قرآن کریم اور روحانیت

2340

پروفیسر محمد سعود عال قاسمی
اللہ کی رضا کا حصول روحانیت کا سب سے بلند مرتبہ ہے۔ اس مرتبے کو حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے مضبوط قلبی تعلق مطلوب ہے اور یہی عبادت کی روح ہے۔ جبریل امینؑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لے گئے ، آنجنابؐ نے پوچھا کہ احسان کیا ہے ؟ تو انھوں نے فرمایا:
اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ (الجامع الصحیح مسلم) اللہ کی عبادت اس طرح کیجیے کہ گویا آپ اللہ کو دیکھ رہے ہیں۔ اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہو تو اتنی کیفیت پیدا کیجیے کہ خد اآپ کو دیکھ رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے رُوبرو ہونا بندگی کا کمال ہے، مگر اس کیفیت کا دل میں پیدا ہونا پاکیزگیِ قلب اور انابت کی گہرائی چاہتا ہے۔خدا کو دیکھنے کی کیفیت پیدا کرنے کے لیے اعضاو جوارح کی تربیت کے ساتھ نفس کا تزکیہ اور دل کی خشیت ضروری ہے ۔ اس سے نیچے کی منزل یہ ہے کہ یہ کیفیت پیدا ہوجائے کہ خدا ہم کو دیکھ رہا ہے۔ یہ تصور بھی انسان کے دل کو بدل دیتا ہے اور نفس کے شروروفتن کوزائل کر دتیا ہے۔ یہی اخلاص ہے۔
٭اخلاص
ایک مزدور کو اگریہ معلوم ہو کہ اس کا مالک موقعے پر موجود نہیں ہے تو وہ کام میں سستی کرتا ہے، وقت ضائع کرتا ہے اور کام کرتا بھی ہے تو بے دلی سے کرتا ہے، کام کا مطلوبہ نتیجہ نہیں نکلتا ۔ لیکن اگر کسی مزدور کو یہ معلوم ہو کہ اس کا مالک اس کے سامنے کھڑا ہے تو کام میں چستی دکھاتا ہے ، جی لگا کر کام کرتا ہے اور وقت گذاری سے پرہیز کرتا ہے۔ اسی طرح بندے کو یہ احساس ہو جائے کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے تو اس کے دل کی کیفیت اور جسمانی عمل کی حالت بدل جاتی ہے۔اس کی عبادت میں یکسوئی پیدا ہو جاتی ہے اور اسی سے اخلاص پیدا ہوتا ہے۔عبادت سے مراد صرف نماز نہیں ہے بلکہ ہر قسم کی عبادت ہے اور ہر عبادت اپنی قبولیت کے لیے اخلاص چاہتی ہے۔ اللہ کی رضا جوئی ، بے لوث بندگی ، اللہ سے خوف وامید کے ساتھ طلب، قبولیت کے دروازے کھولتی ہے۔ کسی عمل میں نام ونمود اور ریا کاری شامل ہو جاتی ہے تو اللہ اپنی رحمت سے محروم کر دیتا ہے اور وہ عمل مقبول نہیں ہوتا ۔ اسی لیے اللہ کا حکم ہے:
فَاعْبُدِ اللہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّيْنَ۝۲ۭ اَلَا لِلہِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ۝ (الزمر ۳۹:۲-۳) اللہ کی عبادت کرو اس کے لیے دین کو خالص کر کے، آگاہ رہو کہ دین خالص اللہ کے لیے ہے۔
صدقہ ،زکوٰۃ ، خیرات ، غربا پروری اور ناداروں کی حاجت روائی سب انسانیت کی بھلائی اور روحانیت کی ترقی کا عمل ہے ،مگر اس کی شرط بھی اللہ کی رضا جوئی ہے۔ ارشاد ہے:
وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّہٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا۝۸ اِنَّمَا نُـطْعِمُكُمْ لِوَجْہِ اللہِ لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُكُوْرًا۝۹ اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِيْرًا۝۱۰ (الدھر ۷۶:۸۔۱۰) اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم کو اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں کہ ) ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ تو کوئی بدلہ چاہتے ہیںنہ شکریہ۔ ہمیں تو اپنے رب سے ا س دن کے عذاب کا خوف ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہو گا۔
٭اللہ کا ذکردل کی زندگی ہے
اخلاص کے لیے اللہ کے حاضرو ناظر ہونے کا احساس ضروری ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی یاد، اس کا استحضار اور اس کا ذکر کرتے رہنا روحانیت کی شاہِ کلید ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى۝۱۴ۙ وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰى۝۱۵ۭ بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا۝۱۶ۡۖ وَالْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰى۝۱۷ۭ اِنَّ ہٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى۝۱۸ۙ صُحُفِ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى۝۱۹ۧ (الاعلٰی ۸۷: ۱۴-۱۹) بے شک وہ شخص کامیاب ہو گیا جس نے اپنا تزکیہ کیا، اپنے رب کے اسم گرامی کا ذکر کیا اور نماز ادا کی ، بلکہ تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، جب کہ آخرت باقی رہنے والی اور بہترہے۔ یہ بات گذشتہ آسمانی صحیفوں میں بھی موجود ہے، صحیفہ ابراہیم ؑاور صحیفہ موسیٰ ؑ میں۔
اللہ کے ذکر سے روحانیت جِلا پاتی ہے اور روحانی ترقی نصیب ہوتی ہے۔ یہ بات پہلے بھی تمام آسمانی صحیفوں میں بیا ن کی گئی ہے اور اس قرآن میں بھی اس کی تائید کی گئی ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللہَ ذِكْرًا كَثِيْرًا۝۴۱ۙ وَّسَبِّحُــوْہُ بُكْرَۃً وَّاَصِيْلًا۝۴۲ (الاحزاب ۳۳:۴۱-۴۲) اے ایمان والو! اللہ کا کثرت سے ذکر کرو اور صبح وشام اس کی تسبیح کرو۔
دل میں اللہ کی یاد اور زبان سے اس کا ذکر قلب انسانی کو تروتازہ رکھتا ہے۔ ذکر الٰہی روح کی غذا ہے۔جس دل میں خدا کی یاد ہو وہ زندہ ہے اور جو دل یادِ خدا سے غافل ہو وہ مُردہ ہے۔ قرآن نے یہ راز اس طرح عیاں کیا ہے:
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِكْرِ اللہِ ۝۰ۭ اَلَا بِذِكْرِ اللہِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ۝۲۸ۭ (الرعد ۱۳:۲۸) جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے طمانیت پاتے ہیں۔ آگاہ ہو کہ اللہ کے ذکرہی سے دلوں کو تسکین ملتی ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روحانی نکتے کی مزید وضاحت اس طرح فرمائی ہے:
مَثَلُ الَّذِیْ یَذْکُرُ رَبَّہٗ وَالَّذِیْ لَا یَذْکُرُہٗ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ (الجامع الصحیح بخاری ) اس شخص کی مثال جو خدا کو یاد کرتا ہے زندہ کی ہے، اور اس شخص کی مثال جو خدا کو یاد نہیں کرتا مُردہ کی ہے۔
قرآن کی نظر میں ہر سانس لینے والا انسان زندہ نہیں ہے بلکہ ذکر کرنے والا انسان زندہ ہے۔ جسمانی زندگی کھانے سے اور سانس لینے سے قائم رہ سکتی ہے مگر روحانی زندگی یادِخدا کے بغیر قائم نہیںرہ سکتی۔ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا۔اسلام کے احکام تو بہت سے ہیں مجھے کوئی ایسی بات بتا دیجیے جسے میں لازم پکڑلوں۔رسولؐ پاک نے ارشاد فرمایا :
لَا یَزَالُ لِسَانُکَ رَطْبًا مِنْ ذِکْرِ اللہِ (سنن ترمذی ) تمھاری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تروتازہ رہے۔
اللہ کے ذکر کی ایک تو عمومی شکل ہے کہ اٹھتے بیٹھتے ، سوتے جاگتے ، صبح وشام اللہ کے نام کا ورد کیجیے ، اس کی تسبیح کیجیے ، جس کا حکم قرآن پاک میں اس طرح دیا گیا ہے:
وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَــہْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ۝۲۰۵ (الاعراف ۷:۲۰۵) اپنے جی میں اپنے رب کا ذکر کرو،عاجزی اور خاموشی اور کم آواز سے صبح وشام اور غافلوں میںنہ ہوجائو۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے:
فَسُـبْحٰنَ اللہِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ۝۱۷ وَلَہُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـيًّا وَّحِيْنَ تُظْہِرُوْنَ۝۱۸ (الروم۳۰:۱۷-۱۸) اللہ سزا وارۂ تسبیح ہے،جب تمھاری شام ہو اور جب تمھاری صبح ہو،اسی کے لیے آسمان وزمین میں حمد ہے، رات میں بھی اور جب تمھارا دن ہو۔
اللہ کا ذکر انسان کے میل کچیل کو دھو دیتا ہے، دل کی سختی کو دور کر کے خشیت وانابت پیدا کر دیتا ہے، اور اسے بارگاہِ رب العزت میں نذر کے قابل بنادیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْہِمْ اٰيٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِيْمَانًا وَّعَلٰي رَبِّہِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ۝۲ۚۖ (الانفال ۸:۲)سچّے اہل دل تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں توان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمومی ذکر کے لیے بہت سے وظائف کی تعلیم فرمائی ہے۔ اس میں سب سے آسان ا ور مقبول ذکر ہے ـ:
سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کَلِمَتَانِ خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ ، ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَانِ ،حَبِیْبَتَانِ اِلَی الرَّحمٰنِ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ (الجامع الصحیح بخاری) دو جملے رحمن کو بہت بہت پسند ہیں، وہ جملے زبان پر ہلکے اور میزان میںبھاری اور رحمن کو محبوب ہیں۔
سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ ۔
اللہ کے ذکر کی دوسری شکل خاص اور ضابطۂ بند ہے اور وہ نماز ہے جو پانچ وقتوں میں فرض ہے اور بقیہ اوقات میں نفل ہے۔ نماز کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَقِـمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ (طہٰ ۲۰:۱۴) نماز قائم کرمیری یاد کے لیے ۔
ذکر کی منظم اور مکمل صورت نماز ہے۔اسی لیے نماز کو مو من کی معراج فرمایا گیا ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِنَّ اَحَدَکُمْ اِذَا صَلّٰی یُنَاجِیْ رَبَّہُ ،’’جب تم میں سے کوئی نماز ادا کر رہا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے‘‘۔
بندہ کا خدا سے ،حبیب سے مکالمہ وجدانگیز ، روح پرور اور حاصل زندگی ہوتا ہے۔ یہ مقام انسان کو نماز سے حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَيِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ ۝۰ۭ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہِبْنَ السَّـيِّاٰتِ ۝۰ۭ ذٰلِكَ ذِكْرٰي لِلذّٰكِرِيْنَ۝۱۱۴ (ھود ۱۱:۱۱۴) نماز قائم کرو دن کے کناروں میںاور رات کے حصے میں، بے شک نیکیاں برائیوں کو زائل کر دیتی ہیں، یہ نصیحت ہے ذکر کرنے والوں کے لیے۔
عمومی ذکر کا اعتبار اسی وقت ہوتا ہے جب انسان ذکر خصوصی، یعنی نمازکااہتمام کرتا ہو۔ جو شخص فرض نمازوں کا پابند نہیں وہ لاکھ ذکر الٰہی کا دعویٰ کرے اس کا دعویٰ معتبر نہیں، کیوں کہ ایمان اور کفر کے درمیان حدِ فاصل نماز ہے۔ جو شخص خدا کا دوست ہونے کا دعویٰ کرتاہے وہ اس کے آگے سر جھکانے سے اور اس کے حکم کی تعمیل کرنے سے کیسے روگردانی کرسکتا ہے۔
٭اعمالِ صالحہ
نماز کے علاوہ دوسری تمام عبادات کا اہتمام کرنا،جیسے صدقہ، زکوٰۃ ، خیرات، روزہ ،حج ، جہاداور ان عبادات کے علاوہ تمام اعمالِ صالحہ کا التزام کرنا روحانیت کے لیے لازم ہے۔ صرف کلمۂ توحید کا اقرار کرنا اور شرک وکفر سے پرہیز کرنا روحانی زندگی کے لیے کافی نہیں ہے، بلکہ نیک عمل کو زندگی کا طریقہ اور وظیفہ بنا لینا ضروری ہے۔ روحانیت کے لیے اعمال صالحہ کا اہتمام کرنے کی ضرورت اور حکمت کیا ہے؟ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے علامہ سید سلیمان ندوی ؒ نے لکھا ہے:
ــ’’عیسائیوں میں جیسا کہ پال کے خطوط میں ہے، صرف ایمان پر نجات کا دارومدار ہے، اور بودھ دھرم میں صرف نیکو کاری سے نروان کا درجہ ملتا ہے اور کہیں صرف گیان اور دھیان کو نجات کا راستہ بتایا گیا ہے ، مگر پیغمبر اسلام علیہ السلام کے پیغام نے انسانیت کی نجات کا ذریعہ ذہنی (ایمان) اور جسمانی (عمل صالح ) کو ملا کر قرار دیا ہے، یعنی پہلی چیز یہ ہے کہ ہم کو اصول کے صحیح ہونے کا یقین ہو، اس کو ایمان کہتے ہیں ، پھر یہ کہ ان اصولوں کے مطابق ہمارا عمل درست اور صحیح ہو،یہ عمل صالح ہے۔ ہر قسم کی کامیابیوں کا انحصار انھی دوباتوں پرہے۔کوئی مریض صرف اصول طبی کوصحیح ماننے سے بیماریوں سے نجات نہیں پا سکتا ، جب تک وہ ان اصولوں کے مطابق عمل بھی نہ کرے۔ اسی طرح صرف اصولِ ایمان کو تسلیم کر لینا انسانی فوز وفلاح کے لیے کافی نہیںہے جب تک ان اصولوں کے مطابق پورا پورا عمل بھی نہ کیا جائے‘‘۔(سیّد سلیمان ندوی، سیرت النبیؐ، ج۵، اعظم گڑھ، ۲۰۱۱ء، ص۱۱)
عمل صالح کا اہتمام کرنے سے انسان اللہ کی نظر میںبھی محبوب ہو جاتا ہے اور دوسرے انسان بھی اس سے محبت اور اس کی عزت کرنے لگتے ہیں،یعنی جو اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوتا ہے وہ بندوں کی نظر میں بھی محبوب ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ ارشاد ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَيَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا۝۹۶ (مریم ۱۹:۹۶) جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے عمل صالح کا اہتما م کیا عنقریب رحمٰن ان کو دوست بنائے گا۔
٭ترک معاصی
اعمالِ صالحہ کا فائدہ انسان کو اس وقت ہوتا ہے جب وہ بُرے اعمال ، بُرے خیالات اور بُری باتوں سے اجتناب کرے۔ اعمالِ صالحہ روحانی امراض کے لیے دوا ہیں اور بری باتوں سے دُور رہنا پرہیز کے درجے میں ہے۔جب تک مریض پرہیز نہیں کرتا دوا کارگر نہیں ہوتی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَذَرُوْا ظَاہِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَہٗ ۝۰ۭ
(الانعام ۶:۱۲۰) ظاہری اور باطنی ہر قسم کی برائی ترک کر دو۔
بُرے اعمال اور بُرے خیالات کا اثر انسان کے قلب وذہن پر پڑتا ہے اور اسے روحانی کیفیات کا حامل بننے سے روکتا ہے۔ قرآن پاک میںہے:
كَلَّآ بَلْ ۝۰۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۝۱۴ (المطففین ۸۳:۱۴) ہرگز نہیں، بلکہ ان کے اعمال کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے ۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نکتہ بن جاتا ہے۔اگر وہ اس سے توبہ واستغفار کرتا ہے تو وہ سیاہی زائل ہو جاتی ہے، اور اگر وہ پھر گناہ کرتا ہے توسیاہی زیادہ ہو جاتی ہے۔ یہی وہ زنگ ہے جس کاذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے۔
اس لیے روحانیت کی سب سے پہلی منزل یہ ہے کہ اوصاف رزیلہ انسان کے دل سے نکل جائیں اوردوسری منزل یہ ہے کہ اوصاف حمیدہ کادل خوگرہو جائے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے توبہ و استغفار کرنے کا حکم دیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللہِ جَمِيْعًا اَيُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۳۱ (النور ۲۴:۳۱) اے مومنو! تم سب اللہ سے توبہ کرو تا کہ فلاح پائو۔
٭توبہ واستغفار
انسان سے دانستہ خطائیں سر زد ہوتی ہیں۔توبہ ان خطائوںسے معافی کادروازہ کھولتی ہے اور اللہ کی رحمت کومتوجہ کرتی ہے۔اللہ کو وہ بندہ پسند ہے جو غلطی کرے تو اللہ سے توبہ واستغفار کرے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور حضرت آدم ؑ اور ابلیس دونوں سے غلطی سرزد ہوئی۔ حضرت آدمؑ کی غلطی یہ تھی کہ اللہ کے منع کرنے کے باوجود انھوں نے شجر ممنوعہ کا پھل کھا لیا اور ابلیس کی غلطی یہ تھی کہ اللہ کے حکم دینے کے باوجود حضرت آدمؑ کو سجدہ نہ کیا۔ دونوں خطا کار تھے مگر ایک راندۂ دربار ہوا اور دوسرے نے معافی اور محبت پائی،اس لیے کہ دونوں کے رویے میں بڑا فرق تھا۔
پہلا فرق یہ تھا کہ حضرت آدم ؑنے اپنی غلطی کا اقرار کیا مگر ابلیس نے اپنی غلطی کا اقرار نہیں کیا ۔ دوسرا فرق یہ تھا کہ حضرت آدم ؑاپنی غلطی پر نادم ہوئے اور ابلیس کو اپنی غلطی پر ندامت نہیں ہوئی۔ تیسرا فرق یہ تھا کہ حضرت آدمؑ نے اپنی غلطی کو اپنے نفس کی خطا قرار دیا اور ابلیس نے اپنی غلطی کو خد ا سے منسوب کیا اور کہا: رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ(الحجر۱۵:۳۹)’’اے رب تو نےمجھے گمراہ کیا‘‘۔ چوتھا فرق یہ تھا کہ حضرت آدمؑنے گڑگڑا کر توبہ کی اور کہا:
رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنفُسَنَا وَ اِن لَّمْ تَغفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الخٰسِرِینَ اے ہمارے رب ہم نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں معاف نہ کرے اور رحم نہ کرے تو ہم خسارے میں مبتلا ہو جائیں گے۔
اور ابلیس توبہ کرنے کے بجاے گناہ پہ قائم رہا۔ابلیس کا یہ رویہ غلطی پر اصرار اور سر کشی کا تھا۔ حضرت آدمؑ کا رویہ عاجزی کا تھا۔ ابلیس نے استکبار کیا،حضرت آدم ؑنے استغفار کیا۔ اسی فرق نے دونوں کے انجام کو جدا کیا۔ ابلیس ملعون ہوا اور حضرت آدمؑ محبوب ہوئے۔

حصہ