….حیاکاکلچرعام کرنا

1550

قدسیہ ملک
ڈیلی پاکستان کی ایک خبر کے مطابق اس سال بھی پاکستان بھر میں ویلنٹائن ڈے کی مخالفت میں یوم حیا منایا جائے گا ویلنٹائن ڈے رومیوں کا تہوار ہے جس کی ابتدا سترہ سو سال قبل ہوئی۔ اہل یورپ روم میں 14 فروری تیونو دیوی کی وجہ سے مقدس مانا جاتا ہے اس دیوی کو عورت اور شادی بیاہ کی دیوی سمجھا جاتا ہے ویلنٹائن نامی ایک پادری نے خفیہ طریقے سے شادیوں کا اہتمام کیا جب شہنشاہ کو اس کا علم ہوا تو اس نے ویلنٹائن کو قید کردیا اور آج اسی نسبت سے ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے ایک دوسری روایت کے مطابق ویلنٹائن ڈے کا آغازز رومن سینٹ ویلنٹائن کی مناسبت سے ہوا جسے محبت کا دیوتا بھی کہتے ہیں اسے مذہب تبدیل نہ کرنے کے جرم میں قید میں رکھا گیا پھر سولی پر چڑھا دیا گیا قید کے دوران اسے جیلر کی بیٹی کے نام ایک الوداعی محبت نامہ چھوڑا جس پر دستخط سے پہلے لکھا تھا تمہارا ویلنٹائن اسی کی یاد میں لوگوں نے14 فروری کو یوم تجدید محبت منانا شروع کردیا۔
یوم حیا منانے کی روایت چونکہ زیادہ پرانی نہیں لیکن پاکستان میں بہت اہمیت اختیار کر چکی ہے اس روایت کو شروع کرنے کا سہرا اسلامی جمعیت طلبہ کے سر ہے پاکستان میں پہلی مرتبہ یوم حیا منانے کا فیصلہ 9 فروری 2009 کو پنجاب یونیورسٹی میں کیا گیا ویلنٹائن کے مقابلے میں اس روز کو یوم حیا کا نام اسلامی جمعیت طلبہ جامعہ پنجاب کے ناظم نے دیا انہوں نے اس روز میڈیا کو بتایا کہ پنجاب یونیورسٹی میں 14 فروری کو جامعہ پنجاب میں ویلنٹائن کی بجائے یوم حیا منایا جائے گا۔ پاکستان میں 2012 سے ویلنٹائن ڈے کے روزہ یوم حیا منایا جاتا ہے اب اس دن کو منانے میں تمام مذہبی اور اسلام سے محبت کرنے والے افراد شامل ہوچکے ہیں اب یہ روایت بنتی جا رہی ہے یوم حیا منانے والوں کی بڑی کامیابی ہائیکورٹ کے فیصلے سے بھی ملی ہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے سرکاری سطح پر ویلنٹائن ڈے منانے اور میڈیا پر اس کی تشکیل کرنے سے روک دیا ہے اسلام آباد کی انتظامیہ کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ عوامی مقامات پر ویلنٹائن ڈے نہ منانے دے عدالت نے اپنے حکم پر وزیر اطلاعات اور پاکستانی الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے حکام سے کہا ہے کہ میڈیا کو ایسے پروگرام کی کوریج سے بھی روکا جائے۔
حیادراصل ہےکیا؟میرے اور آپکے ذہن میں حیا سے متعلق بہت سی تعریفیں ہونگی لیکن بہترین تعریف امام مودودی کی کتاب میں موجود ہے ۔جس میں کہا گیا ہے کہ”اسلام کی اصطلاح میں حیا سے مراد وہ شرم ہے جو کسی امر منکر کی جانب مائل ہونے والا انسان خود اپنی فطرت کے سامنے اور .خدا کے سامنے محسوس کرتا ہے (پردہ،ابوالاعلی مودودی)۔ایک اور جگہ امام مودودی اپنی معرکۃ الآرا تصنیف پردہ میں لکھتے ہیں یہ کہا جاتا ہے کہ ناجائز صنفی تعلقات کو روکنے کے لیے عورتوں اورمردوں کے درمیان حجابات حائل کرنا، اور معاشرت میں اُن کے آزادانہ اختلاط (میل جول) پر پابندیاں عائد کرنا دراصل اُن کے اخلاق اور اُن کی سیرت پر حملہ ہے۔اس سے یہ پایا جاتا ہے کہ گویا تمام افراد کو بدچلن فرض کر لیا گیا ہے، اور یہ کہ ایسی پابندیاں لگانے والوں کو نہ اپنی عورتوں پر اعتماد ہے نہ مردوں پر۔ بات بڑی معقول ہے مگر اسی طرز استدلال کو ذرا آگے بڑھائیے۔ہر تالا جو کسی دروازے پر لگایا جاتا ہے گویا اس امر کا اعلان ہے کہ اس کے مالک نے تمام دنیا کو چور فرض کر لیا ہے۔ ہر پولیس مین کا وجود اس پر شاہد ہے کہ حکومت اپنی تمام رعایا کو بدمعاش سمجھتی ہے۔ ہر لین دین میں جو دستاویز لکھوائی جاتی ہے، وہ اس امر پر دلیل ہے کہ ایک فریق نے دوسرے فریق کو خائن قرار دیا ہے۔اس طرز استدلال کے لحاظ سے تو آپ ہر لمحے چور، بدمعاش، خائن اور مشتبہ چال چلن کے آدمی قرار دیے جاتے ہیں، مگر آپ کی عزتِ نفس کو ذرا سی بھی ٹھیس نہیں لگتی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ صرف اسی ایک معاملہ میں آپ کے احساسات اتنے نازک ہو گئے ہیں؟
قرآن پاک سے یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ حیا مرد اور عورت دونوں کا یکساں اخلاقی وصف ہے۔ یہ وصف ہمیں پوری آب و تاب کے ساتھ قصۂ آدم و حوا میں نظر آتا ہے۔ جب دونوں میاں بیوی نے ابلیس کے دھوکے میں آکر شجرِممنوعہ کا پھل کھالیا تو ان کا جنت کا لباس اُتروا لیا گیا تھا۔ دونوں کو اپنی برہنگی کا احساس ہوا اور اس حالت میں انہیں اور کچھ نہ سُوجھا تو انہوں نے فوراً جنت کے درختوں کے پتوں سے اپنی شرم گاہیں ڈھانپنے کی کوشش کی۔ ’’جب انہوں نے اس درخت کا مزا چکھا تو اُن کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے‘‘۔
(الاعراف:۲۲)
حیا سے متعلق احادیث نبوی ﷺاور ارشاد ات ربانی بھی ہمیں معلوم ہونےچاہئیں۔قرآن حکیم کی سورہ نساء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے رسول (صلی اللہ علیہ و سلم ) مومن خواتین سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنے بناؤ سنگار کو نامحرم پر ظاہر نہ کریں۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشادگرامی ہے کہ ’’ ہر دین کاکوئی نہ کوئی امتیازی وصف ہے اوردین اسلام کا امتیازی وصف حیاء ہے۔‘‘ ایک دوسری حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ’’ حیاء اور ایمان دونوں ساتھ ساتھ ہوتے ہیں ، ان میں سے اگر ایک بھی اٹھ جائے تو دوسرا خود بخوداٹھ جاتا ہے‘‘ یعنی کہ ایمان و حیاء لازم و ملزوم ہیں۔ حجاب کا حکم قرآن حکیم کی سورۃ نور کی آیت نمبر 31میں بھی نازل ہواہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ اے نبی(صلی اللہ علیہ و سلم ) مومن عورتوں سے کہہ دیں کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے کہ جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی چادروں کے آنچل ڈالے رکھیں۔ ‘‘حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کے بازار سے گزر رہے تھے اور ایک شخص اپنے بھائی کو حیا کے بارے میں وعظ کر رہا تھا۔ حضور نے فرمایا دعہ فان الحیاء من الایمان حضور نے فرمایا چھوڑ دے اس کو، وعظ کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ حیا تو ویسے ہی ایمان سے ہے۔ جب ایمان ہوگا تو حیا خود بخود ہوگی۔ ہمارے رسول اللہﷺ کے بارے میں حضرت ابوسعید الخدریؓ سے روایت ہے: ’’رسول اللہﷺ تخلیہ میں بیٹھی ایک کنواری دوشیزہ سے بھی کہیں بڑھ کر صاحبِ حیا تھے۔ حضورؐ کو جب کوئی چیز ناگوار گزرتی تو ہم آپؐ کے چہرے سے بھانپ لیا کرتے تھے‘‘۔ (بخاری و مسلم)۔ نبیﷺ نے فرمایا: ’’ایمان کی ساٹھ یا ستر سے کچھ اوپر شاخیں یا پہلو ہیں۔ بلند ترین شاخ تو یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور عبادت کا مستحق نہیں اور اس کا ادنیٰ شعبہ (خدمتِ انسانی سے تعلق رکھنے والا ایک چھوٹا سا کام) راستے سے کوئی ایسی چیز ہٹا دینا ہے، جس سے گزرنے والوں کو تکلیف پہنچنے کا احتمال ہو اور یاد رہے کہ حیا بھی ایمان کا ایک پہلو ہے‘‘۔
بلاشبہ حیاء وہ عمدہ اخلاق ہے جو انسان کو ہر برائی سے باز رکھتا ہے ارتکاب معاصی میں حائل ہو کر آدمی کو گناہ سے بچاتا ہے ۔ اسلام کا عملاً دارو مدار حیاء پر ہے کیونکہ وہی ایک ایسا قانون شرعی ہے جو تمام افعال کو منظم اور مرتب کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء کرام نے حیاء دار اخلاق پر زور دیا ہے ۔ تمام عقل وفطرت مستقیمہ نے بھی اس کا اقرار کیا ہے اور یہ وہ امر ہے جس میں جن وانس کے تمام شیاطین مل کر بھی تبدیل نہیں کرسکے ۔ جس میں حیاء ہوتی ہے اس میں نیکی کے تمام اسباب موجود ہوتے ہیں اور جس شخص میں حیاء ہی نہ رہے اس کے نیکی کرنے کے تمام اسباب معدوم ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ کیونکہ حیاء انسان اور گناہ کے درمیان حائل ہونے والی چیز ہے ۔ اگر حیاء قوی ہے تو گناہ کی قوت ماند پڑ جائے گی ۔ اور اگر حیاء کمزور پڑ جائے تو گناہ کی قوت غالب آجاتی ہے۔ حیا ایمان سے جُڑ کر حلال و حرام کی تمیز پیدا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن کاموں سے منع کیا ہے، اُن کے کرنے سے روکتی اور جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا، ان کو بجا لانے کی تحریک دیتی ہے۔ جب یہ شعور کی روشنی بنتی ہے تو اس سے اللہ کی وحدانیت کا احساس مضبوط ہوتا ہے۔ اِیْمَان بِاللّٰہ کو تقویت ملتی ہے، تَعَلُق بِاللّٰہ میں مضبوطی آتی ہے اور باطن سے حُب اللہ کی شعاعیں پھوٹتی ہیں، توَکَّل عَلَی اللّٰہ کی خاصیت اجاگر ہوتی ہے۔ (تزکیۂ نفس میں حیا کا اثر)
زندگی کے جس شعبے سے بھی حیا رخصت ہو جائے وہاں بے اصولی اور بے ضمیری ،بےشرمی و بےحیائی غالب آجاتی ہے۔ جھوٹ اور مکر و فریب کو فروغ ملتا ہے۔ خودغرضی اور نفس پرستی و مادہ پرستی کا چلن عام ہو جاتا ہے۔ حرص و ہوس غالب آتی ہے۔ دل و دماغ پر خدا پرستی کے بجائے مادہ پرستی چھا جاتی ہے۔
(جاری ہے)

وضاحت

پچھلے مضمون سے متعلق چند ضروری باتیں میں اپنے قاری سے کرنا چاہتی ہوں، اس لیے کہ یہ بات میرے فہم میں لائی گئی کہ مضمون کافی مشکل الفاظ پر مشتمل تھا اور قاری نہیں سمجھ پایا۔ جہاں تک مضمون کے مشکل ہونے کا سوال ہے تو اس ضمن میں ایک بات کہنا چاہوں گی کہ میں نے مضمون کو حتی الامکان آسان فہم بنانے کی کوشش کی، لیکن بین الاقوامی سائنس دانوں،لکھاریوں اور تجزیہ نگاروں کے اقوال کا اردو ترجمہ شاید انہی الفاظ میں ممکن تھا۔ میں سمجھتی ہوں کہ جسارت کا قاری اتنے الفاظ کا ذخیرہ رکھتا ہی ہوگا۔اگر نہیں تو اضافہ کا خواہش مند ہوگا۔۔ میں نے مضمون کو عام فہم بنانے کے لئے کوشش کی اور بس یہی سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم اپنے گھسےپٹے انداز سے الگ ہوکر کس طریقے سے ایک جدت پسند مضمون لکھ سکتے ہیں ہم اپنے لکھنے والے انداز کو کس طرح ایک نیا رنگ دے سکتے ہیں ہم اپنے بچوں میں اپنے رشتے داروں میں اپنے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے دوستوں میں اور خود اپنے اندر کس طرح تخلیقی صلاحیت پیدا کرسکتے ہیں کیونکہ آجکل تمام دنیا میں ڈگریوں سے زیادہ تخلیقی اذہان اورسوچ کی اہمیت بڑھ گئی ہے. یہ مضمون اسی پیرائےمیں لکھا گیا تاکہ جسارت کا قاری نئے علوم اور نئے فنون سے روشناس ہو کر پہلے سے بہتر انداز میں اپنے خدمات اور سرگرمیاں انجام دے سکے۔

حصہ