محبتوں کا قرض

324

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
یاسین آباد سے گزرتے ہوئے اس نے اچانک ہی ٹیکسی والے کو رکنے کا اشارہ کیا۔ ٹیکسی والے نے چونک کر اسے دیکھا، کیوں کہ جاوید نے ٹیکسی میں بیٹھتے ہوئے اسے ائر پورٹ جانے کے لیے کہا تھا، اور ٹیکسی والا اسے موٹی اسامی سمجھ کر منہ مانگے دام لینے کا تہیہ کرچکا تھا۔ ٹیکسی کے رکتے ہی جاوید نے ٹیکسی والے سے کہا ’’بس دو منٹ ٹھیرو، میں آتا ہوں، پھر ائرپورٹ ہی چلیں گے۔‘‘
ٹیکسی والے نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے ٹیکسی ایک طرف کھڑی کردی۔ جاوید نے دروازہ کھول کر پچھلی سیٹ سے اپنا بریف کیس اٹھایا جس میں اس کی ضروری دستاویزات، امریکا کا پاسپورٹ اور اس کی پنشن کی رقم تھی جو تقریباً 35 لاکھ پاکستانی روپے کی شکل میں تھی، اور اس کا ارادہ ائرپورٹ پر ڈالر میں تبدیل کرانے کا تھا۔
اس نے بریف کیس مضبوطی سے پکڑا اور سڑک کے کنارے بنی ایک پرانے سے اسکول کی عمارت میں گھس گیا۔ اسکول کے صدر دروازے پر بیٹھا ہوا چوکیدار اسے دیکھ کر چونک کر کھڑا ہوگیا۔ جاوید بہت تیزی سے آگے بڑھا۔ چوکیدار کو اس کی حرکات کچھ مشکوک سی لگیں جس سے وہ پریشان ہوگیا۔ سیڑھیوں پر ہیڈ ماسٹر صاحب نظر آگئے جو اسکول کا رائونڈ لے کر آرہے تھے۔ چوکیدار کو پریشان دیکھ کر بولے ’’کیا ہوا شیر خان؟‘‘
’’سر یہ صاحب بغیر کچھ کہے سنے گھسے چلے آرہے ہیں، میں نے پوچھا بھی کس سے ملنا ہے؟ مگر بتاتے بھی نہیں ہیں۔‘‘
ہیڈ ماسٹر صاحب نے جاوید کو دیکھا۔ جاوید نے جھکتے ہوئے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر فوجی انداز سے انہیں سیلوٹ مارا ’’سر میں جاوید صلاح الدین ہوں۔‘‘ ہیڈ ماسٹر کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی، خندہ پیشانی سے بولے ’’فرمایئے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘
جاوید دھیرے سے بولا ’’سر آپ کی اگر اجازت ہو تو میں اپنا اسکول چند لمحے اچھی طرح دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’اوہ…‘‘ ہیڈ ماسٹر کی مسکراہٹ اور گہری ہوگئی ’’تو آپ یہاں کے اولد اسٹوڈنٹ ہیں۔‘‘
’’جی سر… میں یہاں پندرہ سال کے بعد آیا ہوں۔‘‘ جاوید کے لہجے اور نظروں میں احترام تھا۔ ’’میں نے تقریباً تیس سال پہلے یہاں سے میٹرک کیا تھا۔‘‘
’’کہاں سے آئے ہیں آپ…؟‘‘ ہیڈ ماسٹر صاحب کو یہ اسمارٹ سا انسان بہت اچھا لگا۔ صاف ستھرے سوٹ میں ملبوس، چہرے مہرے سے ظاہر ہورہا تھا کہ کسی اچھے خاندان کا فرد ہے جس نے اسے بڑوں کا احترام و ادب سکھایا ہے اور جو تعلیم کے زیور سے پوری طرح آراستہ ہے۔ اسی لیے معلم کا ادب کرنا جانتا ہے۔
’’سر میں امریکا میں ایک ائرلائن میں ہوں، تقریباً پندرہ سال بعد میرا پاکستان آنا ہوا ہے۔ یہاں سے ریٹائرمنٹ لے کر امریکا چلا گیا۔ جب تک پاکستان میں رہا، میں اپنی اس مادرِِ علمی سے فیض حاصل کرتا رہا۔ کسی نہ کسی بہانے زیارت کرنے آجاتا تھا، مگر اب میں پندرہ سال بعد پاکستان آیا ہوں اپنے کچھ نجی کام سے۔ پاکستان ائرفورس میں میری پوسٹنگ مختلف شہروں میں ہوتی رہی۔ میں ہر سال کسی نہ کسی طرح ایک دن کے لیے کراچی ضرور آتا تھا۔ اپنے اسکول سے مجھے عشق ہے، والہانہ عشق۔‘‘ جاوید کے لہجے اور اس کے خلوص کی چاشنی سے ہیڈ ماسٹر بہت متاثر تھے۔ وہ آگے بڑھے، اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے ’’بیٹا مجھے خوشی ہے کہ ہمارے طلبہ میں تم جیسے ہونہار نوجوان موجود ہیں۔‘‘
’’سر! میں اپنی کلاس دیکھنا چاہتا ہوں…‘‘ وہ جھجکتے ہوئے بولا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے چوکیدار کو اس کے ساتھ جانے کا اشارہ کیا اور خود اپنے کمرے میں چلے گئے۔ جاوید چوکیدار کے ساتھ تیزی سے کلاس کی طرف جارہا تھا۔ اسکول کی عمارت کسی آثارِ قدیمہ کا نمونہ پیش کررہی تھی۔ ٹوٹی چھتیں، خستہ بوسیدہ دیواریں، کھیل کا بڑا سا میدان جہاں جاوید نے مخالف اسکولوںکے ساتھ ڈھیروں میچ کھیلے اور جیتے تھے، خودرو جھاڑیوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس کی اپنی کلاس جس کا وہ مانیٹر تھا اور کلاس کی صفائی کا خاص خیال رکھتا تھا‘ آج کھنڈر نظر آرہی تھی۔ کلاس میں پچیس طلبہ تھے جو خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ کلاس میں استاد کرسی پر بیٹھے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے۔ وہ جب محمد خان کے ساتھ کلاس میں داخل ہوا تو کرسی پر بیٹھے ہوئے استاد کی گود میں سے کتاب گر گئی، کیوںکہ وہ شاید اونگھ گئے تھے۔
’’گڈ مارننگ سر…‘‘ طلبہ کی اجتماعی آواز سے انہوں نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں اور اچھل کر کھڑے ہوگئے۔ شاید وہ معائنہ ٹیم کے کسی آفیسر کے مغالطے میں تھے۔ جاوید کو دیکھ کر تیزی سے تختہ سیاہ پر لکھنا شروع کردیا۔ جاوید نے سنجیدگی سے کلاس پر نظر ڈالی اور تیزی سے باہر آگیا۔ اس کا دل بڑا بوجھل ہوگیا تھا۔ کلاس سے نکل کر اسے یاد آیا کہ اس کی ٹیکسی باہر کھڑی ہے جس میں اس کا سامان بھی ہے اور اسے ائرپورٹ جانا ہے جہاں چار گھنٹے کے بعد امریکا کے لیے اس کی روانگی ہے، مگر جانے سے پہلے وہ ہیڈ ماسٹر صاحب سے ملنا چاہتا تھا۔ اس نے جھجکتے ہوئے اجازت طلب کی ’’سر میں حاضر ہوسکتا ہوں؟‘‘
’’آیئے آیئے، دیکھ لی آپ نے اپنی کلاس…؟‘‘
’’سر دیکھ لی، مگر اسکول کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے یہاں برسوں سے رنگ و روغن نہیں ہوا۔ اسکول کی دیواریں، چھتیں، ڈیسکیں… یہ سب دیکھ کر تو یوں محسوس ہورہا ہے جیسے ہم کسی برسہا برس پرانی ٹوٹی پھوٹی عمارت میں آگئے ہیں۔ پندرہ سال پہلے بھی اس کی یہ حالت نہیں تھی۔‘‘ اس کا لہجہ بھیگ رہا تھا، آنکھوں میں نمی آنے لگی تھی۔ یہی تو وہ گلشن تھا جہاں سے وہ علم کی خوشبو سمیٹ کر نکلا تھا۔ اسی مادرِ علمی نے تو اس کو سچ اور جھوٹ، اچھائی اور برائی کی تمیز سکھائی تھی۔ یہاں کے اساتذہ نے اپنے عمل سے نظم و ضبط اور تنظیم کا سبق اسے دیا تھا۔
ہیڈ ماسٹر صاحب شرمندہ سے تھے۔ ’’کیا بتائوں بیٹا، صوبائی حکومت اور شہری حکومت کے آپس کے تنازعات نے شہر میں تمام گورنمنٹ اسکولوں کی یہی حالت بنادی ہے۔ ہم لوگ اپنی شکایت شہری حکومت کو لکھ کر بھیجتے ہیں، صوبائی حکومت اس کو یک لخت مسترد کرکے شہری حکومت پر پابندی لگا دیتی ہے۔ چنانچہ درخواستوں کا فائلوں میں بند پلندے کی شکل میں ناظم اعلیٰ کے دفتر میں ڈھیر لگا ہوا ہے۔ طلبہ کے پاس کتابیں نہیں ہیں۔ شہری حکومت نے اعلان کیا تھا کہ طلبہ کو ششم سے ہشتم تک شہری حکومت ہی کتابیں فراہم کرے گی۔ اس اعلان کے بعد سلیبس بدل گیا، آٹھ ماہ گزر گئے ہیں مگر ابھی تک فیصلہ نہیں ہو پایا کہ پرانے کورس سے امتحان ہوگا یا نئے کورس سے؟ نئے سلیبس میں غیر اسلامی چیزیں شامل ہیں، پرانے کورس میں معلومات اَپ ڈیٹ نہیں۔ اس کشمکش میں وقت گزر رہا ہے۔ اساتذہ ایسے تکلیف دہ حالات میں کیا پڑھائیں؟ ان کی ترقیاں رکی ہوئی ہیں، سفارش اور رشوت دونوں کا محکمۂ تعلیم میں بازار گرم ہے، ہر ترقی کے لیے ریٹ مقرر ہیں۔ مایوس اساتذہ ان حالات میں ذہنی کرب کا شکار ہیں، ان کا دل پڑھانے میں نہیں لگتا، طلبہ بھارتی چینل دیکھ دیکھ کر تعلیم سے قطعاً لاپروا ہوگئے ہیں۔ تعلیم صرف پرائیویٹ اسکول دے رہے ہیں، کیوں کہ وہ حکومت کے دبائو سے آزاد اور قطعاً خودمختار ہیں۔ نہ وہ حکومت کے کسی حکم کو مانتے ہیں، نہ اس کی پابندی کرتے ہیں۔ حکومت کی کسی تجویز اور مشورے کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے۔ ان کا اپنا نصاب ہے، اپنے اصول ہیں اور ہزاروں کے حساب سے فیس وصول کرتے ہیں۔ کئی اسکول تو فیس ڈالر میں وصول کررہے ہیں۔ غریب ذہین طلبہ وہاں سے تعلیم حاصل نہیں کرسکتے، کیوں کہ وہاں تک ان کی رسائی نہیں۔ جو حکومت آتی ہے وہ پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھتی ہے۔ معیارِ تعلیم گورنمنٹ اسکولوں میں نہیں، پرائیویٹ اسکولوں میں نظر آتا ہے۔ اگر گورنمنٹ اسکول کا کوئی ذہین بچہ بورڈ کے امتحان میں پوزیشن حاصل کر بھی لے تو پرائیویٹ اسکول کے مالکان ان نتائج کو بورڈ سے مہنگے داموں خرید کر اپنے اسکول کے کسی طالب علم کے گلے میں سجا دیتے ہیں۔‘‘
ہیڈ ماسٹر خاصے دلبرداشتہ تھے، جاوید کی ہمدردی پاتے ہی اپنا دل اور زبان اس کے سامنے کھول کر رکھ دیے۔ حیرت سے جاوید سن رہا تھا۔
ائرپورٹ سے کلفٹن جاتے ہوئے اس نے کشادہ سڑکیں، فلائی اوور اور پارک دیکھے اور دل میں طمانیت کا احساس ہوا۔ امریکا میں رہتے ہوئے اسے پاکستان کا ہر گلی کوچہ یاد آتا تھا۔ امریکا میں صاف ستھری کشادہ سڑکیں، فلائی اوورز اور معیارِ زندگی دیکھ کر ہمیشہ دل سے دعا کرتا تھا کہ کاش میرا وطن ایک فلاحی مملکت بن جائے… کاش پاکستان میں بھی تعلیم عام ہوجائے… مگر اپنے اس اسکول کو دیکھ کر وہ تڑپ اٹھا۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے ان تمام خرابیوں کا ذمے دار وہ خود ہے، وہ کیوں اپنے وطن کو چھوڑ کر غیروں کے دیس میں جا بسا…! اپنے ملک کی خدمت کے بجائے دوسروں کی غلامی کو اس نے کیوں ترجیح دی! وہ اُن سیاست دانوں سے بھی نالاںتھا جو ووٹ لیتے وقت تو ایک ایک دروازے پر جاکر خوشامد کرتے ہیں، اور ووٹ حاصل کرکے جیتنے کے بعد کسی عہدے پر فائز ہوکر انہی لوگوں سے چھپنے لگتے ہیں۔ ان کے کام کرنے کے بجائے ان سے بچنے کے لیے اپنے اردگرد سیکورٹی کی تعداد بڑھا لیتے ہیں۔ ہم سب کمزور لوگ ہیں، بے عمل اور کم ظرف۔ ایک بہترین اور دائمی نظامِ حیات ہوتے ہوئے بھی طاغوتی طاقتوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ اس نے اپنا بریف کیس میز پر رکھا، اسے کھول کر دیکھا، 35 لاکھ کی رقم جو اس کی پنشن کی تھی اس کے سامنے تھی۔ اس نے لمحے بھر کو ہیڈ ماسٹر صاحب کو دیکھا جو حیرت سے منہ کھول کر رہ گئے تھے۔
اس نے نوٹوں کی گڈیاں اٹھا کر ہیڈ ماسٹر صاحب کے سامنے رکھ دیں ’’سر! یہ نذرانہ ہے میری طرف سے میرے اس گلشن کے لیے، جس کی خوشبو مَیں اپنی ہر سانس میں محسوس کرتا ہوں، جس کے در و دیوار سے مجھے والہانہ پیار ہے، اسی نے مجھے ہر لمحہ بھٹکنے سے بچایا ہے، سر اس کو ویران ہونے سے بچا لیجیے… آپ بغیر گورنمنٹ کی مدد کے اپنے طور پر مزدور لگا کر اس کی مرمت کرائیں اس سے پہلے کہ اس کی چھتیں طلبہ پر گریں اور میرا یہ گلشن بند کردیا جائے۔ اس کو اجڑنے سے آپ ہی بچا سکتے ہیں سر… یہ نذرانہ ان محبتوں کا قرض ہے جو اس ادارے نے مجھے دی ہیں۔ یہ قرض مجھ پر واجب ہے، میں ان شاء اللہ آئندہ بھی کچھ نہ کچھ کرتا رہوں گا اس چمن کی شادابی کے لیے۔‘‘ اس سے پہلے کہ ہیڈ ماسٹر کچھ سمجھتے یا اس کا شکریہ ادا کرتے، وہ تیزی سے باہر نکل گیا جہاں ٹیکسی والا اس کا انتظار کررہا تھا۔

حصہ