شریک مطالعہ

357

نعیم الرحمن
(گزشتہ سے پیوستہ)
پاک سرزمین کو سیراب کرنے سے پہلے دریائے جہلم ہندوستان کی زمین میں بھی زرخیزی بانٹتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ ندی، نالے، درخت، دریا فیض دینے سے پہلے شناخت کا تقاضا نہیں کرتے۔
دریا کے یخ بستہ پانیوں میں مضبوط چپو چلتے ہیں اور ساتھ ساتھ نازک دل مچلتے ہیں۔ وسیع کناروں پر مختصر پیمان باندھے جاتے ہیں اور نئی نئی آبادیوں میں پرانی پرانی یادیں دفن ہوتی چلی جارہی ہیں۔
1971ء کی جنگ میں ہلی کے معرکے میں چودہ دن تک ہندوستانی فوج کا راستہ روکنے والے میجر محمد اکرم شہید کا تعلق بھی جہلم سے ہے۔ دیناج پور میں آسودہ خاک اس بہادر کی یادگار جہلم میں ہے۔
سیالکوٹ کے ذکر میں حسن معراج لکھتے ہیں کہ ’’سیالکوٹ اتنے مشہور لوگوں کا مسکن ہے کہ گمان پڑتا ہے شاید خدا شہر والوں سے بے حد خوش ہے۔ اقبال منزل کے اقبال سے لے کر کالا قادر کے فیض تک، اخبار والے کلدیپ نیر سے رامائن والے نریندر کوہلی تک، پاکستان سے ہندوستان جا بسنے والے راجندر سنگھ بیدی سے پاکستان چھوڑ کر امریکا جا بسنے والے ذوالفقار غوث تک، خوبرو ہیرو وحید مراد سے خوب صورت آدمی راجندرکمار تک، پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان سے تیرہ دن کے وزیراعظم گلزاری لال نندا تک، اور کرکٹ کے ظہیر عباس سے ہاکی کے شہناز شیخ تک، سیالکوٹ دھنوان لوگوں کا شہر ہے۔ اس ساری تعریف کے دوران یکایک ایک شور بلند ہوتا ہے۔ اندھے، گونگے اور بہرے ہجوم کا شور ’’مارو، مارو‘‘ اور’’جانے نہ پائے‘‘ کی آوازیں تھمتی ہیں تو منیب اور مغیث کی کراہ بلند ہوتی ہے۔ شہر کے دو بچے، شہرکے ہی لوگوں کے ہاتھوں زندگی ہارگئے۔‘‘
کس عمدگی سے حسن معراج نے سیالکوٹ کی تعریف اور یہاں گزرنے والا سانحہ چند جملوں میں بیان کیا ہے۔ پوری کتاب میں ایسے بے شمار واقعات اور اَن گنت جملے ہیں جو روح کے تار چھیڑ دیتے ہیں اور کتاب ختم ہونے کا قاری کو افسوس ہوتا ہے۔ محمد حسن معراج کی ایسی مزیدکتابوں کا انتظار رہے گا۔
…٭…
فضل الرحمن قاضی 1935ء میں کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ آبا و اجداد کا تعلق ریاست پٹیالہ سے ہے۔ ان کے والد قاضی فضل الحق 1920ء میںکوئٹہ میں وارد ہوئے اور یہاں ریلوے میں ملازمت اختیار کی، اور مدتِ ملازمت کے اختتام تک اسی سے وابستہ رہے۔ پھر فضل الرحمن کو اسی محکمے میں بھرتی کرا دیا۔ فضل الرحمن نے چوبیس سال ریلوے میں ملازمت کے بعد کانٹا بدل لیا لیکن والد کی رفاقت اور ربع صدی کی ملازمت میں انہیں ریلوے کا نظام بہت قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ انہوں نے ’’روداد ریل کی‘‘ میں دنیا میں ریل کے آغاز، ہندوستان میں اس کی آمد اور فروغ کی پوری تاریخ بیان کردی ہے۔ ان کا اسلوب متاثر کن اور تحریر رواں دواں نثر سے مزین ہے۔
سلمان آصف کتاب کے تعارف میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ قاضی صاحب ایک محقق و مؤرخ ہیں، داستان گو ہیں کہ بگولہ پا سیاح ہیں۔ اور دھویں کے بادل اُڑاتی، فراٹے بھرتی، فلک شگاف چنگھاڑ بُلند کرتی ریل گاڑی بجائے خود اپنے زمانے کی شاہد ہے کہ مشہود۔ تاریخ کے مہا ساگر کی موجوں پر بنتے بگڑتے نقش الفاظ کو کاغذ کی گاگر میں سمیٹنے کے لیے قاضی صاحب کا وسیع مطالعہ، ان کے جیسی من مست لگن اور مگن ہوکر لکھنے کی صلاحیت کے ساتھ ان کی سی قدرتِ اظہار درکار ہے جو اس داستان میں یونانی المیے کا کرب، مرثیے کی تہذیب، غزل کا ایجاز اور ڈرامے کا اعجاز، زیرِلب خندہ افروز واقعہ نگاری کے رنگ بھرے۔ اس داستان کا آپ بیتی پر مبنی باب اپنی تحیر آمیز سادگی اور وارفتگی کا مثالی ملن ہے۔ ریل گاڑی کی اس صنعتی، سماجی اور ذاتی داستان کو پڑھنے کے بعد قاری بے اختیار سوچنے لگتا ہے کہ آیا یہ ایک خواب تھا یا جادو؟ سائنس کا کرشمہ تھا یا آرٹ کا؟ یوں لگتا ہے جیسے اُودی گھٹا کے سائے تلے غنایت کے رس سے بھری کوئی نظم پڑھ لی ہو، دھڑکن کی لَے پر بجتا ہوا کوئی نغمہ سُن لیا ہو۔‘‘
ریلوے کو آغاز میں سخت تمسخر، مخالفت اور نکتہ چینی کا سامنا اور اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے بہت تگ و دو کرنا پڑی۔ مخالفت میں احمقانہ باتیں، کینہ پروری، اندیشے اور تحفظات شامل تھے۔ ایک جرمن ڈاکٹر نے تو یہ دعویٰ بھی کردیا کہ ریل گاڑی کے گزرنے کا منظر دیکھ کر لوگ پاگل ہوجائیں گے۔ ریلوے لائن کے دونوں جانب پردے نہ لگائے گئے تو گائیں کھٹا دودھ دینے لگیں گی۔ ریل گاڑیوں میں ٹوائلٹ کا آغاز کیسے ہوا؟ ایسی بہت سی معلومات کتاب میں درج ہیں جنہیں ایمل نے تصاویر سے مزید دل چسپ اور قابلِ دید بنادیا ہے۔ قلعہ عبداللہ کے بعد پہاڑوں کا سینہ چیر کر ریلوے لائن بچھانا مزدور سے لے کر انجینئرنگ کا کمال ہے۔ چمن کی جانب سے سرنگ کا راستہ نیچائی سے اُونچائی کی طرف جاتا ہے۔ سرنگ کے اس اونچے نیچے راستے کا بالکل ٹھیک مقام پر ایک دوسرے سے مل جانا اور دونوں سمت سے ذرہّ برابر فرق نہ آنا انجینئرنگ کی معراج نہیں تو کیا ہے! یہاں ایک سانحہ بھی پیش آیا۔ سرنگ کا ڈیزائن تیار کرکے اپنی نگرانی میں تیارکرنے والے انگریز انجینئر نے پیشگی تخمینہ لگاکر بتایا تھا کہ سرنگ 16 اپریل 1890ء کو درمیان میں مل جائے گی۔ مگر ایسا نہ ہوا، انجینئر یہ سمجھ کر کہ دونوں جانب سے کھودی جانے والی سرنگ میں فرق آگیا ہے، اتنا دل برداشتہ ہوا کہ اُس نے اسی دن خودکشی کرلی۔ لیکن سرنگ ایک روز بعد درمیان سے ملا دی گئی۔ انجینئر اگر جذباتی نہ ہوتا تو اپنے شاہکار کی تکمیل کا شاہد ہوتا۔
ہندوستان میں عوام کے لیے 34 کلومیٹر لمبی ریلوے لائن کا آغاز1853ء میں ہوا۔ پاکستانی علاقوں میں ریل گاڑی کب اورکس طرح چلی؟ اس کے لیے کن لوگوں کی کاوشیں نمایاں رہیں؟ کہاں کہاں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا؟ یہ سب بہت دل چسپ داستان ہے۔ 13 مئی 1861ء کو کراچی سے کوٹری تک پہلی مسافر گاڑی نے اپنا سفر مکمل کیا۔ 1947ء میں ریلوے کا چالیس فیصد (جو پانچ ہزار میل سے زائد پرمشتمل تھا) پاکستان کے حصے میں آیا۔ روہڑی اور سکھر کے درمیان دریائے سندھ حائل تھا۔ یہاں ریل کے ڈبوں کو چھوٹے بحری جہازوں کے ذریعے دوسرے کنارے پر پہنچایا جاتا تھا۔ کم چوڑائی کے جس مقام پر پُل بنایا جاسکتا تھا، وہاں گہرائی زیادہ تھی اور ستون بنانا ممکن نہ تھا۔ برطانوی انجینئر سر الیگزنڈر نے اس عجوبۂ روزگار پُل کا ڈیزائن لندن میں بیٹھ کر بنایا۔ لندن کی ورکشاپ میں اس کے مختلف حصوں کو بنایا اور جوڑا گیا۔ پھر وہاں سے کھول کر اس تین ہزار تین سو ٹن وزنی دیوہیکل پُل کو سکھر پہنچایا گیا، جہاں اُسے دوبارہ جوڑ کر عظیم الشان پُل کی صورت دی گئی اور 19 مارچ 1989ء کو اس کا افتتاح ہوا۔ پاکستان کے مختلف خطوں میں ریل کا آغاز کیسے ہوا؟ اس کے لیے کن دشواریوں کا سامنا رہا؟ کئی الم ناک سانحے اور دل چسپ واقعات پیش آئے۔ ’روداد ریل کی‘‘ میں ان سب کا تفصیلی ذکر ہے جوکتاب کے اختتام تک قاری کی توجہ اور دل چسپی میں کمی نہیں آنے دیتا۔
2013ء کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ریلوے لائنوں کی لمبائی گیارہ ہزار سات سو پچپن کلومیٹر تھی۔ ان لائنوں پر تیرہ ہزار آٹھ سو اکتالیس پُل اور تین ہزار آٹھ سو پندرہ پھاٹک ہیں جن میں چودہ سو تینتیس پر ہمہ وقت عملہ موجود ہوتا ہے۔ ریلوے لائن کے اطراف سو فٹ تک کی زمین قانوناً ریلو ے کی ملکیت ہوتی ہے۔ گینگ مین اس پر نظر رکھتے ہیں کہ ریلوے کی حدود میں تجاوزات نہ بننے پائیں۔ لیکن آج پاکستان میں ریلوے کی وسیع زمین پر قبضہ ہے۔
غرض فضل الرحمن قاضی کی ’’روداد ریل کی‘‘ ایک انتہائی دل چسپ اور معلومات افزا کتاب ہے جس کا مطالعہ کرنے کی بھرپور سفارش کی جا سکتی ہے۔

غزلیں

نظام امینی

تو ان سے مشکوک ہو نہ اے دل شریکِ صد اعتبار ہو جا
ستم وہ کیا تجھ پہ ڈھا سکیں گے مگر تو ان پر نثار ہو جا
کدھر ہے اے خونِ دل کہ آنکھیں ترس رہی ہیں نمی کو تیری
نکل کے دامن کو لالہ گوں کر نویدِ فصلِ بہار ہو جا
پتا تو دے کچھ مسافروں کو کہ اس طرف کارواں گیا ہے
ہُوا نہ تُو سنگِ میل تو کیا رہِ طلب میں غبار ہو جا
نہ چاک کر اپنے جیب و دامن کہ اس میں رسوائی ہے کسی کی
مزا تو جب ہے کہ تو سنور کر کسی کا فخر و وقار ہو جا
یہ شغلِ دیرینہ چھوڑ ناصح تری نصیحت میں کیا دھرا ہے
غمِ زمانہ سے آشنا ہو جہان کا غم گسار ہو جا
اس ایک مدت کی زندگی کو حیاتِ بے حد کی شکل دے دے
جہاں میں گم کر نہ اپنی ہستی جہان پر آشکار ہو جا
نظام کہتے ہیں حضرتِ دل کہ بے قراری پسند ہوں میں
قرار تجھ کو اگر طلب ہے کسی کے دل کا قرار ہو جا

تیمور حسن

میں نہ اپنوں سے نہ غیروں سے بہت بدظن ہوں
ان دنوں اپنی ہی سوچوں سے بہت بدظن ہوں
اب تو یہ شک بھی گزرتا ہے کہ میں ہوں ہی نہیں
اپنے ہونے کے حوالوں سے بہت بدظن ہوں
یہ روایت کے امیں اور یہ جدت کے نقیب
سچ بتاؤں تو میں دونوں سے بہت بدظن ہوں
اِن کے لہجے میں تصنع ہے ، رویے میں نفاق
میں ترے شہر کے لوگوں سے بہت بدظن ہوں
روکتے ہیں جو مری دھوپ، مری نشو و نما
ایسے بے فیض درختوں سے بہت بدظن ہوں
زندگی تجھ سے محبت تو مجھے اب بھی ہے
ہاں مگر تیرے تقاضوں سے بہت بدظن ہوں
یہ جگاتے نہیں تعبیر کی خواہش تیمور
خواب گر میں ترے خوابوں سے بہت بدظن ہوں

عبدالرحمن مومن

سب مجھے عارضی سا لگتا ہے
تو مگر زندگی سا لگتا ہے
آئنہ ہے مگر نہ جانے کیوں
آدمی آدمی سا لگتا ہے
خود کو کتنا بھلا دیا میں نے
تو بھی اب اجنبی سا لگتا ہے
عشق میں زندگی بسر کرنا
عقل کو خود کشی سا لگتا ہے
جو ترے ہجر میں ملا مومن
بس وہی غم خوشی سا لگتا ہے

حصہ