کہ پچیس فیصد رقم (کچھ کم ہو تو وہ بھی چلے گی) سرکاری خزانے میں جمع کروادو، اور ہاں کچھ مزید ویسی ہی سلائی مشینیں ہمارے وزراء میں تقسیم کردو‘‘۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ’’خدا کی قسم! میں آپ سے اس رقم کا تقاضا نہ کرتا اگر آئی-ایم- ایف والے ہمیں پیسے دینے میں اتنا نہ رلا رہے ہوتے۔‘‘
یارو! یہ ہے نئے پاکستان میں علیمہ خالہ کی کہانی۔ پرانے پاکستان کی ساری کہانیاں بوسیدہ و فرسودہ ہوچکیں، خالہ خیرن، ماسی مصیبتے، برکتاں بی بی کو اب کوئی نہیں جانتا… جب نیا پاکستان ہے تو کہانی بھی نئی ہونی چاہیے۔
اللہ غارت کرے موئی ایک دو سیٹوں والی اپوزیشن اور جدی پشتی لوہار خاندان کو جس کی آنکھوں میں یہ ’’حلال کمائی‘‘ کھٹک رہی ہے۔ اس ملک میں حلال ذرائع سے پیسہ کمانا واقعی کتنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ (یہ جملے میرے نہیں، خالہ علیمہ کے وکیل کے ہیں جو عدالت سے باہر نکلتے ہوئے پریس کے نمائندوں سے کہے گئے)
یہ ہے عمرانی حکومت کے کارناموں میں سے ایک کارنامے کی ہلکی سی جھلک۔ پوری فلم میں اس طرح کے کئی دلچسپ موڑ اور ڈرامیٹک سین آئیں گے کہ آپ کو اپنے جذبات پر قابو رکھنا مشکل ہوجائے گا۔
دو سو ارب روپے واپس لانے کے وعدے اور تقریروں کے کلپ ان کو دکھائو تو برا مان جاتے ہیں اور پانچ لاکھ نوکریوں کی بات پر آگ بگولہ، لاکھوں مکانات کی بات تو جیسے انہوں نے کی ہی نہیں، اور پیٹرول کی قیمت کم کرنے کا وعدہ تو جیسے جماعت اسلامی نے کیا تھا! مدینہ جیسی ریاست میں ائیرپورٹ پر شراب کی دکان کا لائسنس بھی شاید کسی اور نے ہی دیا ہوگا، چرس اور کپی محدود مقدار میں قابلِ دست اندازیِ پولیس جرم نہیں، یہ بھی کسی اور ہی کا حکم ہے۔ بشریٰ بی بی کے پارسا شوہر کے دورِ حکومت میں ایسا کہاں ہوسکتا ہے؟
اب آتے ہیں اس سرکاری سرکاری بھونپو یعنی وزیر اطلاعات کی جانب، کہ جن کے آئے دن کے بھنڈ اور لطائف سن سن کر عوام ’’ملا نصیرالدین‘‘ کو بھول چکے ہیں۔ جہلم کے بااثر سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے، لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس چودھری افتخار حسین کے بھتیجے فواد چودھری بھونپنے اور بھونکنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اگرچہ ماضی میں بھی حکومتوں کے سرکاری بھونپو ہوتے تھے مگر بھونپوئوں میں جو مقام فواد چودھری کو حاصل ہے اس کی معراج تک تو کوئی بھی نہیں پہنچا۔ اگرچہ مولانا کوثر نیازی بھی تھے جو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے سرکاری بھونپو تھے، حسین حقانی اپنے دونوں ادوار میں بالترتیب محترمہ بے نظیر اور نوازشریف کے بھونپو رہے (آج کل موصوف امریکا کے بھونپو ہیں، اپنے منہ کی کھا رہے ہیں)۔
موجودہ سرکاری بھونپو فواد چودھری کو سابق پاکستانی صدر پرویزمشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ نے جنوری 2012ء میں پارٹی کا ترجمان مقرر کیا۔ تین ماہ کی ابتدائی پرواز کے بعد یہ پنچھی اپریل 2012ء میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خصوصی فرمان پر معاون خصوصی برائے سیاسی معاملات لگایا گیا۔ کچھ دن کی غٹرغوں کے بعد ترقی پاکر وزیر بن بیٹھے۔ جولائی 2012 ء میں پیپلز پارٹی کے وزیراعظم راجا پرویزاشرف کے خصوصی معاون برائے سیاسی معاملات مقرر ہوئے۔ پرویزمشرف اور پیپلز پارٹی کے بعد نومبر 2016ء میں انہیں پاکستان تحریک انصاف کا ترجمان مقرر کیا گیا۔ جگہ جگہ منہ مارنے کی وجہ سے اب ان کے بھونکنے میں خاصا نکھار آ چکا ہے۔
انہی کا ماسٹر مائنڈ دماغ تھا جس نے ہوائی جہاز کے پیٹرول اور رکشہ کے فیول کا گوگل موازنہ کرکے گنیز بک میں اپنا نام درج کروایا تھا، اور یہی وہ سپر ہیومن جینئس مائنڈ تھا جس نے قادیانیوں کو مسلم قادیانی اقلیت کہہ کر کافر کا نرم نعم البدل عطا کیا۔
نئے پاکستان کے فا تح سپہ سا لار عمران خان کے لشکر کے ایک اور نامی گرامی سپر جینئس وزیر جناب اسد عمر ہیں کہ جن کی معیشت دانی کی داد پوری دنیا دے رہی ہے ، ہماری کیا مجال کہ ان پر کوئی تبصرہ کریں – بس اتنا کہہ سکتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ پڑھ کر کہ ’’ متحدہ عرب امارات کی مالی معاونت تا حال موصول نہیں ہوئی اور زر مبادلہ کے مجموعی ذخائر 13 ارب 48 کروڑ 92 لاکھ ڈالر کی کمترین سطح پر آچکے ہیں‘‘ان کے ذہن میں بھی یہ خیال آیا تھا کہ اگر ڈالر کی قدر بڑھا دی جائے گی تو شاید آئی -ایم -ایف والے ہم پر ترس کھا کر ہمیں’’ چونگے‘‘ میں کچھ رقم دے دیں گے۔
ان کا دعویٰ تھا کہ ’’ میرے آتے ہی پیٹرول اور گیس کی قیمت آدھی ہوجائے گی‘‘، کیونکہ ان کے مطابق نواز شریف پیٹرول کی قیمت میں سے آدھی رقم اپنے لیے وصول کرتا ہے۔اردو زبان کے کچھ الفاظ ایسے ہیں جو اپنی کیفیات کی وجہ سے بلاوجہ ہی گالیوں (مغلظات)کے زمرے میں چلے جاتے ہیں جیسے کہ ’’اُلّو کا پٹھا‘‘! حالانکہ اس میں گالی جیسی کوئی بات نہیں۔
اُلّو کے پٹھے پر یاد آیا کہ ’’اُلّو کے پٹھے‘‘ بھی ایسی بے پر کی نہیں چھوڑتے ہوں گے جیسی عمران خان اور ان کے وزراء چھوڑ رہے ہیں۔
عمران خان کو چنے کے جھاڑ پر چڑھا کر اقتدار کے راج سنگھاسن پر بٹھانے والے حسن نثار اور معروف کالم نگار ہارون الرشید بھی روزانہ اپنے کان پکڑ کر اور کہنیاں جوڑ کر عوام سے معافی مانگ رہے ہیں کہ ہمیں معاف کردو کہ ہم نے ہی عوام کو مشورہ دیا تھا کہ ان ’’گائودیوں‘‘ کو منتخب کرو۔ (جملے میں لفظ گائودی سائلنٹ ہے اور مفہوم جاننے کے لیے فیروزالغات دیکھیں)
اور تو اور، اس حکومت کے سرپرستوں میں سپریم کورٹ براہِ راست شامل رہی کہ جس نے پوری کی پوری اپوزیشن کو کھڈے لائن لگا کر صرف اور صرف عمران خان کے لیے راستہ ہموار کیا۔ ورنہ جو الزامات علیمہ خان، عمران خان کی پہلی اے ٹی ایم مشین جہانگیر ترین اور دوسری مشین علیم خان اور حلیم عادل شیخ، فیصل واڈا اور دیگر الیکٹ ایبلز پر ہیں، کم و بیش ان ہی الزامات کا سامنا نون لیگ کو بھی تھا، مگر دعائیں دیں سستے اور فوری انصاف کے چیمپئن سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو کہ جنھوں نے اس طرح کے درجن بھر مقدمات میں صرف اور صرف اپوزیشن کے خلاف ہی فیصلہ دیا اور عمرانی حکومت کے الیکٹ ایبلز کے گلے میں جپھیاں ڈال کر عدالت سے باہر نکل آئے۔بنی گالہ کی زمین کیونکہ عمران خان کے محل کی وجہ سے مشہور ہے، اس لیے وزیراعظم کی زمین کو او نے پونے ریگولرائز کروادو اور پورے پاکستان میں غریبوں کے مکانات کو تجاوزات کہہ کر راتوں رات مسمار کردو۔ لعنت ہے ایسے نئے پاکستان اور نئے پاکستان کے معماروں پر!
ادھر کراچی میں اپنے اتحادی میئر وسیم اختر کی صورت میں ’’ہتھوڑا گروپ‘‘ کے سر پر ہاتھ رکھا گیا کہ جس نے آدھے سے زیادہ کراچی کو کھنڈر میں تبدیل کردیا ہے… یہ ہتھوڑا گروپ تیس سال سے کراچی کی گلیوں اور محلوں پر راج کرتا چلا آیا ہے اور اب عمران خان کے ساتھ لنگوٹ باندھ کر میدان میں نکل آیا ہے۔ اس نئے ’’را کھی لنگوٹی بندھن‘‘ کا نعرہ ہے کہ ’’بنی گالہ کو چھوڑو … کراچی کو توڑو‘‘!
میرے پڑھنے والو! میں تو خون تھوک ہی رہا ہوں، آپ بھی تھوکیں!!!
شاعر نے کہا ہے

کچھ گلے تو کم ہوں گے، ساتھ ساتھ رونے سے

پھر ملیں گے گر زندگی رہی۔

حصہ